ریلوئے لائنوں پر آبادیوں کی کثرت

منگل 19 جون 2018

Hussain Jan

حُسین جان

پاکستان کے تمام قومی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں ریلوئے ، واپڈا، سٹیل مل،گیس، پی آئی اے اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ان اداروں کی بربادی کے عوامل پر کبھی بحث نہیں کی گئی۔ پاکستان کی اقتصادی حالت دن بدن گرتی چلی جا رہی ہے۔ مگر کسی حکومتی شخصیت کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ خیر سے اب تو ویسے بھی قائم مقام حکومت چل رہی ہے جس کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس ملک کے بدحال عوام کمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آپ پاکستان ریلوئے کا ادارہ ہی دیکھ لیں اس وقت اس کی حالت بہت پتلی ہے۔ سعد رفیق صاحب کے بلندوبانگ دعوؤں کے باوجود یہ ادارہ خسارئے میں چل رہا ہے۔ ا کثرو بیش ایسی خبریں بھی آتی ہیں کہ اب یہ اداراہ ابھی گیا کہ گیا۔

(جاری ہے)

ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور شائد اب اُن کے بنائے ہوئے ادارے بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

کیونکہ ریلوئے کا نظام برصغیر میں انگریزوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔
آپ کسی بھی ادیب ، افسانہ نگار ، کالم نویس کو پڑھ لیں اُن کی تحریروں میں ریلوئے کے سفر کو رومانوی حثیت حاصل ہے۔ کبھی یہ ادارہ منافہ بخش کہلاتا تھا۔ مگر اب یہ ادارہ اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے۔لوگ اس پر سفر کرنے سے کتراتے ہیں کہ پتا نہیں وقت پر پہنچ پائیں گے یا نہیں ۔

اور پہنچے گے بھی یا نہیں اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔
پاکستان ریلوئے کی تبائی کی ایک بڑی وجہ اُس کی زمینوں پر قبضہ مافیا کا قبضہ ہے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے عوام کے پاس مناسب روزگار نہیں۔ رہنے کے لیے چھت نہیں۔ اسی لیے بہت سارے لوگوں نے ریلوئے لائنوں کے ساتھ ساتھ کچی بستیاں بنا رکھی ہیں۔ اب یہ کچی بستیاں باقاعدہ کمرشل ہوتی نظر آرہی ہیں۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک چار پانچ سال کا بچہ ریل گاڑی کی زد میں آگیا۔ اس علاقے کے لوگوں نے حکومت کو برا بھلا کہنا شروح کردیا کہ یہ زمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اس حوالے سے ایسے اقدامات کرے جن سے اس جیسے حادثات سے بچا جا سکے۔ لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ وہ جس جگہ پر رہائش رکھے ہوئے ہیں وہاں کسی بھی قسم کی رہائش خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ جگہ رہنے کے لیے نہیں۔

بچے کی ماں کی بری حالت تھی وہ بار بار یہی جملہ دوہرا رہی تھی کے میرے لال نے کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ اُس کی جا ن چلی گئی۔ جب ایک شخص سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ یہاں کیوں رہ رہے ہیں تو اُس نے جواب دیا کہ ہم غریب لوگ ہیں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس موت کی وادی میں رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو چھت کو سہولت دینا حکمرانوں کا کام ہے۔

لیکن اس کے باواجود اسیی جگہوں پر رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ غیر قانونی بھی ہے۔ یہ زمہ داری ریلوئے احکام کی ہے کہ وہ اپنی زمین واگزار کروائے۔ ان آبادیوں کی ایک وجہ ہمارے سیاستدان بھی ہیں۔ جو الیکشنزکے دنو ں میں وہا ں کہ رہایشیوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ جیت کر اس آبادی کو مالکانہ حقوق دلوا دیں گے۔ ایسا کرتے وقت انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ اس سے ملک کا کتنا نقصان ہو گا۔

اگر لوگوں کو رہنے کے لیے زمین دینی ہی ہے تو ریلوئے کی ہی کیوں۔ اور بھی بہت سی جگہ ہر وقت حکومت کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ جس سے وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی آبادیا ں جرائم پیشہ افراد کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوتی ہیں ۔ کیونکہ یہا ں کے رہنے والوں کا کوئی ریکارڈ حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ آپ کو جگہ جگہ سنوکر کلب اور دوسرے جوئے کے اڈے نظر آئیں گے جو بچوں کو بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔


لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس جگہ کے عادی ہوچکے ہیں اور ٹرین کا یہا ں سے گزرنا اُن کے لیے معمول کی بات ہے۔ ایسے علاقوں میں حادثات معمول کی بات ہیں ۔ جس کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی قیمتی جان چلی جاتی ہے۔ اس بابت جب ایک دوسرے رہائشی سے پوچھا گیا تو اُس نے بجائے یہ کہ جگہ خالی کردینی چائیے اُلٹا حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے وہ ان کالونیوں کا وہ تمام سہولیات مہیا کرئے جو دوسری کالونیوں کہ میسر ہیں۔


انگریزوں نے ریلوئے ٹریک اسی جگہ پر بچھائے تھے جہاں آبادی نہیں تھی تاکہ کسی بھی قسم کے حادثے سے بچہ جاسکے۔ اور جب تک انگریز موجود رہے انہوں نے کسی کو بھی ریلوئے ٹریک کے آس پاس گھر نہیں بنانے دیا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ نیں دی۔ پچھلے 65سالوں سے اس ملک کے دیمک کی طرح چاٹا جا رہا ہے۔ مگر اس کی شنوائی نہیں ہوتیل۔ یہ بدنصیب ملک غالباً لیا ہی اس لیے گیا تھا کہ اس کے عوام کو بری حالت میں رکھنا ہے۔

کیونکہ ملکی مسائل پر تو چند خاندانوں کا قبضہ ہے۔
جب ریلوئے حکام سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی زمین ان لوگوں سے واگزار کیوں نہیں کرواتے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ریلوئے کی بہت سی زمین قبضہ مافیا سے حاصل کرلی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب ہم یہا ں پر موجود آبادیوں سے زمیں خالی کروانے کے لیے آپرشن شروع کرتے ہیں تو ہمیں عوام کی طرف سے زبردست مذاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم پر کچھ سیاستدانوں کا بھی پریشر ہوتا ہے۔ کیونکہ جب بھی آپریشن کا آغاز کیا جاتا ہے تو متلقہ علاقے کے MNAاور MPA آدھمکتے ہیں کہ ہمارے حلقے کی آبادی پر آپریشن مت کرو اس سے ہماری ساکھ متاثر ہو گی۔ لیکن اس کے باواجود ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کے ریلوئے کی زمین لوگوں سے واگزار کروالیں ۔ کیونکہ لوگوں کو زمین دینے کی زمہ داری حکومت کی ہے نہ کہ ریلوے کی۔ ریلوئے احکام کی طرف سے ایک انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ۔ وہ لوگ جو شروع سے یہاں رہتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ بیچ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ اور اب جو لوگ ریلوئے کی زمیں پر قابض ہے وہ اس کو کمرشل بنیادوں پر استعمال کر رہے ہیں۔ جس سے ریلوئے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :