خانہ کعبہ یا اپنے مفادات کی پاسبانی ؟

ہفتہ 4 اپریل 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

یمن اور سعودی عرب کی جنگ میں پاکستانی افواج کی شرکت کے بارے میں سن کر چند دن انتہائی قسم کی کڑھن میں گزارنے کے بعد ،کل ۳ اپریل کے دن یہ جان کر کہ پاکستان صرف ثالث کا کردار ادا کر ے گا ، دشمنان ِ اسلام کی لگائی ہوئی اس آگ کو بجھانے اوردونوں فریقوں کو صلح صفائی کی طرف آمادہ کرے گا۔ یہ خبر سن کر ہم چند دن انتہائی درجے کی کڑھن میں گزارنے کے بعد سجدئہ شکر بجا لائے تھے۔

۔احکامات خدا وندی کے مطابق ہمارا کردار بھی یہی بنتا ہے۔ ہماری کڑھن کا سبب یہ تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلم ممالک کے وسائل پر قبضے کی امریکی جنگ میں امریکہ کے اتحادی بن کر ہم اچھی خاصی سزا بھگت چکے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے جب امریکہ کی ایک ہی فون کال پر اپنا ہر قسم کا تعاون امریکہ کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا تھا تو اُس وقت ارشاد احمد حقانی( مرحوم) نے جنرل مشرف کے اس اقدام کو سرا ہتے ہوئے روز نامہ جنگ میں لکھا تھا۔

(جاری ہے)

” جنرل مشرف نے کمال حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو طوفان کی آنکھ سے بچا لیا ہے“ راقم اس وقت ملت کراچی کے ساتھ لکھا کرتا تھا اورراقم نے اس وقت لکھا تھا۔”جنرل مشرف نے پاکستا ن کو طوفان کی آنکھ سے بچانے کے بجائے سلو موشن میں مرنے کا راستہ اختیار کیا ہے“ صرف دن یا چند گھنٹے پُر طمانیت کیفیت میں گزارنے کے بعدآج یہ جان کر کہ افواج پاکستان کو سعودی عرب کی مدد کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔

ساری خوشی خاک میں مل گئی ہے۔گویا ایک بار پھر ہم ایک ایسی جنگ میں کود رہے ہیں، جو ایک مسلمان ملک کے خلاف ہے۔ گویا ہم نہ صرف قرآ ن پاک میں احکامات ِ خدا وندی کی کھلی مخالفت کر رہے ہیں ۔ اپنے ملک میں خانہ جنگی کے لئے بھی دروازہ کھول رہے ہیں، پاکستانی قوم کے صاحب الرائے لوگوں کی اکثری اس جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کر رہی ہے گو کہ مقدس مقامات کا دفاع کرنے کے نام پر اس جنگ میں سعودی عرب کی فوجی امداد کرنے کے حامی بھی اکا دکا نظر آتے ہیں۔

دو دن پہلے ایک ٹالک شو میں مفتی نعیم صاحب نے افغانستان میں اتحادی ممالک کے ساتھ امریکہ کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔ ۔” جب عیسائی ایک دوسرے کے اتحادی بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں بن سکتے۔“ مفتی صاحب نے اس حقیقت کی طرف دھیان نہیں دیا کہ اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ امریکہ کسی عیسائی ملک پر نہیں چڑھ دوڑا تھا، اس نے ایک مسلمان ملک پر چڑھائی کی تھی۔

سعودی عرب بھی اگر کسی غیر مسلم ملک کے ساتھ جنگ کر رہا ہوتا تو پاکستان کے اتحاد پر پاکستان کے سبھی عوام، کیا بوڑھے اور کیا جوان اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ۔ میں مسلم اُمّہ کے معزز لیڈران سے پوچھتا ہوں یہ اتحاد اُس وقت عمل میں کیوں نہیں لایا جاتا ،جب اسرا ئیل نہتے فلسطینیوں پر ٹینکوں ، توپوں اور اپنی ہوائی طاقت کے ساتھ حملہ آور ہو کر فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہوتا ہے۔

مسلم اُمّہ کے نا عاقبت اندیش حکمرانوں تمہارا دشمن تمہیں آپس میں لڑوا کر کمزور کر رہا ہے۔ ذرا غور فرماوٴ۔ صرف چند ماہ پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نے الیکشن سے پہلے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔اگر تم لوگوں نے مجھے ووٹ دے کر ایک بار پھر اپنا وزیر اعظم منتخب کر لیا تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ فلسطین کی ریاست قائم نہیں ہونے دوٴں گا۔

آج وہی وزیر اعظم کہہ رہا ہے میں اس جنگ میں سنیوں کا ساتھ دوں گا۔ دوسری طرف امریکہ اہلِ تشیع کی حمایت کی حامی بھر رہا ہے۔ سعودی عرب کا کردار تو ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اس نے مسلم ممالک کے خلاف امریکی جارحیت کی ہمیشہ سر پرستی کی ہے۔ ایران عراق جنگ میں امریکہ کے کہنے پر سعودی عرب اور کویت عراق کی بلین اہنڈ بلین ڈالرز کی مالی امداد کرتے رہے ہیں۔

جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو سعودی عرب نے امریکہ کو عراق پر حملے کرنے کے لئے اپنے ہوئی اڈے فراہم کئے ۔ سعودی ہوئی اڈے پر بغداد پر حملے سے واپسی پر ایک امریکی ہوا باز کا یہ جملہ آج بھی میرے دل میں کسی انگارے کی طرح سلگتا رہتا ہے۔” میں نے بغداد کو کرسمس ٹری بنا دیا ہے“ سعودی عرب کے اس گھناونے کردار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے کچھ ماہ پہلے اپنے ایک کالم میں سعودی عرب کو مسلم اُمّہ کی آستین کا سانپ قرار دیا تھا۔

اس لئے کہ جو کام امریکہ خود نہیں کر سکتا، اُسے سعودی خاندان کے حوالے کر دیتا ہے،جنہوں نے ملک کو اپنے نام سے منسوب کر لیا ہواہے۔
اسے مسلمان قوم کی بد بختی ہی کہنا چاہیے کہ مسلم اُمّہ کی آستین کے سانپ صرف سعودی عرب ہی میں نہیں ساری دنیا ہی میں ہیں۔ دو ٹوک انداز میں یہ کہنے کے لئے میں معذرت خواہ ہوں کہ میاں نواز شریف کی مجبوریاں تو ہمارے سامنے ہیں ۔

مشرف نے اُن پر غدار ی کا جو مقدمہ بنایا تھا،جس میں انہیں سزا بھی ہو گئی تھی،صحیح یا غلط اس بحث میں جائے بغیر ،اُس سزا سے انہیں کس نے بچایا تھا؟ذرا سوچیں ۔ اب پھر اُن پر کڑے احتساب کی تلوار لٹک رہی ہے ، بے حساب کرپشن کے علاوہ ماڈل ٹاوٴن کا سانحہ بھی انصاف طلب ہے اور انہوں نے اپنے کسی برے وقت سے بچ نکلنے کے لئے پورے پاکستان کے امن و امان کی قیمت پر افواج پاکستان کو مقدس مقامات کی حفاظت کے نام پر اِس آگ میں جھونک دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

کڑے احتساب کی تلوار کے علاوہ ان پر اور اُن کے ساتھی زردار ی پر منی لانڈرنگ کی تلوار بھی لٹکتی رہتی ہے۔جس سے محوظ رہنے کے لئے امریکہ کو راضی رکھنا بھی اُن دو نو ں بڑوں کی مجبوری ہے۔ اس کے علاوہ سعودی خاندان کے ساتھ میاں نواز شریف کے ذاتی سطح کے تعلقات سے سبھی واقف ہیں اور لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ میاں فیملی کی سعودی عرب میں ایک سٹیل مل بھی ہے۔

الغرض میاں صاحب کی مجبوریوں سے تو ہم سبھی واقف ہیں، سوال ہے جنرل راحیل شریف کی کیا مجبوری ہے کہ وہ اپنے جوانوں کو اِس آگ میں جھونکنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں ؟
قرآن پاک میں ایک آیت ہے۔” ابھی تو یہ صرف مسلمان ہی ہوئے ہیں۔ابھی تو ان کا صاحب ایمان ہونا باقی ہے “ مجھے ترجمہ من و عن یاد نہیں ہے لیکن متن یہی ہے۔ لگتا ہے ہم بھی فقط مسلمان ہی ہیں کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔

ہم لوگ اللہ اور اللہ کی طاقت پر ایمان کب لائیں گے ؟حضور صلعم پر نزولِ نبوت سے پہلے خانہ کعبہ کے متولی حضور صلعم کے دادا عبد ا لمطلب تھے۔جب انہیں کہا گیا کہ فلاں بادشاہ خانہ کعبہ پر اپنے بہت بڑے لشکر ، جس میں بے شمار گھوڑوں کے ساتھ ساتھ ہاتھی بھی ہوں گے ۔حملہ کرنے آ رہا ہے ۔تو انہوں نے بڑے اطمنان سے جواب دیا۔ ”جس کا یہ گھر ہے اس کی حفاظت وہ خود ہی کر لے گا“پھر اس لشکر پر ابابیل کا کنکریاں پھینکنا اور اُس لشکر کے تباہ ہونے سے ساری دنیا واقف ہے۔

سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ ایسا کون سا مسلمان ہو گا جو مسلمان بھی ہو گا اور خانہ کعبہ کو تباہ بھی کرے گا۔؟ ہاں مسلمانوں کے اتحاد کے مرکز خانہ کعبہ کو نعوذبا اللہ ! تباہ کرنا اسرائیل کے مشن میں ضرور شامل ہے۔جس کا اس نے اظہار بھی کیا ہے۔لیکن اس گھر کا مالک اسرائیل کے اس مکر ّوہ خواب کو کبھی پورا نہیں ہونے دے گا۔
پاکستان پر مسلط ظل سبحانی کے درباری سعودی عرب کے احسانات گنواتے نہیں تھکتے۔

بے شک سعودی عرب کے پاکستان پر بے شمار احسانات ہیں ۔یہاں تک کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بھی سعودی عرب کی مالی امداد شامل ہے۔سعودی عرب پر جب کوئی غیر مسلم طاقت حملہ کرے گی تو ہم سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے دوسری طرف ایران بھی مسلمان ملک ہے اور اس نے بھی ۱۹۶۵ ء ء کی جنگ میں ہمارے ایک پڑوسی کی حیثیت سے ہماری بہت امداد کی تھی۔

ہم نے تو یہاں تک سن رکھا ہے کہ ہمارے جنگی طیارے ایران سے اڑ کر ہندوستان پر حملہ کر کے واپس ایران ہی میں آ جاتے تھے۔ آج ہمارے ہاں سے ایران پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہاں کوئی بھی پاکستان کا دوست نہیں ہے، وہاں کے اخباروں میں پاکستان کے بارے میں کبھی بھی کوئی اچھی بات نہیں لکھی ہوتی ۔ جناب والا ! ایران کے اس رویّے میں ہماری امریکہ نوازی کا عمل دخل بھی ہے۔

شاہ ایران کئے بعد جب مولانا خمینی آئے تووہ صرف اللہ والے ہی نہیں ، اللہ کی طاقت پر ایمان رکھنے والے مسلمان بھی تھے۔ انہوں نے وائٹ ہاوٴس کو خانہ کعبہ کا مرتبہ دینے سے انکار کر دیا۔بس پھر کیا تھا؟ امریکہ اور ایران کے تعلقات میں تلخی آ گئی۔ ہماری پارلیمنٹ پرلٹیروں کا قبضہ ہے۔بیرونی بنکوں میں سبھی کے اکاوٴنٹس ہیں۔ظاہر ہے یہ لوگ امریکہ کو خوش رکھے بغیر خود پر لٹکتی ہوئی” منی لانڈرنگ“ تلوار سے نہیں بچ سکتے۔

ایران کے ساتھ پائپ لائین کے معایدے کی مثال ہمارے سامن۷ے ہے ۔ ایران کے اخبارات ہمارے بارے میں کوئی اچھی بات کیسے لکھ سکتے ہیں۔سب اہم بات یہ ہے کہ ایران اہل تشیع کا ملک ہے اور ہمارا پڑوسی ہے اور ہمارے ہاں بھی ایل تشیع بہت بڑی تعداد میں ہیں ۔ پانی ہمیشہ ڈہلوان کی طرف بہتا ہے۔ اگر دشمنان ِ اسلام کے پلان کے عین مطابق بات بڑھ جاتی ہے تو پاکستان میں اہل تشیع کے دلوں پر کیا گزرے گی ؟ ملک میں پہلے ہی سے لگی ہوئی فرقہ واریت کی آگ پر کیا یہ حالات تیل کا کام نہیں کریں گے ؟ اس آگ کو کون بجھائے گا ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :