جاپان میں ماہِ رمضان اور اسلام

منگل 29 مئی 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

جاپان میں مقیم مسلمان برادری روایتی مذہبی جوش و خروش سے رمضان المبارک مناتی ہے۔ یہاں رمضان کا مہینہ دیگر ملکوں سے اس لحاظ سے منفرد ہوتا ہے کہ یہاں اس کی حیثیت ایک تہوار کی سی بھی ہے۔ ملک کی تمام مساجد میں افطار کا اہتمام ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ مسجد ہی میں افطار کو ترجیح دیتے ہیں، جو کہ یہاں مقیم مسلمان برادری کے باہمی میل جول اور تعلق کا اہم ذریعہ بھی ہے۔

جاپان کے تقریباً تمام اہم شہروں میں مساجد موجود ہیں اور جن یونیورسٹیوں یا کالجز میں مسلمان طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہاں بھی مسجد یا مصلیٰ کا انتظام ضرور موجود ہے۔ رمضان کی نسبت سے پاکستان اور دیگر کئی ممالک سے حفّاظ کرام تراویح پڑھانے کے لیے رمضان میں یہاں آئے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر مساجد کا انتظام و انصرام پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے بلکہ نصف سے زیادہ مساجد تو تعمیر بھی پاکستانیوں نے ہی کی ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں کی سب سے قدیم مسجد کو بے شہر کی جامع مسجد ہے جسے 1935 میں متحدہ ہندوستان سے آئے ہوئے تاجروں نے تعمیر کیا تھا۔ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ٹوکیو میں واقع تُرک مسجد ہے جس کا انتظام ترکی کی حکومت چلاتی ہے۔ یہ مسجد بھی خاصی قدیم ہے۔ مسلمان ممالک میں سے روایتی طور پر ترکی کے ساتھ جاپان کے تعلقات سب سے زیادہ مضبوط رہے ہیں۔ جنگ عظیم اول میں دونوں ممالک حلیف بھی تھے اور جغرافیائی حوالے سے ان کی شراکت داری کی وجہ دونوں کا مشترکہ دشمن روس رہا ہے۔

یاد رہے کہ جاپان اور ترکی نے روس کے خلاف کئی جنگیں لڑی ہیں اور جاپان کے چار جزیرے اب بھی روس کے قبضے میں ہیں۔ جاپان میں سب سے پہلے مقامی مسلمان بھی وہ لوگ تھے جو کہ ترکی میں جاپانی سفارتی عملے میں شامل تھے۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ان لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ٹوکیو کی ترک مسجد کی زمین بھی جاپانی شہنشاہ نے تحفے میں ترکی کو دی تھی۔

ایک دلچسپ تحقیق یہ بھی سامنے آئی ہے کہ یہاں پہلی مسجد 1905 میں روسی جنگی قیدیوں نے قید کے دوران تعمیر کی تھی یا ان سے تعمیر کروائی گئی تھی۔ 1905 میں روس اور جاپان کی جنگ کے دوران تیس ہزار کے قریب روسی فوجی جنگی قیدی بنا لیے گئے تھے جن میں سے ایک ہزار کے قریب مسلمان تھے۔ یہ لوگ ایک سال کے قریب جاپان میں قید رہے اوربعض جنگی قیدی دوران قید ہی وفات پا گئے۔

جن کی قبریں اب بھی اوساکا شہر (Osaka) کے نواح میں موجود ہیں جن کے کتبوں پر قرآنی آیات اور ہلال کا نشان انہیں مسلمان ثابت کرتا ہے۔ ان قبروں کے پاس ہی ایک یادگاری مینار بھی موجود ہے جس پر عیسائی اور یہودی دعاؤں کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات اور دعائیں بھی کنداں ہیں۔ مذکورہ مسجد کے وجود کا ثبوت جاپانی شہنشاہ کا 1905 میں روسی بادشاہ زار کو لکھا گیا وہ خط بھی ہے جس میں زارِ روس کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ جاپان کی قید میں موجود اٹھائیس ہزار فوجیوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور عیسائی و مسلمان و یہودی قیدیوں کے لیے عبادت خانے تعمیر کیے گئے ہیں اور وہ اپنی عبادت گاہوں میں کامل آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں، اسی سلسلے میں روس کی نیم خود مختار ریاست تاتارستان کے سابق گورنر یاشن سانح نے ایک مضمون بھی تحریر کیا ہے جس میں جاپان کی اس پہلی مسجد کے متعلق تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے اب یہ مسجد معدوم ہو چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :