ایف ۔۔۔ یو

پیر 26 مئی 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد

اٹھارہ برس بیت گئے اس واقعے کو جس میں مشہور امریکی ریپ سنگر کو مصروف شاہراہ پر گولیوں سے چھلنی کردیاگیاتھا۔ قاتلوں کے بارے میں تو آج تک امریکی پولیس معلوم نہ کرسکی مگراب اتنا عرصہ گزرنے کے بعداس پٹرولنگ سارجنٹ نے جو سب سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچا تھا ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ صرف 25برس کی عمر میں اپنے گیتوں سے دھوم مچا دینے والے گلوکار کے آخری الفاظ کیا تھے۔


یہ بات ہمیں پتہ چلی ان امریکی اخبارات کی معرفت جنہوں نے 22مئی کے روز لاس ویگاس کے سابق پولیس افسرکرس کیرول کا انٹرویو شائع کیا۔نیویارک ڈیلی نیوزکی ر پورٹر ساشا گولڈسٹین سے بات کرتے ہوئے سابق پولیس افسر نے ہمیں بتایا ہے کہ اپنے گیتوں میں گالیوں کا بھرپور استعمال کرنے والا ’ٹوپاک شکور‘آخری سانس تک امریکی نظام اور اس کے کل پرزوں کے بارے میں وہی خیالات رکھتاتھا جس کا اظہار اس نے پوری زندگی چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور گاتے بجاتے کیا۔

(جاری ہے)


اپنے گیتوں سے مشہور اور جھگڑوں کیلئے بدنام ٹوپاک شکورجس ’ٹھگ لائف‘ گروپ کا حصہ تھے اس کے مخصوص الفاظ نے اس وقت بھی اس کے ہونٹوں کو چوما جب وہ گولیوں سے چھلنی تھا اور پولیس افسر اس پر جھک پر باربار پوچھ رہا تھاکہ تمہیں کس نے مارا؟۔ اپنے قاتل کا نام بتاؤ۔
نیویارک شہرمیں سولہ جون 1971کو ٹوپاک شکور نے اس عورت کے یہاں جنم لیا جو صرف ایک ماہ قبل جیل سے رہا ہوکر آئی تھی، اس پر ایک سو پچاس الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں امریکی حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ بھی تھا۔

ٹوپاک کی ماں سمیت اس کا پورا خاندان بلیک پینتھر نامی اس پارٹی کا رکن تھاجو ابتدا میں کالی رنگت والوں کے حقوق کیلئے قائم کی گئی مگر بدنامی اٹھانے کے بعد اس جماعت کو سوشلسٹ انقلاب کیلئے استعمال میں لانے کی کوشش ہوئی۔
ٹوپاک نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی امریکی نظام، سرکار اور اس کے اداروں سے نفرت شاید اس کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔

ڈئیر ماما( پیاری ماں) جیسے گیت گانے والے نے اسی وجہ سے ’می اگینسٹ دی ورلڈ‘ ( میں دنیا کے خلاف) جیسے نغمے لکھے جس نے پرجوش نوجوانوں کو اس کے میوزک اور باغیانہ شاعری کا دیوانہ بنادیا۔ اور پھر وہ امریکی سماج میں ایک ایسا نام بن گیا کہ جس سے لوگ محبت بھری نفرت کرنے لگے۔ٹوپاک شکور کا ہر گیت امریکی نظام اور معاشرے میں چھپے دوغلے پن کو ننگا کرنے لگا، اس نے صرف کالوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو موضوع نہیں بنایا بلکہ عدالتوں سے لے کر میڈیاتک میں موجود استعمار کی ذہنیت کو اپنے گیتوں کے ذریعے گالیاں دیں۔


جس طرح آج کل ہماراسماج منافقت اور دوغلے پن کا شکار ہے جس میں ہر شخص عام گفتگو سے لے کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں، اور جلسے جلوسوں سے لے کر ٹی وی ٹاک شو میں ہونے والی بحث تک میں اردو کا چار حرفی لفظ بہت زیادہ استعمال کرتا ہے، ہر شخص دوسرے پر لام سے شروع ہوکر ’ت‘ پر ختم ہونے والا لفظ کسی بھی وقت پھینکنے کیلئے تیارہوتاہے مگر اسی لفظ کو اگر کوئی اپنے کسی گیت میں باربار دہرائے گا تو اس کے خلاف بات کرنا ثواب قرار پائے گا، اسی طرح کی منافقانہ سوچ کا شکار امریکی معاشرہ بھی تھا۔

جب ٹوپاک نے اپنے گانوں میں انگریزی کے چار حرفی لفظ (ایف ،یو،سی ، کے) کا استعمال شروع کیا تھاتو اس پر سخت ردعمل سامنے آیا۔
ٹوپاک شکور نے کسی تنقید کی پروا نہیں کی، شاید وہ جانتا تھاکہ بہت مختصر وقت میں اس کو بہت کچھ لکھنا اور گانا ہے۔اسی لیے اس نے ’آل آئیز آن می‘(سب کی نظریں مجھ پر) جیسا نغمہ گایااور یہ میوزک البم بھی سپر ہٹ رہا۔

ٹوپاک شکور کے کیسٹ ستر لاکھ لوگوں نے خریدے۔ٹوپاک نے اپنے گانوں میں صرف اپنی موت کی پیش گوئی ہی نہیں کی تھی بلکہ ہر وہ بات کی جو اس نے سوچی۔ ’اف آئی ڈائی ینگ‘ (اگرمیں جوانی میں مرا) اس کا ایک خوبصورت گیت ہے تو ’ورڈز آف وزڈم‘(دانائی کے الفاظ) والے گانے میں بھی اس نے امریکا کو نہیں بخشا۔وہ گاتا ہے کہ ’یہ ہمیں ایک ایک کرکے قتل کررہے ہیں، ایک یا دوسرے طریقے سے، یہ امریکا کے مسائل کو ایک ایک کرکے اسی طرح ختم کریں گے‘۔

ٹوپاک شکور کون اور کیا تھا؟۔ وہ کیا چاہتا تھا، اس پر ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق بولتا رہے گا مگر اس کے اپنے الفاظ میں ’مجھے صرف میرا خدا سمجھ سکتا ہے( اونلی گاڈ کین جج می)۔شایدیہ گیت اس کی مختصر سی زندگی کامکمل فلسفہ ہے۔
امریکی نظام قانون کے نفاذ کیلئے سرگرم اداروں کیلئے اس کی نفرت کھلے عام تھی، کیا یہی وجہ ہے کہ امریکی پولیس آج تک ٹوپاک کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا نہ دے سکی؟۔

اس بارے میں کوئی رائے حتمی طورپر قائم نہیں کی جاسکتی مگرامریکا کے گناہوں کے شہر(سن سٹی) قراردیے جانے والے لاس ویگاس کے ہفت روزہ اخبار ’ویگاس سیون‘ کے مطابق سات ستمبر ِکو گولیوں سے چھلنی ٹوپاک کو جب ایمبولینس میں ڈالا جارہاتھا تو وہ ہوش کی دنیا سے رخصت لے رہاتھا۔ٹوپاک ہسپتال کے بستر پر چھ دن پڑا رہا جہاں ڈاکٹروں نے اس کوبچانے کی ہر کوشش کی،مشین کے سہارے دھڑکتے دل میں زندہ رہنے کی کوئی آرزو نہ ابھری تو اس کی ماں نے ہسپتا ل کے عملے کو جانے والے کی مشکل آسان کرنے کیلئے کہہ دیا۔

اس طرح ٹوپاک شکور کے آخری الفاظ وہی قرار پائے جو وہ ایمبولینس میں منتقل کیے جانے سے قبل ادا کرچکا تھااورجو اس پولیس والے کے پاس امانت تھے جو سب سے پہلے اس کرائم سین پرپہنچا تھا۔
کرس کیرول نے انٹرویو میں کہا ہے کہ اس نے ٹوپاک کے آخری الفاظ کے بارے میں کسی کو اس لیے نہیں بتایاکہ کیس ابھی حل نہیں ہوا، دوسری وجہ یہ تھی کہ آخری الفاظ بارے پتہ چلتا تو ’لیو فاسٹ، ڈائی ینگ‘ والے ’لے جنڈ ‘ ریپرکو مزید شہرت حاصل ہوتی،وہ کہتا ہے کہ’ میں نہیں چاہتا تھا کہ ٹوپاک کو شہید کے طورپر یاد کیاجائے یا وہ ہیروقرار پائے‘۔

میں یہ نہیں چاہتا تھاکہ لوگ کہیں کہ جب وہ مررہاتھا، اس کی سانس اکھڑ رہی تھی،اس کی نبض ڈوبنے کو تھی تب بھی وہ پولیس والوں سے بات کرنا پسند نہیں کررہاتھا،میں اسی وجہ سے اس کو ہیرو بنانا نہیں چاہتا تھا، مگر اب بہت وقت گزرگیاہے اوروہ بہرحال شہید ہے، لوگ اسے ہیرو قرار دے چکے ہیں، اس موقع پر میرا خاموش رہنا کہانی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا۔


سات ستمبر1996کے اس حادثے کو یاد کرتے ہوئے سابق پولیس افسر کرس کیرول نے کہاکہ میرے بار بار پوچھنے پرٹوپاک نے مجھ پر نظر ڈالی،ایک سانس لی تاکہ الفاظ باہر آسکیں اور پھر منہ کھولا۔پولیس افسر کہتے ہیں کہ اس نے سوچا بل آخراسے کچھ تعاون حاصل ہورہاہے اور وہ اب حملہ آور کا نام سن سکے گا مگر جب اس نے سنا تو ٹوپاک شکور کہہ رہاتھا وہی چار حروفی لفظ جو اس نے پوری زندگی پولیس اور امریکی نظام کیلئے استعمال کیا تھا، فاک ۔۔ یو۔
(ایک سوال۔۔ ہمارے معاشرے کے وہ کردار جو ہر دوسرے شخص پر لعنت بھیجتے اور ہر پہلے جملے میں گالی کا استعمال کرتے ہیں کیا اپنے آخری الفاظ بھی اسی بہادری سے موت کے فرشتے کو دیکھ کر ادا کریں گے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :