آہ ! زینب کی آخری نظم

اتوار 14 جنوری 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

میں ایک لڑکی ہوں، میرا نام زینب ہے۔ میں پاکستانی ہوں“۔ قصور میں زیادتی کے بعد بہیمانہ انداز میں قتل ہونے والی زینب کی سکول کی کاپی پر لکھی تحریروں نے پڑھنے والی ہر آنکھ کو اشک بار کردیا۔ ننھی زینب کی کتابیں اور کاپیاں اسی طرح اس کے بیگ میں موجود ہیں، جن پر 4 جنوری تک کا ہوم ورک موجود ہے۔ یہ وہی روز ہے جب زینب اغوا ہوئی اور پھر کبھی لوٹ کر گھر واپس نہ آئی۔

اردو کے ہوم ورک میں زینب نے ” میری ذات “ پر ایک مضمون میں اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھا کہ میں ایک لڑکی ہوں، میرا نام زینب ہے، میرے والد کا نام امین ہے، میری عمر سات سال ہے، میں قصور میں رہتی ہوں، میں اول جماعت میں پڑھتی ہوں، میں الفاروق سکول میں پڑھتی ہوں، مجھے آم بہت پسند ہیں۔ادھرمیڈیا رپورٹس کے مطابقتحر یک انصاف نے پنجاب میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور دیگر جرائم میں بدتر ین اضافے پر ”فلاپ حکومت “کے نام سے وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں روزانہ خواتین اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے 4سے5واقعات ہو رہے ہیں‘پنجاب میں ایک سال کے دوران خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے1725مقدمات اجتماعی زیادتی کے 195مقدمات رپورٹ ہوئے ‘ایک سال کے دوران6ہزار سے زائدمردو خواتین اور بچے مختلف واقعات میں قتل ہوئے ‘100سے زائد خواتین اور بچے اغواء اور زیادتی کے بعد قتل ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

بچوں اور خواتین کیساتھ زیادتی اور اغوا کے ملزموں کے مقدمہ دہشت گردی کے عدالت میں چلانے اور انکو سر عام پھانسی دینے کیلئے قانون سازی کی جائے‘قصور کی زنیب کے قاتل کو نشانہ عبر ت بنانا ہوگا ورنہ قوم حکمرانوں کو معاف نہیں کر یگی۔ وائٹ پیپر کے مطابق پنجاب میں بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے پولیس ریکارڈ اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں اوسطا ہر روز 11 معصوم بچے جنسی درندگی کا شکار بنتے ہیں جن میں سب زیادہ تعداد پنجاب کی ہے اور ملزموں کو پکڑ نے کی شرح20فیصد سے بھی کم ہے جنسی تشدد کے ان واقعات کو صوبائی بنیاد وں پر دیکھا جائے تو پنجاب 1089 واقعات کے ساتھ سرفہرست رہا اور رواں ماہ قصور اور فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور انکے قتل نے بدترین حکومتی نااہلی کا پول کھول دیا ہے۔

وائٹ پیپر میں چوہدری محمدسرور نے مزید بتایا کہ2017 ء خواتین کیلئے بھی کچھ اچھا نہیں گزرا۔ 4ہزار سے زائدبداخلاقی اور اجتماعی بداخلاقی کے واقعات میں پولیس نے مقدمات درج کرنے کی بجائے مدعیوں اور ملزمان میں صلح کروائی۔ موجودہ حکمرانوں نے صوبے میں امن وامان کے قیام کے جھوٹے دعوؤں کے سواکچھ نہیں کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی بدتر ین ناکامیوں اور پولیس کی نااہلی کی وجہ سے جرائم پیشہ پنجاب کو اپنے لیے محفوظ ترین پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔


پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی ”میڈیا ڈور“ کے مطابق زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعہ کا مقدمہ وزیراعلی شہباز شریف، وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور آئی جی پنجاب کے خلاف درج کرنے کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی گئی۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے سربراہ محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت آئینی طور پر شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔

قصور میں پیش آنے والے واقعہ کے ذمہ دار وزیر اعلی اور وزیر قانون ہیں۔ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہ کرنے پر وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف، وزیر قانون پنجاب راناثناء اللہ اور آئی جی پنجاب کے خلاف اندارج مقدمہ کا حکم دے۔اب جب زینب کے ساتھ ہونیوالی سفاکیت سامنے آئی تو علاقے کے لوگوں کا مشتعل ہونا فطری امر تھا مگر تشدد کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔

زینب کے والد نے پرامن احتجاج کی بات کی۔ مگر پرامن اجتماعات کو کچھ لوگ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ شرپسند بھی ہجوم کا حصہ بن کر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ عموماً ایسے ہجوم کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے اگر انتظامیہ عقل و خرد سے کام لے تو نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے بھی جدید دور میں کئی طریقے ہیں۔ بڑے سے بڑا ہجوم بھی بپھر جائے تو لاٹھی چارج آخری آپشن ہوتا ہے۔

اپنے لوگوں پر فائرنگ سرے سے آپشن ہے ہی نہیں۔ انتہائی ناگزیرحالت میں بھی ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے اور امن قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے سیدھی فائرنگ کو پہلے آپشن کے طور پر اختیار کرتے دیکھے گئے ہیں جس سے حالات سلجھنے تو کیا ہوں‘ مزید الجھتے چلے جاتے اور قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ پھر رینجرز اور فوج کو طلب کرنا پڑتا ہے۔

پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی بھی کاغذی کارروائی پوری کرنے کیلئے فٹافٹ تشکیل دیدی۔ بچی کے والد نے اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔کچھ لوگ نصیحت کررہے ہیں کہ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں؟ کیا بچوں کو گھروں میں قید کردیا جائے۔ یہ پتھر کا دور نہیں ہے‘ جدید دور ہے۔ ایسا ظلم تو شاید پتھر کے دور میں بھی نہ ہوتا ہو۔ اگر بچے گھر سے باہر جائیں تو اس کا مطلب کہ جو بھی انہیں اٹھا کرلے جائے‘ انکے ساتھ جو بھی کرے اور قانون کی نظروں سے بچ جائے‘ یہ تو جنگل کا قانون ہوگیا۔

ہمیں بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ یہی نونہالان قوم معمارانِ مملکت ہیں۔ بچوں کے ساتھ جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں‘ ایسے جرائم دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں جس کی سزا موت ہے۔ جس کے تحت متاثرہ بچی یا بچے کے لواحقین بھی مجرم کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ بچوں کو جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ایسے قوانین کی اشد ضرورت ہے جن کا عنوان ہی یہ ہو کہ جو بچوں کو ہاتھ لگائے پھانسی کی سزا پائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :