عام انتخابات ”قرضوں سے پاک پاکستان“ ایک تجویز

اتوار 27 مئی 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

انتہائی اہم خبر کے مطابق 30 فیصد اضافے کے ساتھ ایک سال میں 262 ارب 80 کروڑ کے نئے” قرض“ سے قرضوں کا مجموعی حجم تاریخ کی بلند ترین سطح 15 کھرب 13 ارب پر پہنچ گیا۔ پی آئی اے سب سے بڑا مقروض ادارہ ہے جس نے ایک سال کے دوران 39 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا جس سے اس کا قرض148 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ دوسرے نمبر پر واپڈا کا ہے جس نے 38 ارب کا مزید قرض لیا اس کے قرض کا حجم 124 ارب روپے ہے۔

تیسرا نمبر سٹیل ملز کا ہے جس کے قرض کا حجم 43 ارب 20 کروڑ ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی حوالے سے اعداد و شمار فراہم کرنے والی پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی ”میڈیا ڈور“ کے مطابق،انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ سارا ”قرض“ وہ عام و غریب شہری ”اتاریں“ کے جنہوں نے کبھی محلے کی دکان سے”ادھار“ نہیں لیا صرف اس وجہ سے کہ ”روکھی سوکھی کھا کے ٹھنڈا پانی پی“تین وقت کی روٹی کو ترستی عوام اور بجلی و پانی کی عدم دستیابی پر نوحہ کناں”ووٹرز“ کی جیب سے زبردستی نکالے جانے والے غیر قانونی ”ٹیکسوں“ سے ادا ہوگا یہ”قرض“ رپورٹ سے کم از کم قرضوں کے اجرا کے حوالے سے حکومت کی گڈگورننس کے دعووٴں کی قلعی کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ سرکاری ادارے اور کارپوریشنیں کس طرح بے دردی کے ساتھ قرضوں پہ قرضے حاصل کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

بدقسمتی سے بھاری قرضے حاصل کرنے والے سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں میں وہ ادارے سرفہرست ہیں جو مسلسل خسارے میں جا ر ہے ہیں۔ جس کو بھرنے کے لئے اوران اداروں کو قرضے فراہم کرنے کے لئے خود حکومت کو بیرونی قرضے حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ ”حکومت یہ قرض اپنے خزانے سے ادا کرتی ہے جو پاکستان کو بمع سود ادا کرنے ہوتے ہیں“ جس کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔

اس مسئلے کا بہترین حل یہی ہے کہ جو ادارے اور کارپوریشنیں قرض حاصل کرتے ہیں وہ اس کی واپسی اور ادائیگی کا انتظام بھی خود کریں تاکہ ملکی خزانے پر بوجھ کم ہو سکے۔ یا پھر ان تمام اداروں ا ور کارپوریشنوں میں چیک اینڈ کنٹرول کا نظام سختی سے نافذ کر کے ان کے غیر ضروری اخراجات پر قابو پایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر مجبورًا یہ ادارے نجی شعبوں کے حوالے کرنا پڑیں گے۔

پاکستان کا سیاسی ماحول ”پنامہ“ کے بعد سے مسلسل ”گرم“ چل رہا ہے،اب الیکشن کا دور دورہ ہے جس سے ہر پاکستانی پہلے تو”نگران وزیر اعظم“ کا نام سننے کے لئے بے چین ہے جو ”دو ہفتوں“ سے فائنل نہیں ہو رہا تاہم آج جمعہ المبارک 25 مئی یا 26مئی بروز ہفتہ نام کے فیصد سامنے آنے کا امکان ہے،ذرائع کے مطابق ایک درجن سے زائد ناموں میں سے ”تین“ کو سامنے رکھا گیا تھا تاہم ”تینوں“ پر 62/63 کی ”ضرب“ لگنے کا مبینہ طور پر ”خطرہ“ ہے اس لئے حکومت”سوچ سمجھ“ سے کام کرنا چاہتی ہے عین ممکن ہے کہ کسی”چوتھے“ کا نام سامنے آجائے۔

جہاں قرضوں کی بات ہو رہی تھی وہیں پاکستان کو ایک اور بھاری و آئینی ذمہ داری کے لئے ”کافی“ پیسوں کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018 پر 20 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کا ابتدائی تخمینہ لگا تے ہوئے کہا کہ بیلٹ پیپرز کے کاغذ اور چھپائی پر اڑھائی ارب سے زائد، سیکیورٹی کے لیے ایک ارب اور پولنگ مٹریل پر ایک ارب سے زائد، انتخابی عملے کو معاوضے کی مد میں 6 سے 7 ارب، ٹرانسپورٹیشن کی مد میں ایک ارب سے زائد اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔

انتخابی عملے کو معاوضے کی مد میں 6 سے 7 ارب کے اخراجات کا تخمینہ ہے ٹرانسپورٹیشن کی مد میں ایک ارب سے زائد اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔الیکشن پر اٹھنے والے ان اخراجات کیلئے ایک ”عوامی تجویز“ ہے،تجویز یہ ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والے تمام افراد سے جب وہ اپنے کاغذات نامزدگی ”وصول“ کرتے وقت الیکشن کمیشن کی طے شدہ ”فیس“ کے ساتھ صرف” ایک ہزار روپے“ اور ایک ہزار فی امیدوار ” نامزدپارٹی “ بطور”قرضوں سے پاک پاکستان“ وصول کیا جائے۔

ایک اندازے کے مطابق ایکقومی حلقے سے 25 سے زائد افراد کی طرف سے الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی وصول کئے جانے متوقع ہیں جبکہ صوبائی حلقوں میں الیکشن لڑنے والے افراد کی تعداد اس ے زیادہ متوقع ہے۔الیکشن کمیشن سے فارم کی وصولی کے امیدوار سے ایک جمع ایک (دوہزار) کی وصولی لازمی جبکہ امیدوار اپنی مرضی سے اگر اس ”مد“ میں کوئی اضافی رقم دینا چاہتا ہے تو اس کو” ایپری سیٴشن سرٹیفیکیٹ“ کا حق دار قرار دیا جائے۔

پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈور کے مطابق الیکشن کمیشن نے اضافی بیلٹ پیپرز ”نہ چھاپنے“ کا فیصلہ کیا ہے۔ کسی پولنگ سٹیشن پر 1201 سے 1299 ووٹرز ہوئے تو 1300 بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن صرف 3 سرکاری پرنٹنگ پریسوں سے بیلٹ پیپرز چھپوائے گا۔ خیبر پی کے، فاٹا اور اسلام آباد کے حلقوں کے بیلٹ پیپرز پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے بیلٹ پیپرز نیشنل سیکورٹی پرنٹنگ پریس جبکہ پنجاب کے باقی ماندہ حلقوں کے بیلٹ پیپرز پوسٹل پرنٹنگ پریس چھپوائیں جائیں گے۔

الیکشن کمیشن عام انتخابات میں مجموعی طور پر 21 کروڑ سے زائد بیلٹ پیپرز چھاپے گا۔اس کے علاوہ صوبائی الیکشن کمشنرز نے پولنگ سٹیشنز اور پولنگ بوتھ کا ڈیٹا الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا۔ ملک بھرمیں 85 ہزار 252 پولنگ سٹیشنز جبکہ 2 لاکھ 41 ہزار 132 پولنگ بوتھ قائم کئے جائیں گے، اسلام آباد سمیت پنجاب میں 48 ہزار 610 پولنگ اسٹیشنز اور ایک لاکھ 31 ہزار 26 پولنگ بوتھ ہوں گے۔

فاٹا اور خیبر پختونخوا میں 14 ہزار 522 پولنگ سٹیشنز جبکہ 42 ہزار 871 پولنگ بوتھ ہوں گے۔ سندھ میں 17 ہزار 627 پولنگ اسٹیشنز، 55 ہزار 822 پولنگ بوتھ قائم، بلوچستان میں 4 ہزار 493 پولنگ سٹیشنز اور 11 ہزار 413 پولنگ بوتھ قائم کئے جائیں گے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت نگران حکومتوں کے اختیارات کی حدود متعین کر دی گئیں۔ الیکشن ایکٹ کے تحت نگران حکومت روز مرہ کے حکومتی امور چلائے گی۔

نگران حکومت انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی مدد کرے گی۔ نگران حکومت آئندہ حکومت کے اختیارات پر فیصلے نہیں کر سکتی، نگران حکومت عوامی مفاد کے خلاف معاہدے نہیں کر سکتی۔ نگران حکومت عالمی معاہدے یا مذاکرات نہیں کر سکتی۔ نگران حکومت اہم تقرریاں اور ترقیاں نہیں کر سکتی۔میڈیا ڈور کی” موبو الیکشن ٹیم“ کے مطابق الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات میں پہلی بارجدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے اور تاریخ میں پہلی بار آراوز کو لیپ ٹاپ دیئے جائینگے۔

اسی طرح ریٹرننگ افسروں کو دو دو ڈیٹا انٹری آپریٹرز بھی دے دیئے گئے ہیں جو پولنگ سٹیشن سے موصول رزلٹ تیار کرینگے۔ پریذائیڈنگ افسران پولنگ سٹیشن سے ہی رزلٹ کی تصاویر ریٹرننگ افسروں کو بھجوائیں گے اور ریٹرننگ افسر رات 2 بجے تک رزلٹ الیکشن کمیشن کو بھجوانے کے پابند ہونگے جبکہ رزلٹ میں تاخیر کی ریٹرننگ افسر کو تحریری وجوہات دینا ہونگی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی سمری میں بتایا گیا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی تعیناتی ماتحت عدلیہ کے جوڈیشل افسران سے کی جائیگی جس کیلئے ہائیکورٹوں کے رجسٹرار حضرات سے ڈسٹرکٹ و سیشن ججوں اور سول ججوں کی فہرستیں مانگی جاچکی ہیں۔ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن پنجاب نے بھی الیکشن 2018ء کیلئے پنجاب بھر میں پولنگ سکیموں کو حتمی شکل دے دی ہے۔

ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے جرمنی سے بیلٹ پیپر واٹرمارک منگوالئے ہیں۔ اس سلسلہ میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن کمیشن کے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کمیٹی کے روبرو پیش ہونیوالے الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری ظفراقبال کو باور کرایا ہے کہ 2013ء کے انتخابات پر آج بھی سوالیہ نشان موجود ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں سیاہی اور بیلٹ پیپرز کے مسائل نہ ہوں۔ الیکشن بہرصورت شفاف ہونے چاہئیں اور جو غلطیاں پہلے ہوئی ہیں، وہ دوبارہ سرزد نہیں ہونی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :