سپائی کرونیکلز اورسابق جاسوس سربراہان

جمعہ 8 جون 2018

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی اور بھارتی جاسوس ادارے راکے سابق سربراہ اے ایس دلت نے مشترکہ طور پر ایک کتاب سپائی کرونیکلز را آئی ایس آئی اینڈدی الوجن آف پیس رقم کی جس کو میں نے بھی ایک صحافی کے ناطے بڑے شوق سے پڑا کہ شائد اس میں کچھ ایسی باتیں ہوں جو واقعی قابل ستائش ہونگی ، جس میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل سمیت دیگر مسائل کے بارے میں کوئی دانشمندانہ رائے ہوگی کیونکہ کتاب کسی عام شخص نے نہیں دو پڑوسی دشمن ملکوں کے سابقہ انٹیلی جنس سربراہان کی ایک مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔

لیکن کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو سراہا جائے۔ اگر یہ کہا جائے تو شائد غلط نہ ہوگا کہ دو دوستوں نے کتاب اپنے بزنس مقاصد کیلئے لکھی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے پانچ چھ ملاقاتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ڈائیلاگ کیا جس کو ایک کتاب کی شکل دی گئی ہے۔
کتاب میں اسامہ بن لادن ، ممبئی حملے، کارگل آپریشن، سانحہ لال مسجد، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، پاکستان کے جوہری دھماکوں اور اکھنڈ بھارت سمیت کئی موضوعات زیربحث لائے گئے۔


اسامہ بن لادن کے بارے میں اسد درانی کا کہنا ہے کہ بن لادن کو ایک مشترکہ رضامندی کے بعد امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ شائد پاکستان نے ہی امریکہ کو کہا اِس کو یہاں سے لے جاو۔ پاکستان نے اس طریقے سے اسامہ کو حوالے کیا کہ سارا کریڈٹ بھی امریکہ لے گیا۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ایک پاکستانی ریٹائرڈ آرمی افسر نے بھی امریکہ کو اطلاع دی ۔

اے ایس دلت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکہ نے اسامہ کا سراغ لگا کر اُس وقت کے پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو کہا ہم نے اسامہ کا سراغ لگادیا، آپ تعاون کریں گے یا یہ کام ہم خود ہی انجام دیں گے۔
ممبی حملوں کے بارے میں اسد درانی کا کہنا ہے کہ مجھے پتہ نہیں کہ حملوں کا ذمہ دار کون تھا لیکن ڈیوڈ ہیڈلے نے ایک آئی ایس آئی میجر کا نام لیا جس سے پاکستان کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔


کارگل جنگ کے بارے میں اسد درانی کہتے ہیں کہ کارگل ایک احمقانہ آپریشن تھا۔ مشرف کی دیرینہ خواہش تھی کہ 1971میں کھوئی ہوئی چوٹیوں پر دوبارہ قبضہ کیا جائے ۔ نوازشریف کو کارگل آپریشن کے بارے میں مکمل علم نہیں بلکہ سرسری سا علم تھا لیکن انہوں نے آپریشن کیلئے گرین سگنل دے دیا تھا۔
لال مسجد آپریشن کے بارے میں اسد درانی کہتے ہیں کہ لال مسجد آپریشن تباہ کن تھا، مسئلے کو بالکل غلط طریقے سے نمٹا گیا۔

آپریشن میں رینجرز نہیں اسپیشل فورسز کا استعمال کرنا چاہیئے تھا۔ اس سانحہ کے بعد پاکستان میں خود کش حملے شروع ہوگئے۔ اسد درانی کہتے ہیں کہ لال مسجد آپریشن کے بعد انہیں ایک ایس ایچ او ملا جس نے کہا یہ آپ لوگوں نے کیا کیا۔ یہ ایک ایس ایچ او کا کام تھا، لیکن آپ نے پوری فوج استعمال کی اور کام بگاڑ دیا۔
پاکستان میں گرفتار کیے گئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا سابق سربراہ اے ایس دلت کہتے ہیں کہ اگر کلبھوشن کا آپریشن را کا منصوبہ تھا تو یہ بُرا آپریشن تھا۔

اگر اُس کو بلوچستان یا چمن سے گرفتار کیا گیا تو وہ وہاں کیا کررہا تھا؟ یہ بات اے ایس دلت کی کافی وزن دار لگتی ہے اور کافی حد تک پاکستان کے حق میں جاتی ہے۔ لیکن اسد درانی صاحب نے یہاں بھی کوئی مناسب بات نہیں کی اور کہا کلبھوشن آخر کار بھارت واپس جائے گا، اچھا طریقہ یہ تھا کہ اُسکی اچھی قیمت وصول کی جاتی۔
آئی ایس آئی جس کے اسد درانی سربراہ رہ چکے ہیں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کا سیاسی جائزہ ہمیشہ محدود رہا ۔

یحیٰ خان کو ایجنسی نے 1970 میں کہاتھا کہ ایک ہنگ پارلیمنٹ آئے گی جس سے آپ کا اقتدار قائم رہے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسد درانی کا کہنا ہے انہوں نے بذات خود1990 میں کہا پیپلز پارٹی کو تھوڑی مشکل پیش آئے گی لیکن پیپلز پارٹی کا ان انتخابات میں تہس نہس ہو گیا۔
کتاب کو پڑھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اے ایس دلت نے کافی محتاط ہوکر بات کی اور سارا کچھ درانی صاحب سے اگلوادیا گیا۔

ہر ڈائیلاگ میں اے ایس دلت بہت کم بولے زیادہ باتیں درانی صاحب کی ہیں۔ مثلاً ایک جگہ پر اے ایس دلت ذکر کرتے ہیں کہ کئی لوگ اکھنڈ بھارت پر بھی یقین رکھتے ہیں اوریہ کہہ کر دلت وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن اسد درانی اکھنڈ بھارت کے خیال کی سختی سے نفی کرتے اور دو قومی نظریے کو اجاگر کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے یہاں بھی توقعات کے برعکس بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکھنڈ بھارت پر بات کرنے کو مائینڈ نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا ہم کنفیڈریشن کا سوچ سکتے ہیں پھر متحدہ بھارت پربھی کم سے کم بات کرسکتے ہیں۔
پوری کتاب میں شائد ہی درانی صاحب کی کوئی بات ہے جو پاکستان کے فیور میں جاتی ہے۔ لیکن بعض جگہوں پر اے ایس دلت کا بیان پاکستان کے حق میں جاتا ہے۔ مثلاً دلت ایک جگہ پر کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف را کی سب سے بڑی ناکامی یہ رہی ہے کہ وہ کبھی آئی ایس آئی کے کسی اہلکار کو اپنا ایجنٹ نہیں بنا سکے۔

وہ متعدد جگہوں پر آئی ایس آئی کی تعریف کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اسد درانی کو 28 مئی کو جی ایچ کیو طلب کیا گیااور کتاب کے مندرجات کی وضاحت پوچھی گئی۔ اسد درانی شائد فوجی حکام کو مطمئن نہیں کرسکے جس کے بعد ان کا نام نہ صرف ای سی ایل میں ڈلوادیاگیا بلکہ ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ مسٹر درانی کے خلاف تحقیقات کا نتیجہ جو بھی ہوگا لیکن کتاب پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب میں قومی مفاد کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور وہ باتیں تحریر کی گئیں جو ایک ذمہ دار شہری کے شایان شان نہیں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :