کیا سیاسی طور پر ہم اس قدر بانجھ ہو چکے؟

منگل 19 جون 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

افسوس ! صد افسوس ، قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم جہاں کئی اقسام کی محرومیوں کا شکار ہیں اس میں سب سے بڑی محرومی سیا سی طور پر ہمارا بانجھ پن ہے۔ ہم آج تک مقامی سطح پر کوئی ایسا لیڈر پیدا نہیں کر سکے جو ہم میں سے ہو تااور قوم کی رہنمائی کرتا۔ جو قوم کے حقیقی مسائل سے واقف ہوتا، قوم کیا سوچتی ہے اور کیا کرنا چاہتی ہے ، اس کے بارے اسے مکمل آگاہی حاصل ہو تی ۔

قوم کن کن مشکلات سے دوچار ہے اور اس کا حل کیا ہے؟قومی سطح پر کس طرح کے فیصلے کر کے ملک و قوم کو عظیم سے عظیم تر بناناہے ، اس بارے کوئی جامع پالیسی بنا کر اس پر کام کرتا۔ دنیائے عالم میں قوم کو کس طرح معزز و محترم بنانا ہے ، اس کے لئے اپنی تما م تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا۔ملک میں معاشی انقلاب کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہے ، اس بارے غور کرتا اور اس کے لئے فوری طور پر ہنگامی صورتحال کا نفاذ کرتا۔

(جاری ہے)

ناخواندگی کے خاتمے اور فروغ علم کے لئے کوششوں میں مصروف ہوتا اور علاج کے لئے سسکتے ہم وطنوں کے مفت اور جدید علاج کے لئے کمر بستہ ہو تا ۔ لیکن افسوس! ہم نے ایسے لیڈر کو صرف خواب وخیال تک ہی محدود کر رکھا ہے اور اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی کوشش نہیں کر رہے۔
قارئین !یہی وجہ ہے کہ بد قسمتی کے ساتھ کئی عشروں سے ہمارے اوپر ایسے لوگ حکمرانی کر رہے ہیں جو قوم کے مسائل اور ان کی پریشانیوں سے پوری طرح بے خبر ہیں ۔

یہ آتے ہیں ، حکمرانی کرتے ہیں ، اپنے آقاؤں کی خوشامد کرتے ہیں اور پھراپنے سوئس بنک بھر کر ، مغربی ممالک میں اربوں کی جائیدادیں بنا کر ، قوم کی خون پسینے کی کمائی سے آف شور کمپنیاں قائم کر کے، عیدوں سمیت تما م تہوار بیرون ممالک انجوائے کر کے ، سر درد کے لئے بھی امریکہ اور یورپ کے بڑے ہسپتالوں میں اپنا علاج کراکے ، اپنی نسلوں کو آکسفورڈاور ہاورڈ جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرا کے یہاں تک کہ بچوں کے پیمپر کے اخراجات بھی قومی خزانے سے ادا ء کرتے ہیں ۔

یہ ایک دوسرے کو کرپشن، حرام خوری اور دو نمبری پر اخلاقی جواز فراہم کرتے ہوئے قوم کو بیو قوف بنا کر انجوائے کرتے ہیں اور پھر سے الیکشن کے موسم میں کسی بھکاری کی مانند ووٹ کا کشکول ہاتھ میں تھامے ، قوم کو پھر جھوٹے خواب دکھا کر اپنے آقاؤں کے تعاون سے ملک و قوم کا مزید بیڑہ غرق کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
قارئین محترم !مجھ سمیت کئی لوگ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ شاید یہ ہمارے خوابوں کو تعبیر بخشے اور یوں ہم زرداریوں اور شریفوں سے نجات حاصل کر کے قومی سطح پر کوئی لیڈر چنتے جوسینے میں پلتی امیدوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کمر بستہ ہوتا۔

لیکن ہماری امیدوں کو اس وقت توڑ دیا گیا جب تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کی طرف سے ٹکٹوں کا اعلان کیا گیا۔ اب تک کہ اعلان کے مطابق سو کے قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے کرپشن کی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔سابقہ ادوار میں جنہوں نے قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کے تما م ریکارڈ توڑے ۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے خان صاحب کی سوچ پر کہ کئی عشروں پر محیط جدوجہد کو کچھ ہی دیر میں تباہ و بر باد کر کے رکھ دیا ۔

وہ لوگ بھی اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر تحریک انصاف میں جوق در جوق شامل ہورہے ہیں اور یہ کسی نظرئیے یا جذبے کے تحت نہیں بلکہ کسی کو حلقہ انتخاب تبدیل ہونے کی بناپر سابقہ پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا تو کسی کو سابقہ دور میں ”انے واہ“ کرپشن اور اس سے حاصل شدہ آمدنی خود ہڑپ کر جانے کی وجہ سے آؤٹ کر دیا گیا ۔ مسلم لیگ ن کی بات کی جائے تو الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد ان کے کسی بھی ایم۔

پی۔اے یا ایم۔این۔اے کو یہ زحمت گوارہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں جا کر لوگوں کے مسائل سنیں۔مزید بد بختی یہ ہے کہ وہ جاتی عمرہ اور ماڈل ٹاؤن بیٹھے اپنے لیڈروں اور ان کے بچوں کی خوشامد کر کے پھر سے پارٹی ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
قارئین محترم !یہ بھی ہمارا المیہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی نظرئے کے تحت نہیں بلکہ صرف بر سر اقتدار آنے کے لئے لفنگوں، چوروں اور بد نام زمانہ لوگوں میں پارٹی ٹکٹس تقسیم کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے ساری کی ساری پارلیمنٹ ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور پھر یہاں ملک و قوم کے مفاد کی بات کی بجائے صرف اسی بات کی پلاننگ کی جاتی ہے کہ ہم نے کس طریقے سے الیکشن میں خرچ ہونے والے اخراجات کو 200گنا کر کے حاصل کر نا ہے ۔

اگر تو ہم ایسی جونکوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور ملک کو عظیم تر بنا نے کے خواب کو تعبیر بخشنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضرورت ہے کہ ہم مروجہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے کارندوں پر یقین کر نے کی بجائے اپنے اندر سے ایسے لوگوں کو تیار کریں جو ہم میں سے ہوں ۔ اگر تو ایسا ہو گیا تو کچھ بعید نہیں کہ ہم شاہراہ کامیابی کا مسافر بن جائیں اور اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی روش نہ تبدیل کی تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے ۔ کیونکہ سیاسی طور پر بانجھ قوم پھر دنیا میں صرف غلام کہلانے کی ہی مستحق ٹہرتی ہے ۔طاقتور ملکوں کی غلام، نام نہاد لیڈروں کی غلام اور سیاسی جونکوں کی غلام، موجودہ حالات جس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :