ویلفیئر ریاست سے بھی آگے

اتوار 8 جنوری 2017

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

عام طور پر چند رسومات اور عقائد کے مجموعہ کو مذہب کہتے ہیں جن کا معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبہ ہائے زندگی تعلق ضروری نہیں ہوتا۔مذہب خدا اور بندے کے درمیان ایک پرائیویٹ تعلق اور ذاتی مسئلہ ہوتا ہے جس میں وہ چند مذہبی رسومات کو ادا کرکے اطمینان ہوجاتا ہے کہ اسے خوشنودی اور نجات حاصل ہوجائے گی۔ مذہب میں کوئی ایسا معیار نہیں ہوتا جس سے یہ علم ہوسکے کہ یہ اعمال نتیجہ خیز ہیں بھی یا نہیں۔

مذہب اور دین میں بہت فرق ہے ۔ دین اس سے برعکس اجتماعی نظام اور خارجی حقیقت ہوتا ہے۔ دین وسیع معنی رکھتا ہے جس میں حکومت، اقتدار، غلبہ، مملکت، قانون، اطاعت اور فرماں برداری شامل ہیں۔ چونکہ اسلام ایک نظام زندگی ہے اور اسے عملی طور پر متشکل کرنے کے لئے مملکت، قانون اور اقتدار کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے یہ وہاں ہوگا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی۔

اسلام کا موازنہ یہودیت، عیسائیت، بدھ مت، ہندو مت اور دیگر مذاہب کی بجائے نظاموں سے کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ۔ عام لوگ تو ایک طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی اسلام کے بارے میں غلط فہمی ہوتی ہے اور وہ بھی اسلام کو ایک مذہب ہی سمجھتے ہیں ہے حالانکہ قرآن حکیم میں مذہب کا لفظ تک موجود نہیں۔ اسلام ایک دین اور نظام زندگی ہے جبکہ مذہب اس کا صرف ایک جزو ہے ۔

اسلام کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ تو تمام مذاہب کے لئے ایک چیلنج ہے۔ یہ ایک زندگی گذارنے کا ایک نظام ہے جو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور انفرادی ہر سطح پر اپنا پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے انبیاء اکرام اس وقت کے سیاسی نظام کو بدلنے کی جد دجہد کرتے تھے، وہ صرف نمازیں پڑھانے یا بتوں کی عبادت سے روکنے نہیں آتے تھے۔

ہر نبی اور رسول اپنے دور کے سیاسی و معاشی نظام کو چیلنج کرتے تھے جس میں انسانوں نے انسانوں کو محکوم بنا رکھا ہوتا تھا۔ حضرت شعیب، حضرت صالح اور حضرت نوح نے لوگوں محض خدا کی رسمی عبادت کی تبلیغ نہ کی بلکہ اپنے دور کے استحصالی نظام کو بدلنے کی جدوجہد کی۔ حضرت ابراھیم، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے اپنے وقت کے حکمرانوں اور اس سیاسی نظام کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔

انہوں نے یہ نہیں کیا کہ سیاسی نظام وہی رہے اور لوگوں کو نماز روزے کی تبلیغ کریں ۔دین آتے ہی سب سے پہلے سیاسی نظام کو چیلنج کرتا ہے ۔خود حضور اکرام نے مکہ میں ابتد میں ہی اعلان کیا تھا کہ مجھے مملکت کے لئے وزیروں کی ضرورت ہے ۔ کفارمکہ آج کے ان دانشوروں سے زیادہ باشعور تھے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام محض ایک مذہب ہے اور ریاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

اگر اسلام صرف مذہب ہی ہوتا تو شائد کفار مکہ کو اسے تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہ ہوتا لیکن وہ اسے ایک نظام زندگی کے طور پر اپنانے کے لئے تیار نہ تھے جو ہر زندگی کے شعبہ میں ان پر پابندی اور آزادی کی حدود متعین کرتا تھا ۔اگر اسلام چند مذہبی رسومات کا نام ہوتا تو کفار مکہ ہجرت کے بعد بھی جنگیں لڑنے مدینہ کا رخ نہ کرتے۔ انہیں علم تھا کہ اگر یہ نظام مدینہ میں قائم ہوگیا تو اس کی لپیٹ میں پورا عرب آجائے گا اور ان کا انسانی استحصال پر مبنی نظام ختم ہو جائے گا۔

یہ حقیقت کفار مکہ کو معلوم تھی لیکن آج کے کئی دانشور نہیں سمجھ پاتے اور اس کی وضاحت علامہ اقبال نے نوحہ ابو جہل کے عنوان ے بہت تفصیل اور خوبصورتی سے کی ہے۔ اسلام قبول کرنے کا مطلب ایک معاہدہ ہے جس میں مومن اپنی جان اور مال کے بدلے جنت حاصل کرتا ہے (48/10 ) ۔ یہ معائدہ جزوی نہیں بلکہ مکمل طور پر قبول کرنا ہوگا(2/208 )۔اگر اسلام محض ایک مذہب ہوتا تو پھر واقعی ریاستی امور کا اس سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور ریاست سیکولر ہی ہونی چاہیے لیکن ایسا ہے نہیں ۔

اگر قوت نافذہ نہیں تو اسلام صرف وعظ بن کر رہ جائے جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
رشی کے فاقوں سے نہ ٹوٹا سامری کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
اسلام ایک دین ہے جس میں انسان کااپنے رب سے تعلق قائم ہوتا ہے اور پھر ایک انسان کا دوسرے انسانوں سے تعلق جس سے ایک نظام زندگی وجود میں آتا ہے۔ جنہیں ہم ارکان اسلام ان سے انسان کا بندے سے تعلق قائم ہونے کے ساتھ نظم و ضبط اور اجتماعیت کی تعلیم ملتی ہے جس سے ایسی معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے جس میں نہ مذہبی پیشوائیت، نہ سرمایہ داری اور نہ آمریت ہوتی ہے۔

انسانیت کو حقیقی آزادی ملتی ہے کہ کوئی کسی دوسرے پر حکم نہیں چلا سکتا ۔نظام کے پیش نظر انسانی فلاح و بہبود ہوتی ہے جسے قرآن نے من ین الناس سے تعبیر کیا ہے کہ بقا اور دوام یادگاریں اور بڑی عمارتیں کھڑی کرنے سے نہیں انسانوں کے مفاد اور فلاح و بہبود کے کاموں کو حاصل ہے ۔اسکینڈے نیویا اور کچھ دیگر یورپی ممالک نے جنگ عظیم دوم کے بعد سماجی بہبود کا نظام اپنایا جو سرمایہ داری اوراشتراکیت کی درمیانی راہ تھی اور ان ممالک نے اپنے عوام کو بنیادی ضرورتیں مہیا کیں۔

انہیں آج بھی Welfare Statesکے نام سے شہرت حاصل ہے۔ سویڈش ماہر سیاسیات اور مصنف Gunnar Heckscherنے اپنی کتاب The Welfare State and Beyondمیں چار نارڈک ممالک سویڈن، ڈنمارک، ناروے اورفن لینڈ میں سماجی بہبو کے نظام کا تفصیلی جائیزہ لیتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ یہ بھی انسانی مسائل کا حل نہیں ہیں۔ کارل مارکس نے بھی یہی اعتراف کیا تھا کہ میں اپنے نظریہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جذبہ محرکہ کہاں سے لاؤں۔

وہ اوصاف اور اقدار صرف وحی کی صورت میں مل سکتی ہیں بشرطیکہ ان پر اخلاص سے عمل کیا جائے۔ ایسے نظاموں میں انسانی مادی ضرورتیں تو مہیا کی جاتی ہیں لیکن انسان کا اپنے خالق کے ساتھ قائم نہیں ہوتا اور وحی کی رہنمائی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس معاشرتی زندگی میں بھی کے کئی مقامات ایسے آتے ہیں جب اس کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس بارے میں فرماتے ہیں کہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانے کے تقاضوں اور اپنے دور کی فکری کاوشوں سے متعارف ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :