”سوچ نگر“ کی تقریب رونمائی میں میری باتیں

جمعہ 16 جنوری 2015

Abdul Majid Malik

عبدالماجد ملک

کچھ دن انسان کی زندگی میں بہت خاص ہوتے ہیں ،جیسے آج کا دن میری زندگی کا اہم دن ہے کیونکہ آج میری پہلی کتاب ’سوچ نگر‘کی تقریب رونمائی ہے ،پہلی کتاب پہلے بچے کی مانند ہوتی ہے اس لئے آج مجھے خوشی بھی ویسے ہی محسوس ہو رہی ہے ۔
میں یہاں پر اپنے پروردگار کا شکر گذار ہوں جو عظیم ،بے نیاز، مہربان اور رحیم ہے وہ اپنی بڑی عظیم تر سلطنت میں سانس لیتی چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں کو نواز کر عظیم کر سکتا ہے ،خواہشوں کو پیدا کر کے ان کی آبیاری کرتا ہے اور کسی لمحہ ء سخا میں تکمیل سے روشناس کر دیتا ہے ،اہل کتاب کو صاحب کتاب بھی کر دیتا ہے ۔


قارئین!
کبھی سوچابھی نہیں تھا کہ میں لکھوں گا ،لکھا ہوا پبلش بھی ہو گا ، پھر میری سوچ کی لہریں اتنی وسیع ہو جائیں گی کہ ایک جہاں آباد کر لیں گی اور ”سوچ نگر“کتاب کی صورت میں وجود میں آ کر کئی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دے گی اور کئی لوگوں کو اس سے یہ بھی تحریک ملے گی کہ اگر انسان ایک سچے جذبے سے کام کرے گا محنت اور لگن کو اپنا شعار بنائے گا توکچھ بھی ناممکن نہیں۔

(جاری ہے)


قارئین!
میں اگر اپنے ماضی پر نظر دوڑاوٴں توبچپن سے لڑکپن تک کبھی تصور بھی نہیں کیا کہ میں قلم اٹھاوٴں گا کیونکہ علمی میدان میں کچھ قابلیت نہیں تھی بلکہ نالائق سٹوڈنٹس میں شمار ہوتا تھا ،وادی ء نمل کے سنگلاخ پہاڑوں سے پھولوں کے شہر تک کا سفر کوئی آساں نہیں تھا ،لاہور میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ میرا گاوٴں خوبصورت تو ہے لیکن پسماندہ بھی ہے ۔

سوچا کہ کیا میں اپنے گاوٴں اور ارد گرد کے پسماندہ علاقوں کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتا ہوں؟،دوستوں سے مشاورت کی کہ ہمیں کچھ کرنا ہو گا ،پھر 2008ءء میں ایک این جی او کی بنیاد رکھی ،جس کا نام” عکس“رکھا گیا اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے عکس تین الفاظ ع ،ک،س سے مل کر بنا ہے جو ”عوام کی سوچ“کا مخفف ہے اور آج میرے کالم کا لوگو بھی یہی ہے ”عکس“ کا مقصد پسماندہ علاقوں میں تعلیمی میدان میں آگہی،غریب مریضوں کے لئے میڈیکل سہولیات اور لوگوں میں شعورکو اجاگر کیا جا سکے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس نیک مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں اورآج لوگوں کا اعتماد بھی حاصل ہے ۔


قارئین!
2008ءء میں کچھ ادبی و صحافتی دوستوں نے کہا کہ آپ لکھنا بھی شروع کریں ،تو اس وقت سے لکھنا سیکھنا شروع کر دیا ،اور سیکھنے کا عمل آج تک جاری ہے ،اس وقت میری تحریریں لوکل اخبارات میں سے شائع ہوتی تھیں ،پھر انٹرنیٹ کی بدولت مختلف ویب سائٹس پر بھی شائع ہوتی رہیں،پھر اساس ،جناح،نوائے وقت اور خبریں میں بھی لکھتا رہااور آج بھی ایک قومی اخبار میں میری تحریریں شائع ہوتی ہیں ۔


یہاں ایک توجہ دلانا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ جونیئر اور سینئر میں فاصلے بہت زیادہ ہیں جس سے جونیئر کو سیکھنے میں دقت ہو رہی ہے اس فاصلوں کو مٹانے کے لئے پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی ہے اس کے لئے میں پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اس طرح اپنا کام جاری رکھیں۔


قارئین!
میں آج جس مقام پر ہوں یقینا یہ سب میری والدین کی دعاوٴں کا نتیجہ ہے جنہوں نے میری ہر قدم ،ہر موڑپر رہنمائی کے ساتھ دعاوٴں سے بھی نوازا اور آج ایک بار پھر میں اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ ضرور کہوں گا کہ میں جو کچھ بھی ہوں آپ کی وجہ سے ہوں ،اور اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ان کا سایہ میرے سر پر سلامت رکھنا،کیونکہ والدین ایک ایسی عظیم اور لازوال دولت ہے جس کا کوئی بھی نعم البدل نہیں بلکہ والدین کی قدر آپ ان سے پوچھیں جن کا سایہ ان کے سرسے چھن گیا ہو۔


قارئین!
میں آپ تمام دوست احباب کا مشکور ہوں کہ آپ نے اتنی مصروف زندگی میں سے مجھ ناچیز کے لئے وقت نکالا اور میری اس تقریب کو رونق بخش کر میرا مان بڑھا یا اور آج میں اپنے دوستوں کی محبتوں کو دیکھ کر ایک بار پھر یہ ضرور کہوں گا کہ آپ دوست ہی میرا سرمایہ ہیں،اللہ تعالیٰ آپ سب کو سدا شاد و آباد رکھے۔آمین
(میری کتاب”سوچ نگر“کی تقریب رونمائی میں میری باتوں کا خلاصہ پیش خدمت ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :