اسلامی ریاست ”سیاسی سترہ“ اورمتوقع الیکشن

بدھ 6 جون 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

پاکستان کا پورا نام”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے،اب سوال یہ ہے کہ پاکستان ایک ”لبرل “ ملک ہے کہ”اسلامی“ اور لبرل اسلامی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طرز حکمرانی ، الیکشن کا طریقہ کار ”پارلیمنٹ“ اور سینٹ کے اختیارات میں جو آپسی ٹکراوٴ ہے کیا اس سے ”مسائل“ کا پائیدار حل کتنی جلدی ممکن ہے؟ایسے ہی چند سوالات کے ساتھ آج کی یہ تحریر، آج کا کالم، آج کے الفاظ آپ کی نظر،قارئین محترم آپ کی توجہ لفظ”سترہ“ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں،اہل مذہب و مسلک کے نذدیک نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے آگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگرکوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزرجائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔

(جاری ہے)

” ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے“ رسول اللہ ﷺ”سترہ“ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا۔سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔

مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہﷺنے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنٰی نہیں فرمایا ہے ۔اسلامی پاکستان جمہوریہ پاکستان کی آئینی و قانونی پیچیدگیوں میں”سترہ“ کون ہے؟وہ کون سے ایسی چیز ہے جو قانونی عمل درآمد کے وقت ”عوام“ اور ”قانون “ کے درمیان”سترہ“ کا کردار ادا کرتی ہے۔

یعنی شہریوں کو ”ریاست“ کی طرف سے دئیے گئے ”حقوق“ اُن کو پورے کے پورے اور بھر وقت فراہم کرنے میں حائل”سترہ“عہد جہد میں”سیاسی شکل“ میں کیسا ہے؟آپ کے خیال میں” سیاست دان“ یا قانون نافذ کرنے والے ادارے،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے کتنے ادارے ہیں جس کی بظاہر کوئی پہچان یعنی ان کی مخصوص ”وردی“ نہیں ہے ۔

کیا کچھ ادارے اپنی مخصوص وردی نہ ہونے کا ”سیاسی“ فائدہ اٹھاتے ہیں،کیا ”سادہ“ لباس والی سرکار لوگوں کو ”بے لباس“ کرتی ہے ”سترہ“ اور ”سادہ لباس والی طاقت“ پر بات کرنے سے پہلے متوقع الیکشن پر کچھ بات ہو جائے،سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت میں وکیل درخواستگزار نے انکشاف کیا کہ” الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق میں تبدیلی کردی ہے“ پہلا ضابطہ اخلاق سپریم کورٹ کے حکم پر سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نے بنایا گیا تھا جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے نئے اور پرانے ضابطہ اخلاق کا جائزہ لیں گے تاہم الیکشن کو کسی صورت تاخیر کا شکار نہیں ہونے دیں گے”الیکشن کمیشن بے بس ہو جائے تو اور بات ہے“ کاغذات نامزدگی کے معاملے پر الیکشن میں تاخیرکا خدشہ تھا۔

آئندہ عام انتخابات میں تاخیر کو بھول جائیں. وکیل درخواستگزار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن خود کو” بے بس“ سمجھتا ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن موخر ہوں گے یہ ذہن سے نکال دیں۔ ڈی جی الیکشن کمیشن نے آگاہ کیا کہ پہلے دوہزار بارہ کے عدالتی فیصلے کے بعد انتخابی ضابطہ اخلاق بنایا گیا۔ الیکشن ایکٹ دوہزار سترہ کے بعد الیکشن کمیشن نے نیا ضابطہ اخلاق ترتیب دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے انتخابی ضابطہ اخلاق پر جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن انتخابی ضابطہ اخلاق پر”فورا“ جواب داخل کرے۔ سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور سردار ایاز صادق کی اپیلیں باضابطہ سماعت کے لئے منظور کر لیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ انتخابات 25 جولائی کو ہی ہوں گے، اگر الیکشن میں تاخیر ہوئی تو الیکشن کمیشن ذاتی طور پر ذمہ دار ہو گا۔

پارلیمنٹ نے قانون کے تحت الیکشن کمیشن سے کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کا اختیار واپس لے لیا۔ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے کے ذریعے الیکشن کمیشن کے اختیار میں براہ راست مداخلت کی ہے، جس پرعدالت نے کہا کہ بادی النظر میں ہائیکورٹ نے بنیادی اصولوں کو فراموش کر دیا۔ عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں تا خیر کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، انتخابات 25 جولائی کو ہی ہوں گے، اگر تاخیر ہوئی الیکشن کمیشن ذاتی طور پر ذمہ دار ہو گا، دوران سماعت چیف جسٹس نے سردار ایاز صادق کے وکیل شاہد حامد سے استفسار کیا کہ اپنی اپیل میں سپیکر کا لفظ کیوں لکھا ہے، سردار ایاز سپیکر کی حیثیت سے کس طرح متاثرہ فریق ہیں، چیف جسٹس نے سردار ایاز صادق کے وکیل کو اپیل میں موجود خامیاں دور کرنے کی ہدایت کی اور سردار ایاز صادق کی اپیل بھی باضابطہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت بننے والی کاغذات نامزدگی پر ہی الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے یکم جون کو کاغذات نامزدگی فارم میں ترامیم کالعدم قرار دے کر الیکشن کمشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو کاغذات نامزدگی کے فارم اے اور بی میں تمام خامیاں دور کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ نے ترمیم کرکے قرضہ جات اور نادہندگی کے جو خانے نکالے ہیں، وہ فارم میں موجود سمجھے جائیں گے۔

صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے تقاضے 39دوبارہ شامل کئے جائیں۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018کاترمیم شدہ شیڈول جاری کر دیا۔شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی 8جون تک جمع کرائے جائیں گے جبکہ امیدواروں کے ناموں کی فہرست بھی 8 جون کو شائع کی جائے گی ، باقی شیڈول میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، پولنگ 25جولائی کو ہی ہو گی۔

کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 14جون تک کی جائے گی۔ امیدوار ریٹرنگ افسران کے فیصلوں کے خلاف 19جون تک اپیلیں دائر کر سکیں گے جبکہ اپیلٹ ٹربیونل کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں 26جون تک نمٹائی جائیں گی ،امیدواروں کی حتمی فہرست 27جون کو شائع کی جائے گی جبکہ 28جولائی تک امیدوار اپنے نام واپس لے سکتے ہیں جبکہ 29جون کو امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کئے جائیں گے ، جبکہ پولنگ 25جولائی کو ہی ہو گی۔

الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 104کے تحت عام انتخابات 2018 میں جو سیاسی پارٹیاں حصہ لیں گی۔ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کیلئے اْمیدواروں کی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کے منتخب ریٹرننگ آفیسرزصوبائی الیکشن کمشنر کے پاس جمع کروائیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں (خواتین اور غیر مسلم) کیلئے بھی یہی پروگرام ہے۔ سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں (خواتین اور غیر مسلم) کیلئے اْمیدواروں کی ترجیحی فہرست جمع کرواسکتی ہیں۔ جبکہ اسکروٹنی کے مراحل کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی پارٹیاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کیلئے اْمیدواروں کی ترجیحی فہرست میں اضافی نام بھی دے سکتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :