تحریر سے تقریر تک

جمعہ 20 اکتوبر 2017

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

یہ فروری 1975 کی بات جب مقبوضہ جموں کشمیر کے وزیر اعلی شیخ عبداللہ نے اپنی جدوجہد آزادی کو ختم کرتے ہوئے اندرا گاندھی سے معائدہ کرلیاجس کے ردعمل میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا اور شائد ہی پاکستان کی تاریخ میں اس بڑے پیمانے پر کوئی اور ہڑتال ہوئی ہو۔ شہر اور قصبے تو ایک طرف رہے ہر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی لوگوں نے کاروبار زندگی معطل کرے ہڑتال میں حصہ لیا۔

میرے اہل خانہ اس وقت کچھ عرصہ کے لیے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے ایک دور افتادہ گاؤں کوریکی میں مقیم تھے۔ اس گاؤں میں حضرت بابا گلو شاہ کا مزار بھی ہے جو مرجع خلائق ہے اور جہاں ہر سال دوبارمیلہ لگتا ہے جو پنجاب کے بڑے میلوں میں سے ایک ہے۔ وزیراعظم بھٹو نے جب اندرا عبداللہ گٹھ جوڑ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی تو کوریکی میں بھی لوگوں نے اس پر لبیک کہتے ہوئے مظاہرہ کرنے فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)

مظاہرین گاؤں کے ایک مرکزی مقام پر جمع ہوگئے اور اندرا عبداللہ گٹھ جوڑ کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ اب مظاہرین کو کسی مقرر کی تلاش تھی۔ میں اس وقت کوریکی مڈل سکول میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور سکول کی بزم ادب میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ مظاہرین کی نظر انتخاب مجھ پر پڑی اور ایک من چلے نے اٹھا کرمجھے ایک چھوٹی سی کچی دیوار پرکھڑا کردیا اور تقریر کرنے کو کہا۔

اب میں کیا کرتا، جوذہن میں آیا بولتا گیا لیکن وہ مظاہرین کو وہ بہت پسند آیا اور بہت سے مظاہرین نے خوش ہو کر مجھے کچھ پیسے بھی دئیے۔ یہ میری پہلی عوامی تقریر تھی۔مڈل سکول کوریکی کے صدر معلم چوہدری رحمت علی مرحوم نے وہاں بزم ادب کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے سکول میں طلبہ یونین کے انتخابات بھی کروائے اورمیں نائب صدر منتخب ہوا۔ پرائمری کے بعد پائلٹ ہائی سکول بھمبر آزدکشمیر میں فن تقریر میں اور بہتری آئی جہاں میرے خالو (جو ہمارے لئے والد سے بھی زیادہ محترم تھے) چوہدری محمد شفیع مرحوم سنئیر مدرس تھے اور انہوں نے تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نی چھوڑی۔

اسی تربیت اور اعتماد کی وجہ سے مرے کالج سیالکوٹ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور لاہور میں ہونے والے مباحثوں اور تقریری مقابلوں میں ہمیشہ کامیابی حاصل کی۔
یہ سارا منظر نامہ نگاہوں میں اس لئے گھوم گیا کہ ڈنمارک میں مقیم معروف بلاگر جناب رمضان رفیق نے اپنی کتاب تحریر سے تقریر تک عنائیت کی۔ وہ چار دیگر کتابوں کے بھی مصنف ہیں اور ان کے سفری بلاگ قارئین میں بہت مقبول ہیں۔

انہوں نے زرعی یونیوسٹی فیصل آباد سے زرعی علوم میں گریجوایشن اور ایم ایس سی آنرز کیا۔ مجھے بھی اس درسگاہ کا طالب علم ہونے کا فخر حاصل ہے۔ جناب رمضان رفیق جوزمانہ طالب علمی سے بہت اچھے مقرر ہیں اور بعد میں توکئی تقریری مقابلوں کے منصف بھی رہے ہیں، اپنی اس کتاب میں انہوں نے فن خطابت کے بنیادی اور اہم اسرارورموزلکھے ہیں جو اس میدان میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے رہنما ثابت ہوں گے۔

انہوں نے اپنی کتاب میں تقریر، مباحثہ، فی البدیہہ اظہار خیال اور نظامت کے گر بھی بتائے ہیں۔ انہوں نے تقریر کے اہم اجزاء، ابتدائیہ، متن، اختتام، جسمانی حرکات، لہجہ، تلفظ، الفاظ کی ادائیگی کا فن، اسٹیج کا خوف اور سامعین پر سحر طاری کے اصولوں کی بھی وضاحت کی ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ تقریر کا آغاز بہت اہم ہے اور ابتدائی چند لمحات میں لوگ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اس مقرر کو سنا جائے یا نہیں۔

ایک کالم کے بارے میں بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی چند سطریں پڑھ کر قاری فیصلہ کرتا ہے کہ پورا کالم پڑھاجائے یا نہیں۔۔ افتتاحیہ کسی مقرر کا کمال ہوتا ہے جس میں سامعین کی سماعتوں کو گرفت میں لیتے ہوئے ان پر سحر طاری کرنا ہی اچھے مقرر کی خوبی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کرکٹ میں اگر اچھا بلے باز آتے ہی چوکا اور پھرچھکا لگا دے تو تماشائی کسی اور طرف توجہ نہیں دیتے اور اس کھلاڑی کا کھیل پر جوش ہوکر دیکھتے ہیں۔

اسی طرح تقریر کا اختتام بھی ایسا ہو کہ سامعین پر ایسا تاثر چھوڑ کر جائیں کہ مقرر کے چلے جانے بھی اس کا اثر قائم رہے اور مجمع دیر تک تالیوں سے گونجتا رہے۔
رمضان رفیق نے تحریر و تقریر کی اس کتاب میں مختلف موضوعات پر تقاریر بھی شامل کی ہیں جو قارئین اور خطابت کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کے لئے بہت معاون ہوں گی۔ اسی طرح مباحثہ جات کے باب میں اہم عنوانات شامل کئے گئے ہیں۔

اس کتاب کا ایک حصہ بزم اطفال پر مشتمل ہے جس میں بچوں کے لئے تقریری مقابلوں کے لئے تقاریر شامل ہیں۔ بر محل اشعار کا تقاریر اور مباحثہ جات میں استعمال ایک لازمی اور اہم جزو ہوتا ہے۔ رمضان رفیق نے ایک باب میں منتخب اشعار بھی دیئے ہیں جن سے مقررین اپنے خطاب کوموثر بنا سکتے ہیں۔کتاب کے پنجابی حصہ میں انہوں نے بہت سے پنجابی مباحثے بھی شامل کیئے ہیں جو ایک عمدہ کوشش ہے۔

انہی پنجابی مباحثوں میں ایک عقلاں آلے بھکھے مرن مورکھ کھان جلیب پڑھ کر مجھے اسی موضوع پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں 1986 میں انٹر ہال مباحثو ں میں اس موضوع پر ہونے ولا مباحثہ یاد آگیا جس میں مجھے سجناں دا موری مقرر کیا گیا ۔ مختصر یہ کہ رمضان رفیق کی کتاب تحریر سے تقریر تک ہر ایک درسگاہ کی لائبریری میں ہونی چاہیے اور ہر ایک طالب علم کا اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

طلبہ کے علاوہ ان لوگوں کو بھی یہ کتاب اپنے پاس رکھنی چاہیے جنہیں عملی زندگی میں کسی چھوٹے یا بڑے اجتماع میں تقریر کرنے یا کسی اجلاس یا نشست میں اظہار خیال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ ڈنمارک میں مقیم معروف ادیب، صحافی، شاعر اور براڈکاسٹر جناب نصر ملک نے رمضان رفیق کی شخصیت پربہت خوب تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
بات کرتا ہے مختصر لیکن
روح کے تار چھیڑ دیتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :