تاریخ کائنات کی کہانی

جمعہ 2 اکتوبر 2015

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

وہ جنہیں اپنی زبان دانی پر بڑا ناز تھا اور جو اپنے علاوہ دوسروں کو عجمی یعنی گونگا کہتے تھے جب ان کے سامنے قرآن مجید پیش کیا گیا تو وہ اس سامنے سر تسلیم خم کرنے پر پر مجبو ہوگئے۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کیسا کلام ہے جو آج تک انہوں نے نہیں سُنا تھا۔واقعی کوئی عام کتاب نہیں تھی بلکہ کچھ اور ہی تھا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حکیم الامت نے فرمایا کہ
فاش گویم آں کہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
علامہ فرماتے ہیں کہ جو بات دل میں ہے وہ صاف کہتا ہوں کہ قرآن حکیم محض ایک کتاب نہیں بلکہ کچھ اور چیز ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کے اولین مخاطبین کا رد عمل یہ تھا کہ یہ شاعری نہیں بلکہ سحر یعنی جادو ہے۔ ان کے اس طرز عمل کا ذکر کرتے ہوئے قرآن حکیم نے سورہ الاسرکی آیت ۴۷ اور الفرقان کی آیت ۸میں اُن کفار کی ذہنیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ظالم کفار ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ سحر زدہ ہیں اور آپ پر جادو ہوگیا ہے جبکہ قرآن نے اس کی قطعی تردید کی۔

(جاری ہے)

انبیاء اکرام پر کسی کے جادو یا سحر کا ہوہی نہیں سکتا جس کی مزید وضاحت قرآن حکیم نے سورہ الاعراف کی آیت ۱۱۹ میں حضرت موسی کا ذکر کرتے ہوئے کردی کہ جادوگر ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے اورکسی جادو کا اثر نہ ہوا۔

ان واضع حقائق کے باوجود بد قسمتی سے یہ مشہور ہے کہ حضور پر جادو کیا گیا اور جس کا تقریباً ایک سال تک اس کا اثر ہوا اورپھر قرآن حکیم کی آخری دو سورتوں نازل ہوئیں جن کے اثر سے آپ پر ہونے والا جادو ختم ہوا۔حقیقت یہ کہ حضور پاک پر کسی جادو کا کوئی اثر نہ ہوا جس کی گواہی خود قرآن نے دی کہ آپ سحر زدہ نہیں ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ حضور پاک پر جادو ہونے کا جو وضعی واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ ۷ ہجری کا ہے جبکہ قرآن کی دونوں آخری سورتیں ہجرت سے بہت سال قبل مکہ میں نازل ہو چکی تھیں یعنی یہ مدنی سورتیں ہیں ہی نہیں اور نزول قرآن کے اعتبار سے وہ بیسویں اور اکیسویں سورہ ہیں ۔

یہ دونوںآ خری سورتیں دراصل تخلیق کائنات کی عقدہ کشائی ہیں۔
سورہ فلق جادو اتارنے کے لیے نہیں اتری بلکہ یہ کائنات کی عظیم دھماکہ BIG BANG سے تخلیق کی وضاحت کررہی ہے جبکہ سورہ الناس کائنات کے ایک مقرر ہ مدت تک برقرار رہنے کی اطلاع دی رہی ہے ۔فلق کا معنی کسی چیز کا یک بیک دھماکے کے ساتھ پھٹ جانا۔ بیج کا پھٹ کر خول سے نکلنا، دن کا ابھر کا رات سے نکلنا جبکہ خنس کا معنی سکڑنا، سمٹنا، ستاروں کا چھپنا اور ظاہر ہونا۔

سورہ فلق میں یہی حقیقت آشکار کرنے کے لیے کہا کہ آپﷺ وہ عظیم راز جو صدیوں بعد معلوم ہوگا اس کا اعلان کردیں کہ میں دھماکے سے مادے کے مرکب کو اجزائے بسیط میں لانے والے پالنہار کی پناہ میں آتا ہوں، ہر اْس چیز کے خطرات سے جو مادے کے اجزا جدا ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ جو حقیقت زبان مصطفےٰ ﷺ سے چھٹی صدی عیسوی میں دنیا کو بتائی گئی وہ عقل انسانی نے اب دریافت کی ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک عظیم دھماکے Big BANGسے ہوئی اور اگر مادے کے اجزاء کو توڑا جائے تو بہت بڑی تباہی ہوتی ہے جس کا مظاہرہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم پھینک کر کیا۔


سورہ الناس میں اللہ رب العزت نے رسول پاک سے کہا کہ اعلان کیجیے کہ میں انسانوں کے کفیل، انسانوں کے حاکم اور انسانوں کے معبود کی پناہ میں آتا ہوں، اس فکر مندی سے جو چھپنے والے کے چْھپ جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ قرآن حکیم نے دو اصطلاحات خْنَس اور کْنَس بیان کی ہیں۔دونوں ایک دوسرے مقابل قوتیں ہیں۔ خْنَس مرکز ریز یا مرکز مائل قوت Centripital Force ہے جبکہ کْنَس مرکز گریز قوت Centrifugal Force ہے۔

یہ دونوں قوتیں سورج اور سیاروں کے درمیان حدِ فاصل قائم رکھے ہوئے ہیں۔ قرآن حکیم ان دونوں کا تذکرہ سورہ التکویر میں کیا ہے جو کہ نزول کے اعتبار سے ساتویں سورہ ہے ۔یہ تھا قرآن کا اعجاز تھا جسے دیکھ کر اپنے آپ کو فصاحت و بلاغت کے سرخیل کہلانے والے اس جیسی ایک آیت بھی نہ بنا سکے۔ قرآن کا ادبی اور علمی انداز دیکھیے کہ کیسے ایک پیچیدہ سائنسی حقیقت کو بیان کردیا۔


خْنَس مرکز مائل قوت سورج کے گرد گھومنے والے سیاروں کو اس سمت میں بڑھاتی ہے جس سمت میں سورج بڑھتا ہے۔ جبکہ کْنَس مرکز گریز قوت سورج کی طرف بڑھنے والے سیاروں کو اپنی طرف کھینچ کر رکھتی ہے ۔ ان دونوں قوتوں سے ایک توازن رہتا ہے اور سیارے اپنے اپنے مداروں میں محو گردش رہتے ہیں ۔ جس دن سیاروں میں خْنَس اور کْنَس ختم ہوگا سورج اور سیارے ٹکرا جائیں گے اور تمام مادہ الفا بیٹا اور گاما شعاعوں میں بدل جائے گا اور کائنات پھر اْسی گولے کی صورت اختیارکرلے گی جو بگ بینگ سے پہلے موجود تھا۔

پھر جب کبھی رب الفلق اس گولے کو پھاڑ کر اس میں خْنَس و کْنَس ڈال دے گا تو یہی کائنات دوبارہ وجود میں آجائے گی۔ یہ کائنات کے وجود میں آنے کے ساتھ دوبارہ تشکیل پانے اور آخرت کا سائنسی ثبوت ہے۔ قرآن حکیم کی یہ دونوں آخری سورتیں تخلیق کائنات کی عقدہ کشائی ہیں۔ ان سورتوں کے الفاظ اور معانی پر اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ کائنات کی تاریخ ، اس کے آغاز اور انجام کو کس قدر مختصر انداز میں بیان کردیا ہے ۔لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم نے اِن پر غور کرنے کی بجائے انہیں جھاڑ پھونک کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :