لمبے روزوں پر سویڈش لوگوں کی حیرت

ہفتہ 2 جون 2018

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

ہمارے سویڈش دوست حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ آپ بیس گھنٹے کا اتنا لمبا روزہ کیسے رکھتے ہیں؟ کھانا نہ کھانے کی حد تک تو وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے لیکن آپ لوگ پانی کے بغیر کیسے گزارا کرتے ہیں ا ور وہ بھی جب ان دنوں سویڈن میں درجہ حرارت تیس ڈگری کو چھو رہا ہے۔ سویڈن میں جب ایسا درجہ حرارت ہو تو عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ بار بار پانی پئیں اور اگر باہر نکلیں تو ایک بوتل پانی اپنے ساتھ رکھیں۔

ان حالات میں ہمارا بیس گھنٹے کا روزہ اہل یورپ کو وطیرہ حیرت میں کیوں نہ ڈالے۔ گفتگو میں شریک ایک نارویجین ساتھی پوچھنے لگا کہ اس قدر طویل روزے سے کیا صحت متاثر نہیں ہوتی؟ آپ لوگ بھوک اور پیاس کیسے برداشت کرتے ہیں؟ میں نے جواب میں کہا کہ جدید طبی تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جب صحت مند انسان جب روزے رکھتا ہے تو اس کے جسم پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جسم سے فاسد مادے خارج ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

جسم انسانی میں اتنا گلوکوز اور چربی ہوتی ہے جو فاقے کی حالت میں توانائی مہیا کرتی ہے اور اس سے کلیسٹرول بھی کم ہوتا ہے جو ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ ہمارے جگر، گردوں اور نظام انہضام میں موجود فاسد اور زہریلے مادے جسم سے خارج ہوتے ہیں جس سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں تک بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا تعلق ہے ایک تو روحانی پہلو ہے اور دوسرا سائنسی پہلو کہ ہمارے دماغ میں بھوک کے مرکز کو علم ہوتا ہے کہ ہم نے غروب آفتاب سے قبل کچھ بھی کھانا پینا نہیں اس لیے وہ بھوک کا سگنل نہیں بھیجتا اور اس طرح ایک روزہ دار کو بھوک اور پیاس اس شدت سے محسوس نہیں ہوتی جو عام دنوں میں ہوتی ہے۔

سویڈش دوستوں سے کہا کہ ہم آپ کے سامنے ہی ہیں دیکھ دیں ہم ہر سال روزے رکھتے ہیں لیکن اس وجہ سے صحت کے کسی بھی عارضہ کا شکار نہیں۔ سویڈش لوگ رمضان اور ہماری دیگر مذہبی فرائض کا بہت احترام کرتے ہیں بلکہ کئی کاروباری ادارے رمضان میں خصوصی رعائیت دیتے ہیں۔ رمضان اب سویڈش معاشرہ کی ایک نئی روایت بن گیا ہے۔ حال ہی میں سویڈن کی تین مساجد کو لوڈ اسپیکر پراذان دینے کی اجازت دی گئی ہے۔


سویڈش ددستوں کا یہ بھی سوال تھا کہ کیا روزے سب کو رکھنا لازم ہیں اور جن ممالک میں شدید گرمی میں مزدور کام کررہے ہوتے ہیں یا پھر اسکینڈے نیویا کے شمال میں جہاں روزے کادورانیہ بائیس گھنٹے تک ہے وہ کیسے روزے رکھ سکتے ہیں۔ کیا وہ لوگ مکہ یا کسی قریبی اسلامی ملک کے اوقات کے مطابق روزے رکھ سکتے ہیں؟ انہیں بتایا کہ قرآن حکیم نے جہاں روزے فرض کرنے کا حکم دیا وہاں ان لوگوں کو رخصت بھی دی ہے جن کے لیے یہ بہت مشکل اور ممکن نہ ہو۔

مریض، مسافر ، حاملہ خواتین اور بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے یہ سہولت ہے کہ وہ قضا کرسکتے ہیں اورسال میں جب ان کے لیے ممکن ہو روزے رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے لوگ جن کے لیے روزہ رکھنا بے حد دشوار ہو وہ بھی قضا کرسکتے ہیں جبکہ ایسے مریض جو سال میں کبھی بھی روزے نہیں رکھ سکتے وہ اپنی استطاعت کے مطابق فدیہ دیتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بائیس گھنٹے کے روزہ کی بجائے مکہ کے وقت کے مطابق سحری اور افطاری کرلی جائے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ قرآن حکیم نے سورہ بقرہ کی آیت 187میں بالکل واضح بتا دیا ہے کہ روزہ صبح صادق سے رات تک ہے۔

اب اس قانون میں کوئی ایک مفتی یا عالم تو کیا بلکہ تمام مسلمان سب مل کر بھی تبدیلی نہیں لا سکتے اور یورپی علماء کونسل نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے۔
محفل میں موجود ایک اور سویڈش دوست نے پوچھا کہ روزے فرض کرنے کا مقصد کیا ہے؟ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزے رکھنے سے تم میں قوانین خداوندی کے لیے پختگی پیدا ہو جائے اور تمہاری ایسی تربیت ہوجائے کہ تم غلط راہوں پر چلنے کے نقصانات سے محفوظ ہو جاؤ گے۔

قران حکیم کے مطابق صوم کا بنیادی معنی اپنے آپ کو کسی کام سے یا کسی بات سے روک دینا، اپنے آپ میں ضبط پیدا کرنا ہے ۔ اب یہی تربیت ایک روزہ دار کو سال بھر کام آئے گی اور وہ برائیوں سے دور رہے گا جس سے اس کی شخصیت اور کردار کی تعمیر ہوگی۔ جب پوارا معاشرہ اس تربیت سے ہم آہنگ ہو گا تو وہ نظام خداوندی کے قیام کے لیے جدوجہد کریں گے۔ یہ ایک طرح سے سالانہ تربیتی پروگرام ہے ۔

قارئین یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے صوم کو صرف دن بھر بھوکا پیاسا رہنے اور قران کو ثواب کی خاطر بغیر سمجھے صرف پڑھنے سننے تک محدود کر دیا ہے حالانکہ قرآن بار بار غوروفکر کے ساتھ مطالعہ پر زور دیتا ہے۔ آئیے اس رمضان میں عہدکریں کہ روزے کے اصل مقصد پر غور کرتے ہوئے سارا سال اس پر عمل کریں گے۔ جھوٹ، حسد، بغض، غیبت، چغلی، منافقت، الزام تراشی، سازشی طرز عمل، مذہبی منافرت ،بہتان ترازی اور دوسری اخلاقی برائیوں سے اپنا دامن کر رکھیں اور یہ رمضان کا یہ لازمی امر ہونا چاہئے ۔

ہمیں اس حدیث مبارکہ پر غور کرنا چاہیے کہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کئی روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے ہیں مگر ان کوسوائے بیداری اور بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اب ذکرایک کتاب کا۔ نقاش پاکستان کے بارے میں ایک ضخیم کتاب ”سوانح چوہدری رحمت علی “ جس کے مصنف معروف تاریخ دان، مصنف اور محقق جناب کے۔

کے۔ عزیز ہیں۔یہ کتاب چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ لاہور کے محترم چوہدری گلزار محمد نے بہت محبت سے بجھوائی ہے۔ چوہدری رحمت علی کی زندگی اور حصول پاکستان کے لیے ان کی جدوجہد پر یہ ایک مستند کتاب ہے اور جو لوگ ان کے حوالے سے غلط فہمیوں اور انتشار کا شکار ہیں انہیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :