عوامی خدمت اقتدارسے مشروط کیوں۔۔؟

پیر 4 جون 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

سیاست سیاست کے کھیل سے ہمارے بڑے بھی محفوظ نہیں رہے۔ممبر،چےئرمین اورایم این اے وایم پی اے کے انتخاب کے لئے جب بھی منڈی لگتی اوروں کی طرح ہمارے بڑے بھی منڈی کارخ ضرورکرتے۔ہمارے داداجی جوانتہائی غصیلے اورمزاج کے بڑے سخت تھے،اس دورمیں جب چھوٹے بڑوں سے بڑے نہیں ہواکرتے تھے۔آج توگھر،قوم اورقبیلے کابڑاوہ ہوتاہے جوسب سے چھوٹاہو یاجوزبان کاسب سے تیزاوردماغ کاسب سے بددماغ ہو لیکن اس زمانے میں ایسانہیں تھا اورنہ ہی قوم کے رہبرورہنماء بنانے یاچننے کیلئے اس طرح کے چھوٹے ضابطے اوراصول طے تھے بلکہ اس وقت توایک دن کابڑابھی نہ صرف اپنی قوم ،قبیلے اوربرادری کابلکہ گاؤں اورعلاقے کی تمام اقوام ،قبائل اوربرادریوں کابھی بڑاشمارہوتاتھا۔

آج کے بچے جوسچے کم اورمن کے کچے زیادہ ہیں یہ تونہ صرف دوسروں بلکہ اپنے بڑوں اوربزرگوں کوبھی برابھلاکہنے کوثواب کادرجہ دیتے ہیں لیکن اس زمانے میں اپنے سے ایک دن بھی کسی بڑے کوبرابھلاکہنے کوکفرسمجھاجاتاتھا۔

(جاری ہے)

گروہ بندی ،پارٹی بازی اورسیاسی مخالفت کے باوجودلوگ ایک دوسرے کے بارے میں ایک لفظ بھی غلط بولنے کے لئے تیارنہ ہوتے۔آج تولوگ ایک ایک منہ میں دودوزبانیں لئے پھرتے ہیں لیکن ان لوگوں کی زبان ایک اور فیصلہ اٹل ہواکرتاتھا۔

وہ ایک باراگرکہہ دیتے کہ سفیدہے توپھرسوال ہی پیدانہ ہوتاکہ وہ اسے کبھی کالاکہتے۔کمال درجے کے وہ سادہ اورشکل وصورت سے ان کادیہاتی پن ہروقت ٹپک رہاہوتا لیکن باتیں ان کی حقیقت سے اس قدرلبریزہوتیں کہ وقت آنے اورحقائق کے چشمے پھوٹنے پرپھراپنے آپ کوعقل کل سمجھنے والے بڑے بڑے شہری لوگ بھی سرپکڑکران کی حق گوئی اورسچائی بارے کئی کئی دن تک سوچنے پرمجبورہوجاتے۔

ایک بارالیکشن کے موقع پرپولنگ والے دن ہم بھی بناؤسنگھارکرکے پولنگ سٹیشن جانے کے لئے اپنے داداجی کے ساتھ چمٹ گئے۔داداجی مزاج کے واقعی بہت سخت تھے لیکن ہماری ضداورفرمائشوں کے سامنے وہ ہمیشہ ہتھیارڈال کربہت جلدہارمان لیتے سواس دن بھی ہماری فرمائش کے سامنے انہوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ہمیں ذرہ ذرہ یادپڑرہاہے کہ پولنگ سٹیشن جاتے ہوئے داداجی ایک بہت بڑے گروہ، قافلے ،جنبے یاگروپ کی قیادت کررہے تھے۔

ہماراآبائی پولنگ سٹیشن اس وقت سے بی ایچ یوجوزجو،،جبوہسپتال،، کے نام سے زیادہ معروف ومشہورہے میں قائم ہے ۔پولنگ سٹیشن جاتے ہوئے راستے میں چلتے چلتے داداجی نے کچھ باتیں کیں جن میں سے ایک بات آج بھی ہمیں اچھی طرح یادہے ۔داداجی نے سب کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جوامیدوارتمہیں یہ کہے کہ اگر اقتدارمیں آیاتویہ کرلوں گاوہ کرلوں گاایسے امیدوارپرکبھی اعتبارنہیں کرنا،عوام کی خدمت اورکچھ کرنے کے لئے اقتدارمیں آناکوئی فرض نہیں ،جولوگ اورامیدوارخدمت خلق کو اقتدارسے مشروط کرتے ہیں اصل میں وہ عوام کوبیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

آج کے سیاستدانوں اورمسلم لیگ ن،تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی ،متحدہ مجلس عمل ،اے این پی اورقومی وطن پارٹی سمیت اکثرسیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی جانب سے ملک اورقوم کے لئے کچھ کرنے کواقتداراورالیکشن میں کامیابی سے مشروط کرنے کے عمل اورسیاست کودیکھ کرہمیں داداجی کی پندرہ بیس سال پہلے کی ہوئی وہ تاریخی بات شدت سے یادآنے لگتی ہے۔ واقعی جولوگ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ الیکشن میں کامیاب یااقتدارمیں آکریہ کرلیں گے وہ کرلیں گے وہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں کرتے۔

زندگی کااکثرحصہ اقتدارکی رنگینیوں میں گزارنے والے ایک سیاستدان سے نہ صرف ہماری خاص گپ شپ ہے بلکہ گہراتعلق بھی ہے۔کئی سال پہلے ہم نے ان سے کہاکہ حضرت اس روڈکی حالت بہت خراب ہے اس کوکچھ کرلوکہنے لگے اس بارالیکشن جیتنے دواس طرح کے سارے سڑکوں کوموٹروے بنادوں گا،اس کے بعدوہ پانچ چھ بارایم این اے اورایم پی اے بنے لیکن اس روڈکی حالت آج تک پھربھی نہیں بدلی ۔

بات داداجی والی ہی ہے جولوگ خدمت کواقتدارسے مشروط کرتے ہیں وہ اصل میں خدمت خلق سے راہ فراراختیارکرتے ہیں ورنہ غریبوں ،بے سہارااورمجبوروں کے بہتے آنسوپونجھنے اورزخموں پرمرہم رکھنے کے لئے اقتدارشقتدارکی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔لوگوں کی دعائیں لینے کے لئے اگراقتدارکی ضرورت ہوتی تومیرے آبائی ضلع بٹگرام کے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ آج مصباح اللہ بابر کوجھولیاں بھربھرکردعائیں کبھی نہ دیتے۔

ہم نے تواسی ضلع بٹگرام میں مولاناعطاء محمددیشانی کوبھی اقتدارکے بغیرعوام کی خدمت کے لئے بڑے بڑے بتوں سے لڑتے اورٹکڑمارتے ہوئے دیکھا۔بٹگرام کوالوداع کہتے ہوئے ہمیں دس بارہ سال ہوگئے ہیں اب بہت مشکل سے سال بعدکہیں ایک دوچکرلگانے کاموقع ملتاہے لیکن اس کے باوجوداپنے اس آبائی ضلع کے حالات اورواقعات سے ہم ذرہ بھی غافل یابے خبرنہیں ۔

بجلی کی مستقل بندش یاچوبیس میں سے 23گھنٹے لوڈشیڈنگ کاعذاب ہمارے اس ضلع اوراس کے بدقسمت عوام کوجہیزیاورثے میں ملا۔ہم جب گاؤں میں تھے اس وقت بھی بجلی بجلی کی صدائیں ہرطرف گونجتی تھی ،چھوٹاہوتایابڑاہرکوئی آئی اورگئی کے وردمیں مشغول رہتا۔بجلی کے اس مسئلے نے کاروبارتباہ اورنظام زندگی مفلوج کرنے کے ساتھ لوگوں کاچین اورسکون بھی غارت کردیاتھا۔

اس مسئلے کے حل کیلئے احتجاج اورمظاہروں کے ساتھ لوگ ایم این اے،ایم پی اے سمیت بڑے بڑے افسروں،خانوں اورنوابوں کے پاس گئے لیکن کسی نے اقتدار،کسی نے الیکشن میں کامیابی اورکسی نے ناممکن کہہ کرکہانی ختم کرنے کی کوشش کی ۔صاحب اقتدارلوگوں نے بھی اس مسئلے کوحل کرنے کی بجائے ہاتھ پیچھے کھینچے لیکن سابق امیدوارقومی اسمبلی مصباح اللہ بابرنے بغیرکسی لالچ اوراقتدارکے وہ سنگین اوراہم مسئلہ جوممبران قومی وصوبائی اسمبلی سے بھی حل نہیں ہوااپنی کوششوں سے کچھ دنوں میں حل کرکے یہ ثابت کردیاکہ خدمت خلق اقتدار،ممبری اورکسی کرسی کاذرہ بھی محتاج نہیں ۔

بجلی کاوہ مسئلہ جوبٹگرام کے سیاستدان ،خان اورنواب کئی سالوں سے ایم این اے اورایم پی اے منتخب ہونے کے بعدبھی حل نہ کرسکے وہ اکیلے ایک مصباح اللہ بابرنے بغیرکسی ممبری،چےئرمینی،اقتداراورکرسی کے حل کردیا۔عوام کی خدمت واقعی کسی چیزکامحتاج نہیں ۔بس صرف دل میں مصباح اللہ بابراورمولاناعطاء محمددیشانی کی طرح عوامی خدمت کی تڑپ ہونی چاہئے۔

غریب عوام کی خدمت کے لئے جس نے بھی اپنادامن پھیلایاہم نے ان کے لئے پھراپنے الفاظ پھیلائے۔بٹگرام سے ترک سکونت کے باوجودوہاں ہماراحلقہ احباب خاصاوسیع ہے۔قارئین کی صورت میںآ ج بھی وہاں ہمارے ہزاروں مریدہیں ۔قلم کوبے لگام چھوڑنے کی وجہ سے وہاں کے سیاسیوں سے ہمارے تعلقات آج بھی اچھے ہیں لیکن ان مضبوط اوراچھے تعلقات کے باوجودہم بٹگرام کے ان سیاسیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ۔

ہمارے ضلع کے بے زبان باسیوں نے جب بھی ان سیاسیوں کے سامنے مسائل کارونارویایااندھیروں کاذکرکیاتوانہوں نے مصباح اللہ بابراورعطاء محمددیشانی کی طرح اللہ پرتوکل کرنے کی بجائے ،،اقتدار،،میں آنے یاالیکشن میں کامیاب ہونے کی شرط ہرسائل کوگلدستے کے طورپرپیش کی ۔دارالعلوم دیوبندسے فارغ التحصیل عظیم والدکے غریب دوست بیٹے مصباح اللہ بابرنے روایتی سیاستدانوں کی طرح عوامی مسائل حل کرنے کیلئے کوئی شرط نہیں رکھی اوراسی نیک نیتی کی وجہ سے اللہ نے انہیں بغیرکسی اقتدار،کرسی اورمنصب کے ایک بہت بڑے مسئلے کوحل کرنے کی توفیق دی ۔

برسوں کے اندھیروں سے نکلنے والے بٹگرام کے لوگ آج ہاتھ اٹھااٹھاکرانہیں دعادے رہے ہیں ۔ملک میں الیکشن کے لئے ایک بارپھرمنڈیاں لگ چکی ہے ۔روایتی سیاستدان عوام کوبیوقوف بنانے کے لئے ایک بارپھروعدوں اوروعیدوں کے ساتھ میدان میں اترچکے ہیں لیکن سادہ لوح عوام ایک بات یادرکھیں کہ جولوگ عوامی خدمت کواقتداراورکرسی سے مشروط کرکے کل پرٹالنے کی کوشش کررہے ہیں یہی لوگ عوام اورترقی کے اصل دشمن ہیں کیونکہ مصباح اللہ بابرنے ثابت کردیاکہ خدمت کے لئے اقتداراورکرسی کوئی معنی نہیں رکھتے اس لئے عوام سوچ سمجھ کراپنے لئے نمائندوں اورخدمت گاروں کاانتخاب کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :