جام ِ جہاں ہے ، شہنشاہ کا ضمیر

جمعرات 4 دسمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

چار حلقوں کی چھان بین اور دھاندلی میں ملوث مجرموں کو سزا دینے کے مطالبے کی جواب میں حکومت وقت کی ہٹ دھرمی اور کہہ مکرنیوں نے حالات کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے ، وہ قابل تشویش ناک صورت حال میں بدل گئی ہے۔ آج ساری قوم پریشا ں ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟ شہروں کو بند کرانے کی کوشش میں گلو بٹو ں پر مشتمل میاں برادران کو پولیس فورس کی بر بریت کا شکار ہوکر چند لوگ مزید قتل ہو گئے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ پولیس نے تو آج جو وحشیانہ بر بریت نابیناوٴں کی انجمن کے نابینوں کے ساتھ کی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کسی سابق آئی۔

جی۔پولیس کی وہ رپور ٹ کہ میاں بردران نے ۹۲۔۱۹۹۳ میں پولیس فورس میں غنڈے بھرتی کر لئے تھے۔وہ رپوترٹ محض میاں برادران کے خلاف منفی پروپیگنڈہ نہیں، سو فیصد درست لگتی ہے۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے انہوں نے جس طرح نرسوں کو مارا پیٹا تھا،وہ بھی سب کے سامنے ہے،ایسی غنڈہ فورس کو پولیس کہنا ،پولیس کی توہین ہے۔جو شہریوں کی پروٹیکشن کے لئے ہوتی ہے۔ جو زیادتی نرسوں کے ساتھ کی تھی۔

عمران خان کوئی عالم دین نہیں ہیں کہ قاتلوں کو چھوڑ دیں گے،وہ جب اپنے دھرنوں اور جلسوں پر کروڑوں روپئے خرچ کر سکتے ہیں تو اپنے غریب عوام کے قاتلوں کے خلاف ملک کے نامور قانون دفانوں کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔میاں برادران ہر آدمی کو خرید نہیں سکتے۔
گو کہ میاں صاحب نے مذاکرات کا دروازہ ایک بار پھر کھول دیا ہے۔بظاہر یہ بڑی مثبت تبدیلی ہے،لیکن مجھے امید نہیں کہ وہ مذاکرات میں کسی ایمانداری کا مظاہرہ کر سکیں گے، الیکشن کی چھان بین میں وہ ایمانداری کا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتے کہ سیاسی موت مرتے ہیں۔

میں اپنے کالم ”عدل و انصاف کا گھپ اند ھیرا “ کی پہلی قسط میں لکھ چکا ہوں کہ۔”وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے پاس دو ہی راستے ہیں۔(۱) دھاندلی میں انصاف دینے کا راستہ (۲) اور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر شہید ِاقتدار بننے کا راستہ اور وہ دوسرا راستہ ہی اختیار کریں گے۔
میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری اپنی اپنی کرپشن اور حکومت میں اپنی اپنی اپوزیشن کے ادوّار میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں چشم پوشی یعنی ایک دوسر ے کی کرپشن سے چشم پوشی کے حوالے سے خاصے بد نام ہو چکے ہیں، میڈیا ، بالخصوص الیکٹرونکس میڈیا نے اُن کی زندگیوں کے سبھی تاریک گوشے بے نقاب کر دئے ہیں۔

اس لئے اب معاملہ ” اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔“ (میں لیلائے اقتدار سے بچھڑ نے کی بات کر رہا ہوں) والا معاملہ بنتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کے بھولے بھالے عوام ، جن کی یاداشت بہت کمزور ہے، کے دلوں میں ایک بار پھر کوئی نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے اِن لیڈران قوم کو کم از کم آٹھ دس سال مظلومیت کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کی ضرورت ہے اور اِن کی یہ ضرورت صرف’ میرے عزیز ہم وطنوں !‘ ہی کی مدد سے پوری ہو سکتی ہے۔

جس کے لئے میاں صاحب بہت محنت کر رہے ہیں۔بیڈ گورننس کے علاوہ ان کے وزرائے کرام کے فوج کے بارے میں بیانات اور الیکشن میں شرمناک کے دھاندلی کے حوالے سے چوری اور سینہ زوری کا
تمادشا ؟ آ خر عدلیہ یا فوج کب تک خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔
پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کی فارن پالیسی پر سول حکومتوں کا اختیار نہ ہونے کے برابر رہا ہے اور افوج پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی شجر ممنوعہ ہے کہ اپنی کئی کمزوریوں کے با وجود پاکستان کی سالمیت کے ضامن بھی فقط وہی ہیں۔

یہ بات اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تو میاں محمد نواز شریف کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ جنہیں ان کی کچن کیبنٹ ہمیشہ ظل سبحانی بنا دیتی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ کاروبار ِحکومت کے سارے شعبے کسی عوامی حکومت ہی کے اختیار میں ہونے چاہیے اور ملک کی فارن پالیسی پر اختیار بھی عوامی حکومت ہی کا ہونا چاہیے،لیکن شرط عوامی حکومت کی گڈ گورننس اور عوامی ہونے کی بھی ہے۔

،جس حکومت پر عوام کا مینڈیٹ چرانے کی دھاندلی کے شرمنا ک الزامات ہوں اور جس پر اپنی کرپشن کے ساتھ ساتھ دوسروں کی کر پشن کی سرپرستی کے الزامات بھی ہوں جو دو سو بلین ڈالرز سویز بنکوں میں پاکستانی قوم کے پڑے ہیں،اُن کے مطالبے میں کیا رکاو ٹ ہے ؟ اسے اگر کرپشن کی سرپرستی نہ کہا جائے تو پھر اور کیا کہا جائے ؟میاں صاحب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ چوری اور سینہ زوری کا انجام اچھا نہیں ہوتا کہ ایک منصف اوپر بھی بیٹھا ہوا ہے۔

جو مظلوم عوام کے ساتھ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف صاحب خود بہت کم بولتے ہیں اوراُن کی اِس خوبی کا اعتراف راقم اس سے پہلے بھی اپنے کسی کالم میں کر چکا ہے کہ میاں صاحب ایک سکہ بند مدبر کی طرح خاموش رہتے ہیں خود پر کسی بھی الزام کے جواب میں اکثر خاموش ہی رہتے ہیں ۔ جیسا کہ اُنہوں نے حویلیاں میں ایک ہائی وے کی تعمیر کا افتتاح کرنے کے موقعہ پر ، عمران خان کے طرزِ تخاطب کو نشانہ بناتے ہو ئے کہا بھی ہے کہ میں تو کسی بدتمیزی کا جواب ہی نہیں دیتا۔

پھر انہوں نے عمران خان کو تمیز دائرے میں رہ کر بات کرنے کا ایک لمبا چوڑا بھاشن دیتے ہوئے یہ شکایت بھی کی ہے کہ یہ دھر نے والے ہمارے بچوں اور بچیوں کو کون سی زبان سکھلا رہے ہیں ؟ لگتا ہے میاں صاحب کی یاداشت بہت کمزور ہی نہیں مولانا فضل الرحمن کی طرح کہہ مکرنیوں کے بھی شہنشاہ ہیں ورنہ اِس حقیقت کو سبھی جانتے ہیں کہ سیاست میں بد کلامی کی بنیاد کس نے رکھی ہے؟ ہنسی تو اُس وقت آتی ہے جب میاں شہباز شریف بھی اپنے بڑے بھائی جان کے لئے عمران خان کے” اوئے میاں صاحب “ کہنے پر ، تمیز کے حوالے سے بڑے دکھی لہجے میں افسوس کا اظہارکر تے ہیں،جب کہ وہ خود صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری کے لئے کیا کچھ کہتے رہے ہیں؟کاش اُس وقت وہ خود بھی یہ سوچ لیتے کہ زرداری کے کسی چھوٹے بھائی یا بہن کو بھی تکلیف ہو سکتی ہے۔


بہر کیف ،ابھی ’اوئے‘ کی شکایت ختم نہیں ہوئی تھی کہ عمران خان نے میاں صا حب جیسے شریف انسان کو’مینڈیٹ ‘ کی چوری کرنے کے حوا لے سے ’چور ‘ بھی کہہ دیا ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ چور کو چور نہیں تو اور کیا کہا جائے گا؟ عمران خان صاحب ! سیاست کی دنیا میں سیاسی ہیراا پھیریاں کرنے والوں کو چور نہیں ، سیاست دان کہا جاتا ہے، جو لوگ قومی خزانے پر اربوں روپیوں کے ڈاکے ڈالتے ہیں، انہیں بھی ڈاکو نہیں کہا جاتا۔

وہ وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ یا ان معزز ہستیوں ں کے مشیر کبیر کہلاتے ہیں اور آج کی سیاست میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔فرق بس اتنا ہے کہ دوسرے ملکوں میں جب کوئی چور پکڑا جاتا ہے تو وہ قصہ ِ پارینہ بن جاتا ہے۔لیکن ہمارے ملک میں سیاسی چور عدل و انصاف کے ادروں کی شاہانہ فراخدلی کے طفیل دندناتے اور قوم کے سینے پر مونگ دلتے پھرتے ہیں۔
بہر کیف،میاں نواز شریف جیسے سکہ بند شریف کے پاس اپنے دامن سے چوری کے الزام کو دھونے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنے الیکشن کی چھان بین کا کام جوڈیشنل کمیشن کے ساتھ چھان بین کی معاونت کا کام اپنے گلو بٹوں پر مشتمل پولیس کے بجائے ، فو جی ایجنسیوں کے حوالے کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر کے قوم کے سامنے رکھ دیں،لیکن ساری قوم دیکھ رہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں آج تک عدلیہ کے حکم کے باوجود الیکشن کمیشن کے لئے الیکشن کمشنر کے انتخاب پر ہی سمجھوتا نہیں ہو سکا۔

آ خر کیوں ؟ کیا یہ بھی ہمارے آئین میں ایک بھونڈا مذاق نہیں کہ الیکشن کمیشن کے لئے کمشنر کا انتخاب کرنے کا اختیار ان دو جماعتوں کے پاس ہے جو ہر برے حوالے سے ملک میں نامی گرامی ہیں۔
بہر کیف ، ذکر تھا حولیاں میں جلسے کا۔اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میاں صاحب جیسے شریف پر عمران خان چوری کا الزام لگائے اور شریف خاندان کے محمد نواز شریف اُن کے الزام کا جواب نہ دیں۔

اُنہوں نے اہلیان ِ حویلیاں کو سڑکوں کے جال بچھانے کی خوشخبری سناتے ہوئے عمران خان پر ، سیلاب زدگان کی مدد کے لئے اکٹھا کئے گئے امدادی فنڈ میں خرد برد کرنے کا الزام لگا کر ، بے ایمان ہونے کا الزام لگا دیا ہے اور اپنے انتہائی مدبرانہ خطاب کے بعد ”گو نواز گو، گونواز گو“ بھی سن لیا ہے۔ اب ان دونوں میں سے بے ایمان کون ہے ؟ خرد برد کے الزامات کی بوچھاڑ کس پر ہے؟ پاکستان کا سنجیدہ طبقہ یہ سوال کیوں اٹھاتا ہے کہ میاں برادران کو پاکستان کی تعمیر و ترقی فقط سڑکوں کا جال بچھانے اور بائی پاس بنانے ہی میں کیوں نظر آتی ہے ؟جب کہ پاکستا ن کے اسپتالوں کوغریب قوم کے علاج معالجے کے لئے دوا دارو تک میسر نہیں ہے۔

جو چند اسکول کام کر رہے ہیں۔کئی اسکول ٹیچرز کو تین تین ماہ سے تنخواہ تک نہیں دی جا رہی۔چند دن پہلے ایک دوست سے ”اسکائیپ “ پر گپ شپ ہو رہی تھی کہ انہوں نے معذرتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ۔ ”مجھے آپ کی بات چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔میری بیوی ایک اسکول میں پڑھاتی ہیں۔جنہیں تین ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی،چند ہفتوں سے میرے وقت کا زیادہ حصہ ان کی تنخواہ کے چیک کی وصولی کے لئے بھاگ دوڑ کی نذر ہو جاتا ہے۔


ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے میرے ایک عزیز نے مجھے کسی ضرورت مند کے لئے ای ۔ میل بھیجا کہ اس غریب آدمی کی تین آرٹریز بند ہیں اور اُس سے اس کے بائی پاس اپریشن کے لئے پانچ لاکھ روپیے مانگے جا رہے ہیں۔ سوال ہے۔ میاں نواز شریف کے پاکستان اور ہمار ے نامور خادم اعلیٰ کے پنجاب میں ایک غریب اور بے روزگار آدمی سے اُس کی جا ن بچانے کے لئے پانچ لاکھ کیوں مانگے جا رہے ہیں ؟
میاں صاحب ! سڑکوں کے جال بچھانا بے شک ترقی کا ایک زینہ ہے ۔

لیکن ایک غریب قوم کے لئے سڑکوں کے جال بچھانے سے علاج معالجے کی سہولتیں ،دو وقت پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے دال روٹی کی اور ،ملک میں بجلی کی ضرورت زیادہ اہم ہے۔جس کے نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، بے روزگاری کے ساتھ ساتھ جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ آپ قوم کی ان ضرورتوں سے آنکھیں بند کر کے کس راستے پر گامزن ہیں؟ سڑکوں کے جال بچھانے اور بائی پاس بنوانے کا آپ کا شوق خاصا مشتبہ ہو چکا ہے۔

آپ نے عمران خان کے کھرے پن پر انگشت نمائی تو کر دی ہے۔ذرایہ بھی تو سوچ لیں کہ عمران خان تو اپنے سماجی کام کے حوالے سے کم و بیش ۹۴۔ ۱۹۹۳ ء ء سے چندے اکٹھے کر رہے ہیں۔لیکن آج تک آپ کے سوا کسی بھی معقول آدمی یا ادارے نے بابا عبدالستار ایدھی اور عمران خان کے کھرے پن پر انگلی نہیں آ ٹھائی اور نہ ہی ان کی بے ایمانی کے کسی کارنامے پر کوئی ڈوکو منٹر ی بنائی گئی ہے۔قوم و ملت کے ساتھ بے ایمانی کے الزامات کی بوچھاڑ کس پر ہے ؟ اس کا فیصلہ ہم اپنے پڑھنے والوں پر غالب کے اس شعر کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
جامِ جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سو گند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :