ہم مالک اور ہمارے خادم

جمعرات 14 جون 2018

Muhammad Arslan Farid

محمد ارسلان فرید

حضرات ملک پاکستان میں گلیاں پکی ہونے اور گٹر صاف ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جی ہاں اس وقت ملک بھر میں الیکشن کا بخار سر چڑھ کر بول رہا ہے، جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، پارٹی فنڈز کی بنیاد پر کہیں ٹکٹیں دی جارہی ہیں تو کہیں اپنوں کو نوازا جا رہا ہے، کہیں پرانے کارکنوں کو نظر انداز کرنے پر دھرنے کی دھمکی دی جارہی ہے تو کہیں ٹکٹ کے حصول کیلئے انڑویو میں گانے سنے جارہے ہیں۔

ملک اور عوام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہیں کوئی اپنی کرسی واپس لینے کی جنگ لڑ رہا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے 'اللہ دا واسطہ جے مینوں وزیراعظم بنا دیو'۔
یہ وہ وقت ہے جب ہمارے خادم منہ لٹکائے اپنی پراڈو سے نیچے اترتے ہیں اور اپنے حلقے کی ٹوٹی ہو ئی گلی میں کارنر میٹگ کے لئے آتے ہیں اور وہاں ہم مالک سینہ تان کر مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے کہتے ہیں 'گلی پکی کروا اوئے'۔

(جاری ہے)

ہمارا خادم جی حضور کہہ کر دو چار گھسے پٹے راگ الاپ کر بیچارا واپس اپنی پراڈو میں بیٹھ کر اپنے چھوٹے سے محل کہ طرف روانہ ہو جاتا ہے اور ہم مالک آنکھوں میں چمک لئے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی تشریف کو جھاڑتے ہوئے واپس اپنے گھروں میں آجاتے ہیں اور شان سے بتاتے ہیں آج شاہ صاحب نے مجھے ہاتھ ملایا، آج میاں صاحب نے مجھے نام سے بلایا۔


اپنی پارٹی کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے ہم مخالف پارٹی کے سپورٹر کے خلاف ہر حد تک جائیں گے اس بات کو پس پشت ڈال کر کے وہ شخص میرا بھائی ، دوست ہمسائیہ یا کوئی قریبی رفیق، احباب ہے جبکہ ہماری پارٹیوں کے رہنما دن میں ایک دوسرے پر طنز کے نشتر چلا کر شام کو ایک ہی شباب و کباب کی محفل میں خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے۔
پھر وہ وقت آئے گا جب کہں تیر چلے گا، کہیں شیر دھاڑے گا، کہیں بلا پھینٹا لگائے گا تو کہیں ووٹ کے بدلے جنت کا براہ راست ٹکٹ ملے گا۔

کوئی فقط ایک بریانی کی پلیٹ پر ایمان بیچے گا، کوئی چند روپوں کے عوض ضمیر فروخت کرے گا تو کوئی اس جھنجٹ سے دور چھٹی کے مزے لے گا، کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کا ووٹ کسی دوسرے حلقے میں شفٹ ہو گیا ہوگا، کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کوشام کو پولنگ بوتھ جانے پرمعلوم ہوگا کہ وہ اپنا ووٹ دن میں کاسٹ کر چکے ہیں، کچھ ایسے بھی ہوں گے جن پر یہ انکشاف ہو گا کہ ان کی مرحوم بیوی بھی ووٹ کاسٹ کر چکی ہیں۔

کچھ ایسے بھی ہوں گے تبدیلی کے دعویدار جو اس دفعہ تہیہ کرکے آئیں گے میں پچھلی دفعہ والے نشان کو ووٹ نہیں دوں گا مگر انہیں اس وقت حیرت کا جھٹکا لگے گا جب انہیں نئے نشان پر بھی پرانے امید وار کا ہی نام ملے گا۔
پھر دھاندلی کا شورمچے گا، آزاد امید واروں کی منڈی سجے گی، جن جن امیدواروں نے ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑے ہوں گے ان نشستوں پر پھر سے الیکشن ہوں گے اس حلقے میں پھر سے موج ہو گی بریانی چلے گی میلہ سجے گا۔


شاہ صاحب، میاں صاحب، حاجی صاحب، میری برادری، سنی برادری، شیعہ برادری، اقلیت برادری، چھوٹا صوبہ، بڑا صوبہ، میرا بھائی، تیرا بھائی، ووٹ کو عزت دو، دو سال میں اندھیروں کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہم اس وجہ سے ووٹ دیں گے کہ اگر یہ اقتدار میں آگئے تو ہمیں روٹی، کپڑا مکان اورپینے کو صاف پانی ملے گا۔ ہمارے پڑھے لکھے ماسٹرز ، پی ایچ ڈی کئے ہوئے لوگ اپنی قسمت اپنے ہاتھوں سے ایک جعلی ڈگری والے کے ہاتھں میں سونپے گے۔
اس سارے رولے میں دور کہیں کونے میں بیٹھی جمہوریت اپنے ارمانوں پر آنسو بہا رہی ہو گی۔ جناب یہ ملک کسی دورمیں اسلام کی تجربہ گاہ تھا لیکن اب یہاں چند خاندانوں کے غلام بستے ہیں جنہیں اپنی زنجیروں سے بہت محبت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :