ڈاکٹر سعید اختر اب آپ جا نہیں سکتے

اتوار 10 جون 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

آج کل میڈیا پر سیاسی خبروں کے علاوہ ایک عدالتی نوٹس کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ " چیف جسٹس پاکستان نے پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پی کے ایل آئی کے بجٹ اور بھرتی کیے گئے ڈاکٹرز اور عملے کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے پی کے ایل آئی اے میں ملازمین کے سروس اسٹرکچر کی تفصیلات بھی طلب کرلیں جب کہ چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب آج شام تک تمام تفصیلات میرے گھر پر فراہم کی جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے نوٹس میں آیا ہے کہ 15،15 لاکھ روپے پر ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی کے ایل آئی کا سربراہ کون ہیں۔کمرہ عدالت میں موجود چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر سعید اختر پی کے ایل آئی کے سربراہ ہیں اور وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے ڈاکٹر سعید کی اہلیہ بھی پی کے ایل آئی میں تعینات کی گئی ہیں، عدالت کو تمام تر تفصیلات فراہم کی جائیں "۔

اس خبر کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ڈاکٹر سعید کے حوالے سے ایک بھیانک مہم کا آغاز ہو گیا جس کا مقصد ڈاکٹر سعید کو ایک نااہل ڈاکٹر کے طور پر پیش کرنا تھا ۔
میں یہ کالم کبھی نہ لکھتا اگر میں ڈاکٹر سعید کو زاتی طور پر نہ جانتا ہوتا۔ قریبا دو سال پہلے رمضان کے مہینے میں ہمارے ایک پرانے مہربان کا فون آیا ۔ یہ وہ صاحب ہیں جو نیکی ہر کام میں اپنا نام خفیہ رکھتے ہیں بہت ہی ثروت مند شخصیت ہیں مگر نہائت درد مند دل رکھتے ہیں۔

ان کی بات کا احترام ہم پر واجب رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا آج آپ کے گھر کھانا کھائیں گے اور آپ کو ایک لاجواب شخصیت سے ملوائیں گے۔ ان کے ساتھ آنے والی وہ لاجواب شخصیت ڈاکٹر سعید تھے۔ چند لمحوں کی گفتگو میں ڈاکٹر سعید کی وطن سے محبت واضح ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب امریکہ کے نامی گرامی ڈاکٹر تھے اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں واپس آئے تھے۔

شفا انٹرنیشل ہسپتال میں آپ نے پاکستان کڈنی انسٹیوٹ قائم کیا جہاں ڈیڈھ لاکھ مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا۔ ان تمام غریب مریضوں کو وہی سہولیات دی گئیں جو شفا انٹرنیشل جیسے مہنگے ہسپتال میں کسی بھی امیر مریض کو حاصل ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اب پاکستان کڈنی انسٹیوٹ کو پاکستان کڈنی اور لیور ہسپتال بنانے چلے تھے۔ ان کے عزم کے مطابق یہ پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے عمدہ ہسپتال ہو گا۔

ڈاکٹر صاحب جس لگن سے اس ہسپتال کا ذکر کر رہے تھے اس کے لیئے ایک نشست ناکافی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے چند دن کے بعد اپنے گھر دعوت افطار پر دعوت دی۔ وہاں ایک چادر میں لپٹی نہائت سادہ خاتون سے تعارف ہوا یہ ڈاکٹر معصومہ سعید تھیں جو دنیا بھر میں جانی پہچانی انستھیزیسٹ کے طور پر کام کرچکی تھیں اور اب تک ہزاروں پیچیدہ آپریشنز کروا چکی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی دو صاحبزادیاں بھی ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں مزید تعلیم حاصل ر رہی ہیں۔افطار کی دعوت میں کھجور اور دال چاول تھے جو ڈاکٹر معصومہ نے خود بنائے تھے۔ ہماری دوست شخصیت نے بتایا کہ ڈاکٹر سعید اپنے امریکہ کے قیام میں ایک ماہ میں کئی کروڑ روپے کماتے تھے اور ان کے پاس اپنا ایک چار نشستوں والا ہائی پرفارمنس سیسنا جہاز بھی تھا ۔

ڈاکٹر صاحب کی سادگی دیکھ کر اس کا یقین نہیں آتا تھا مگر انکے علم و فضل کو دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ یہ رقم انکے تجربے کے حوالے سے کم تھی۔ڈاکٹر صاحب اپنی دھن میں نئے پراجیکٹ کا ذکر کرتے رہے کہ زمین کا انتظام تو وزیر اعلی شہباز شریف نے کر دیا ہے بس اب جلدی سے تعمیر مکمل ہو جائے تو ہزاروں مریضوں کا فائدہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ملاقات میں بھی اپنے ہسپتال کے خواب کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کی بس ایک جنون کے عالم میں پاکستان سے اپنے عشق کا ذکر کرتے رہے اور بتاتے رہے کس طرح ایک دن ان کی کایا پلٹ گئی اور انہوں نے سوچا بہت کما لیا اب وطن کی خدمت کے لیئے باقی زندگی کو وقف کیا جائے۔

ڈاکڑ صاحب کی گفتگو میں قران کریم کی آیات کا ذکر مسلسل رہا اور اس بات پر زور رہا کہ انسان کو اللہ کی مخلوق کی خدمت میں پہل کرنی چاہیئے۔خصوصا وہ اس حدیث کا ذکر کثرت سے کرتے رہے مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔
ڈاکٹر سعید کے زیر نگرانی لاہور میں تعمیر ہونے والا پاکستان کڈنی اور لیور ہسپتال معیار کے اعتبار سے پاکستان کا ہاورڈ کہلایا جا سکتا ہے۔

جے سی آئی کے بین القوامی معیار پر پورا اترنے والا یہ پہلا ہسپتال ہو گا۔ ابتدا میں اس میں چار سو ستر بیڈ کا انتظام ہو گا اور تکمیل کے بعد بیک وقت پندرہ سو مریض داخل کیئے جا سکیں گے۔اس ہستال کی خاص بات اس کی ٹیچنگ اور شعبہ تحقیق ہے جو ایشاء میں اپنی مثال ہو گی۔پنجاب حکومت کی شعبہ صحت میں اس بڑی کامیابی کا چرچا بہت ہی کم کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد میں نے بڑی مشکل سے ہمت کر کے اس فرشتہ سیرت انسان کو فون کرنے کی ہمت کی تو ڈاکتر صاحب کو ہمیشہ کی طرح حوصلہ مند پایا۔

میں جانتا تھا کہ وہ امریکہ میں کتنا کماتے تھے اس لِئے سوال کرتے حجاب آیا کہ آپ کی تنخواہ پر جو اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں وہ کتنے رکیک ہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے خود ہی بتا دیا کہ پاکستان میں بھی باہر آنے والے ڈاکٹر اس سے کہیں زیادہ تنخواہ پر کام کر رہے ہیں ۔ خود شوکت خانم میں ایک ڈاکٹر صاحب تیس لاکھ روپیہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سعید نے یہ بھی بتایا کہ وہ حکومت سے اپنی تنخواہ صرف تین سال لیں گے اور اسکے بعد اس سپتال کے تمام تر اخراجات ہسپتال سے ہی پورے ہوں گے۔

ڈاکٹر سعید نے یہ بھی بتایا کی سوشل میڈیا کی رکیک مہم کے برعکس انکی اہلیہ کے سوا انکے خاندان کا کوئی شخص اس ہسپتال میں ملازمت نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی گواہی دینے کے لیئے ٹکساس ٹیک یونیورسٹی کے حالیہ چیر مین ڈاکٹر ورنر کا خط بھی منگوالیا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کے انیس سو چھیانوںے میں ڈاکٹر سعید شعبہ یورالوجِی کی چیئر مین تھے۔

ڈاکٹر سعید تین سال سے اس ہسپتال کے پراجیکٹ سے وابستہ ہیں اور ان تین سالوں میں انہوں نے ہسپتال سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا بلکہ تمام دنیا میں اس ہسپتال کی پبلسٹی کے لئے تمام دورے بھی اپنی جیب سے کئے۔ امریکہ میں ایک ماہ میں کڑوروں کمانے والے ڈاکٹر سعید آج کل لاہور میں ایک گیسٹ ہاوس کے ایک کمرے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے ہیں جس کا کرایہ اور تما تر اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔


ہم نے ڈاکٹر سعید اختر جیسے فرشتہ صفت انسان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ناقابل معافی ہے مگر حوصلہ ہے ان کا جو اب بھی کہہ رہے تھے کہ عدالتی کاروائی کی وجہ سے ہسپتال کے کام کا حرج ہوتا ہے لیکن اللہ پاک جب مشکل دیتا ہے تو آسانی بھی عطا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اور بھی کچھ کہا ہو گا مگر ان کے حوصلے تاب میں نہ لا سکا اور بس اتنا کہہ کر فون بند کر دیا کہہ ڈاکٹر صاحب ان گھناونی سازشوں سے پریشان ہو کر یہ ملک نہ چھوڑ جائیے گا ۔ ہزاروں مستحق مریض ان عدالتی نوٹسز سے بے خبر آپ کی راہ تکتے ہوں گے ۔ شفا کو ترستے ہوں گے۔ آپ کو ان غریب مریضوں کی قسم اب آپ یہ ملک چھوڑ کر جا نہیں سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :