”مبینہ دو نمبری“ یو این ڈی پی اورتعریفی سرٹیفکیٹ

بدھ 23 مئی 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

عالمی شہرت یافتہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام برائے پاکستان ”یو این ڈی پی“ کی پاکستان میں مبینہ طور پر”دونمبری“ پکڑی گئی ہے جس کی اعلیٰ سطح پر انکوائری جارہ ہے،تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق”یو این ڈی پی“ کے متعددملازمین کا” پاکستان میں ورک ویزا کے بغیر کام کرنے کا انکشاف ہوا ہے“امریکی ادارے کے حوالے سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ”یو این ڈی پی“ کے ملازمین ”بغیر ویزا“الیکشن کی” نگرانی“ کرتے رہے،وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمین نے آفیشل ورک ویزا نہ ہونے کے باوجود الیکشن میں نگرانی کے امور انجام دیئے ،یہ ملازمین پاکستان کیسے آئے ،تحقیقات جاری ہے۔

ادھر پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی ”یو این ڈی پی“ کو مہنگی پڑ گئی ہے،گزشتہ روزاقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ڈی پی کی پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کی متنازعہ اور جانب دارانہ رپورٹ کے ذریعے صوبوں کی عوام کو آپس میں لڑانے کیلئے استعمال کرنے کا انتہائی گھناوٴنا انکشاف ہوا ہے،جس سے ایک بات تو ”واضح“ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اپنے ”کارناموں“ کے ستائے ہوئے عوام کو”پنجاب ہمارا ہے“ کا پیغام دے کر ہر قیمت پر ”اقتدار“ میں آنا چاہتی ہے تاکہ مبینہ کمیشن زدہ منصوبہ جات کی تکمیل کی جا سکے۔

(جاری ہے)

سینئر سیاست دانوں کا ”ماننا“ ہے کہ پنجاب میں بھی ن لیگ کی کارکردگی”دورانیہ“ کے فارمولا کے تحت انتہائی مایوس کن رہی ہے،یعنی 18 سال پنجاب پر حکمرانی کرنے والی جماعت جس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کا صدر یا سربراہ اعلیٰ عدالت کی طرف سے ”صاف شفاف“ ٹرائل میں تا حیات نا اہل ہو چکا ہے نے گزشتہ دو دہائیوں میں وہ اہداف حاصل نہیں کئے جس کا اُس کے ”منشور“ میں ذکر ہے بلکہ اس سے ”ہٹ“ کے صرف”لوہا“ کا استعمال ہر منصوبہ میں یقینی بنایا گیا ہے، شائع ہونے والی رپورٹ جس کو مبینہ طور پر”انتہائی متنازعہ“ قرار دیا جا چکا ہے کے مطابقپنجاب میں عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے میگا پراجیکٹس کی پالیسی کارگر ثابت ہوئی ، عام انتخابات قریب آتے ہی پنجاب کا ترقیاتی تصور عوامی مباحثوں کا محور بن چکی ہے ، عام سیاسی بحثوں سے قطع نظر پنجاب میں ترقی سے حکومتی متعلق تصورات بہت واضح ہیں، پنجاب میں بہت بڑا انفراسٹرکچر ، سڑکیں ، انڈر پاسز ، اوورہیڈبرج ، بائی پاسز ، پاور سٹیشن،میٹروبس سسٹم ، اورنج ٹرین اوردیگر ذرائع مواصلات کی کثرت اس کی پہچان بن چکی ہے ،سماجی ترقی کے شعبوں میں بھی بڑے ہسپتالوں اور نئی یونیورسٹیوں کی تعمیر پر توجہ دی گئی ،ویسٹ مینجمنٹ اوراسی نوع دیگر منصوبوں کیلئے خودمختار کمپنیاں بھی قائم کی گئی ہیں اور پنجاب میں ترقی کے تصورات عملی شکل میں موجود ہیں ، ترقی کے تصورات کو عملی صورت میں ڈھال دیاگیاہے جبکہ اس کے برعکس ”خیبرپی کے“ میں ان تصورات کا خاکہ بنا گیا اور حکمران پارٹی کی توجہ ترقی کے محض تصورات تک محدود رہی ،خیبرپی کیمیں خدمات کی فراہمی، فروغ تعلیم کے طریقہ کار کی تبدیلی اورصحت سہولتوں کی رسائی کی کوششوں تک محدود رہی ” خیبر پی کے میں ترقی نہیں بلکہ بہتر گورننس کو ہی مقصد بنایاگیا“ اور خیبرپی کے میں محض انسانی ترقی کی ضرورت پر زوردیاگیاہے ،خیبر پی کے میں تبدیلی کا ”بینڈ بجانے والو ں نے انسانی ترقی کے معاملے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی “پاکستان بھر میں اعلی انسانی ترقی کے لحاظ سے صرف چھ اضلاع کو رینکنگ میں شامل کیاگیاہے جن میں سے چار اضلاع پنجاب میں شامل ہیں ، قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس میں خیبر پی کے کا کوئی ضلع شامل نہیں ،اگلی کیٹگری میں ہائی میڈیم ہیومن ڈویلپمنٹ ڈسٹرکٹ کو شامل کیاگیاہے جس میں پنجاب کے 19 اضلاع کے مقابلے میں خیبرپی کے کے صرف چار اضلاع شامل ہیں ، پاکستان کا کوئی صوبہ ہائی ہیومن ڈویلپمنٹ کی رینکنگ میں شمار نہیں کیاجاسکا ،تاہم پنجاب ہائی میڈیم ہیومن ڈویلپمنٹ صوبوں کی رینکنگ میں محض ایک پوائنٹ کے فاصلے پر ہے اور خیبر پی کے کا صوبہ میڈیم ہیومن ڈویلپمنٹ کی رینکنگ میں بھی نچلے درجے پر ہے ،انسانی ترقی کے معیار کے دو اہم اجزا تعلیم اورصحت میں بھی پنجاب لیڈنگ پوزیشن میں ہے ، ہیلتھ کے شعبے میں انسانی قوت مدافعت میں بہتری کے لحاظ پنجاب 89فیصد اور خیبر پی کے 78 فیصد ہے ، پنجاب میں صحت کی تسلی بخش سہولتوں کا تناسب 78 فیصد اور خیبر پی کے میں 73 فیصد ہے - دعووٴں اور تصورات کے برعکس خیبر پی کے کے شعبہ تعلیم میں مایوسیاں ہی نظر آتی ہیں ، پنجاب میں سکولنگ کا تناسب 10.1جبکہ خیبر پخونخواہ میں 9.7 ہے۔

سکولنگ کے اوسط سالوں میں یہ بہت بڑا فرق ہے جس میں پنجاب 4.6کے تناسب سے خیبرپی کے3.3 سالوں کے مقابلے میں بہت آگے ہے ،رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ آئندہ الیکشن میں آبادی کا نوجوان ووٹ ”وننگ ووٹ “ ہوسکتا ہے ،”یوتھ ڈویلپمنٹ “کی رینکنگ میں بھی خیبرپی کے نچلے درجات میں نظر آتا ہے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ انسانی وسائل کی ترقی کے اعتبار سے خیبرپی کے پنجاب ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب سے بھی بہت پیچھے رہ گیاہے ، یو ں لگتا ہے کہ انسانی ترقی اورمعاشی اعتبارپنجاب کی لیڈ برقرار رہے گی“ اس رپورٹ کی الفاظی اور”فقروں کی ترتیب بتاتی ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری میں”درجنوں“ پٹواری جو مبینہ طور پر حکومت کے تنخواہ دار ملازم ہو سکتے ہیں کو دن رات ”تعریفی سرٹیفکیٹ“ بنانے میں لگانے پڑے ہیں،ایک ٹویٹر جو پی ٹی آئی کے اسد عمر کا ہے کہ مطابق”یو این ڈی پی کی رپورٹ کو جسطرح مضحکہ خیز سین دیا جا رہا ہے کہ پنجاب نے بہت زبردست پرفارم کیا یہ دیکھنا انتہائی مزاحیہ ہے ، کل فکشن کو حقیقت سے علیحدہ کرنے کے لیے میں اپنا تجزیہ دوں گا ، اس وقت تک ن لیگ والوں کو برادرانہ مشورہ ہے کہ مٹھائی پر پیسا ضائع مت کریں“۔

رپورٹ کے ساتھ ساتھ ایک اور بات جو قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے تا حیات نااہل سربراہ صرف اس بات پر نااہل کئے گئے یا بقول ان کے ”اپنے“ ان کو اس لئے نکالا گیا کہ وہ”ایک سوال کا جواب“ نہیں دے سکے بلکہ اس کیلئے کچھ”خطوط“ پیش کئے ،ووٹر کا ماننا ہے کہ اگر ”ایک“ سوال کہ”پیسہ کہاں سے آیا“ کا جواب بروقت آجا تا تو ”نوازشریف سے 127 “ سوال نہ پوچھے جاتے،پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈور کے مطابق ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں احتساب عدالت نے نوازشریف سے 127 سوالات کئے ہیں۔

عدالت نے نواز شریف سے تمام گواہوں کے بیانات پر سوالات کئے ہیں۔ سوالنامہ میں پوچھا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل، شواہد اور دیگر ممالک کو خطوط، گلف سٹیل ملز کے قیام، قرض اور واجبات پر جواب دیں۔ نوازشریف کے بچے حدیبیہ پیپر ملز کے ڈائریکٹر اور شیئر ہولڈر کیسے بنے، حسن نواز اور حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو، گواہوں رابرٹ ریڈلے، اختر راجہ کے بیانات پر بھی جواب دیں۔

جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے بیان اور شواہد پر آپ کیا کہتے ہیں۔ آپکے خلاف یہ ریفرنس کیوں دائر کیا گیا؟ بیان دیں، استغاثہ کے گواہوں نے آپکے خلاف بیان کیوں دیا، آپ اپنے دفاع میں کوئی شواہد پیش کرنا چاہتے ہیں۔احتساب عدالت میں لندن فلیٹس ریفرنس میں صفائی کا بیان قلمبند کرانے کیلئے شریف خاندان کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ سے پانامہ کیس کا مصدقہ ریکارڈ حاصل کرلیا۔

شریف خاندان کے وکیل کو فراہم کئے گئے عدالتی ریکارڈ میں شریف خاندان کیخلاف دائر درخواستیں، فریقین کے تحریری جوابات، شریف خاندان کی نظرثانی درخواستیں اور دیگر دستاویزات شامل ہیں۔ سابق وزیراعظم کو جو سوالات دیئے گئے ہیں ان میں بڑے چبھتے سوالات موجود ہیں جن میں یہ بھی ہے کہ ان پر الزام ہے کہ ان کے اثاثے ان کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :