فکری انقلاب

ہفتہ 9 دسمبر 2017

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

قرآن حکیم رسول اکرم رﷺ کو پوری کائنات کے لیے رحمت قرار دیتا ہے، اب ایک غیر مسلم یہ سوال کرسکتا ہے کہ یہ کیسے مان لیا جائے کہ حضور پوری کائنات کے لیے رحمت ہیں اور وہ غیر مسلموں خصوصاََ اہل یورپ کے لیے کیسے رحمت ہوسکتے ہیں ہیں ؟ سوال نہایت اہم ہے اور ہمیں دلائل کے ساتھ وضاحت کرنا ہوگی۔تاریخ شاہد ہے کہ آپ ﷺ کے لائے ہوئے پیغام نے مروجہ نظریات میں جکڑے ہوئے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروفکر کا پیغام دیتے ہوئے بارہا کہا تتفکرون یعنی سوچا کرو جس سے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کا سائنسی انداز فکر ملا جس کی بدولت انسان آج ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔

بڑی حیرت کی بات ہے کہ مذہب کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اندھی تقلید کو مسترد کرتے ہوئے انسانوں کی سوچوں پر لگے تالے کھول کر وہ دین پیش کیا جو مذہب کے لیے ایک چیلنج تھا۔

(جاری ہے)

جو کسی خوف ، معجزے یا مافوق الفطرتصورات کی بجائے یہ پیغام دے رہا تھا کہ اس دین کو بھی اندھے اور بہرے بن کر قبول نہ کرو بلکہ غورو فکر اور دل و دماغ کے اطمینان کے بعد Conviction کے بعد تسلیم کرو۔

حضور نے جو انقلاب برپاوہ یہی تھا کہ انسانوں کو آزادانہ سوچنے اور غوروفکر کی آزادی دی۔ دنیا کا کوئی بھی اور مذہب اس انداز سے تفکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت نہیں دیتا اور یہ اسی کا اعجاز ہے کہ علامہ اقبال ارمغان حجاز میں خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ اے خدا میں تیرا غلام ہوں اور تیری خوشنودی کے سوا میرا کوئی اور مقصود نہیں۔ جس راستے پر مجھے چلنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار نہیں کروں گا لیکن اگر آپ اس نادان سے کہیں کہ گدھے کو عربی گھوڑا کہہ تو میں نہیں کہہ سکتا۔

اتنی بڑی بات اقبال ہی کہہ سکتے تھے۔ اندھی تقلید کی جڑ کاٹ کر رکھ دی اور بغیر غوروفکر کے کوئی بھی کیوں نہ کہے اور کیسی ہی بات نہ ہو، کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے۔ یہ امر بھی بہت قابل غوربات ہے کہ نبی رحمت کی وساطت سے دنیا کو جو کتاب ملی وہ ایسی کتاب نہیں کہ جس میں مذہبی رسوم کو ادا کرنے کی تفصیل ہو بلکہ یہ ایک صحیفہ انقلاب اور کتاب زندگی ہے جس کی بدولت یورپ کو بھی تاریک دور سے نجات ملی اور مسلمانوں کے سائنسی انداز فکر اور علم سے فیض یابی کرتے ہوئے وہ ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن ہوئے جس پر سفر طے کرتے ہوئے وہ آج اس مقام پر موجود ہیں۔

یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ اس حقیقت کا اعتراف خود اہل یورپ کرتے ہیں ۔آپ کے اُس ا نقلاب کا پوری دنیا نے اعتراف کیا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے مفکرین نے آپ کو اس پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے آٹھویں صدی عیسوی سے پانچ سو سال بعد تک عربی یورپ کی علمی زبان اور سائنسی زبان رہی ہے۔ تمام کتابیں عربی میں لکھی جاتی تھیں۔ یورپ کے جو لوگ تکمیل علم کرنا چاہتے تھے وہ عربی زبان سیکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔

بارہویں صدی عیسوی کے فضلائے یورپ کی سوانح عمریوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان سب نے قرآن کو ضابطہ حیات کے طور پر اختیار کرلیا تھا AMERICAN RESEARCاہل مغرب خود اعتراف کرتے ہیں کہ جدید سائنس اور علوم و فنون کو اپنے فہم کے اظہار کے لیے جس اسلوب کی ضرورت تھی وہ عربی زبان تھی۔ زندگی کا شائد ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس میں قرآن نے مغربی روایات کو مالا مال نہ کیا ہو۔

سائنس طب، صنعت و حرفت، تجارت وایجادات بلکہ سارے علوم کا علمی و فنی ذوق قرآن سے حاصل ہوا ہے۔ سائنس پر قرآن کے احسانات کا اہل یورپ اعتراف کرتے ہیں ۔ قرآن نے ایسے سائنسی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور ادبی تصورات دیئے ہیں جس کا ان کی زبان پر اثر پڑا ہے۔ انگریزی زبان میں آج بھی ایک ہزار سے زائد عربی کے الفاظ کی موجودگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یورپی سائنسدان Roger Bacon نے اہل یورپ کو نصیحت کی سائنسی ترقی کے لیے عربی زبان سیکھیں اور مسلمان سائنسدانوں کی کتب پڑحیں۔ مسلمان سائنس کے میدان میں Pioneerتھے اور آج کی سائنسی ترقی ان کی مرہون منت ہے ۔
ٰٰٰیہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کے بغیر انسانی تہذیب اس حد تک نہ پہنچتی جس پر پہنچ کر وہ ارتقاء کی تمام سابقہ حالتوں پر سبقت لے گئی۔

قرآن میں ایسے محکم اصول موجود ہیں جن کی بنیاد پر پوری دنیا کے ملکوں اور قوموں کی تشکیل نو ہوسکتی ہے۔ دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا رہی کہ جدید سائنس کا موجد یونان تھا لیکن جدید تحقیقات سے یہ ناقابل تردید حقیقت سامنے آئی کہ یونان نے بعض نظریات ضرور قائم کیے تھے لیکن تجرباتی علم کو عمومی طور پر اختیار کرنا یونانی مزاج کے خلاف تھا۔ قرآن ہی وہ کتاب ہے جس نے اپنے پڑھنے والوں کے لیے معروضی تحقیقات اور تجربی معلومات کو لازم قرار دیاہے۔


اگر اہل یورپ حضور کے پیام رحمت سے مستفیذ ہوکر ترقی کرسکتے ہیں تو موجودہ زمانے کے مسائل کو بھی کتاب اللہ کی روشنی میں حل کیا جاسکتا ہے۔ کلام اللہ انسانوں کے لیے زمان و مکاں کے ہر دور میں رہنمائی ہے۔ یہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا دستور العمل ہے۔ یہ ہماری شاہراہ زندگی پر درست سمت میں سفر کے لیے ہمارا Navigator ہے۔ یہ کامیاب زندگی گذارنے کے لیے Standard Operating Procedure ہے ۔

یہ صحیفہ فطرت ہے جو انسان کو اُس کے مقام سے آشنا کرتی ہے۔ کلام اللہ ہمارے پاس ہو بہو اسی شکل میں پہنچا جس طرح وحی الہی کے مطابق رسول اللہﷺ نے اسے ترتیب دیا۔ نزول قرآن کے کچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے اسے تسخیر جہاں کی بجائے برکت، تسبیح اور ثواب حاصل کرنے لیے رکھ چھوڑا جبکہ اہل مغرب نے اس پر غور وفکر کیا اور انہوں نے چاند کی تسخیر کے بعد مریخ پر کمند ڈال دی ہے۔

اگر ہم بھی اس پر غور و فکر کریں تو عروج حاصل کرسکتے ہیں ۔ روز محشر ہم سے پوچھا جائے گا کہ ہم نے قرآن کے ساتھ کتنا تعلق قائم کیا تھااور حضورﷺ اپنی امت کی خدا سے شکائیت کریں گے کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا ۔اس لیے ہم پر فرض ہے کہ ہم قرآن میں غوروفکر اور تدبر کریں۔ قارئین ایک کام کریں جس کے لیے آپ کے صرف چند لمحے صرف ہوں گے۔ باوضو ہوکر قرآن حکیم کا کوئی بھی مترجم نسخہ لیں اور سورہ الحدید کی سولہویں آیت غور سے پڑحیں اور سوچیں ،اگر آپ نے اسے دل کی گہرائیوں سے پڑھا تو آپ کی زندگی بدل جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :