متحدہ مجلس عمل کاکامیاب شو۔۔ لیکن!

منگل 15 مئی 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

آج کے انسان کو زندگی کے ہنگاموں نے اس قدر اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے کہ بیوی بچوں کے لئے وقت نکالنا خواب بن چکا ہے ۔ ہر چیز کے ساتھ ساتھ وقت میں بھی بر کت ختم ہوتی جا رہی ہے اور یوں انسان ، انسان سے دور ہو کر صرف اپنی موج مستی میں گم دکھائی دیتا ہے ۔ دوسرے انسانوں کی طرح میرا بھی تقریباََ وہی حال ہے ۔ دن بھر کی شدید مصروفیات ہوتی ہیں جو رات گئے تک بھی ختم نہیں ہوتیں۔

البتہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ چھٹی کا دن بچوں کے ساتھ گذارا جائے اور یوں ان کے ساتھ دل کی باتیں کر نے کا موقع میسر آجا تا ہے ۔ دوسرے دنوں کی طرح چھٹی والے دن بھی کئی دوست احباب کی طرف سے ان کی جانب سے سجائے گئے مختلف پروگرامات میں شرکت کی دعوت موصول ہوتی ہے۔ فیملی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے جن سے معذرت کر لی جاتی ہے
مینار پاکستان میں منعقدہ متحدہ مجلس عمل کے جلسہ عام سے ایک روز قبل ، انتہائی مستعد، متحرک اور خوبصوت انسان قیصر شریف بھائی جو کہ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری اطلاعات کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور بخوبی سر انجام دے رہے ہیں کی کال موصول ہوئی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے جلسے میں شرکت کی دعوت دی اور ساتھ ہی پُرزور اصرار بھی کر ڈالا۔ اب بھلا ایسے خوبصورت انسان کو کیسے معذرت کی جاتی؟ معذرت خواہانہ تمام الفاظ جس کی شان کے خلاف تھے ۔ لہذا گھر والوں سے کچھ وقت کے لئے معافی طلب کی اورمینار پاکستان میں جلسہ گاہ جا پہنچا۔مینار پاکستان اور اس کا گراؤنڈ رنگ و نور کا منظر پیش کر رہا تھا اور چار سو پھیلے انسان ہی انسان ، اس جلسے کی کامیابی کا ثبوت تھے ۔

بہترین اور شاندار انتظامات پر جماعت اسلامی کے ذمہ داران یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
قارئین کرام ! متحدہ مجلس عمل ، مختلف دینی جماعتوں کا پلیٹ فام ہے جوبریلوی، دیوبندی، اہلحدیث اور اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئی ان تما م جماعتوں کے سر براہوں کو ایک اسٹیج پر اکھٹا دیکھ کر جو اپنے اپنے مفادات کی بجائے دین اسلام اور عرض پاکستان کی حفاظت اور سالمیت کے لئے یہاں موجود تھے ۔

ایسے ہی مناظر سامنے بیٹھے شر کاء میں دیکھنے کو ملے کہ ہزاروں کے مجمع میں کوئی اختلافی بات یا نعرہ سننے کو نہیں ملا ۔ تمام شرکاء خاموشی کے ساتھ بڑے منظم طریقے سے قائدین کا خطاب سنتے دکھائی دے رہے تھے ۔ قابل اطمینان بات یہ تھی کہ تمام قائدین آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کئے ہوئے تھے اور موجودہ ملکی اور غیر ملکی حالات سے بخوبی آشنا بھی تھے ۔

نہیں تو مذہبی طبقات میں اکثر اس چیز کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ویسے تو ہر رہنما نے اپنی گفتگو میں کمال کی باتیں کی لیکن بالخصوص سراج الحق اور مولانا فضل الرحمٰن کی گفتگو متحدہ مجلس عمل کا بیانیہ ہے ۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خطاب میں کہا ہے کہ دینی جماعتوں کے اکٹھے ہونے پر کچھ لوگ پریشان ہیں، دینی جماعتوں کے اکٹھے ہونے پر امریکی ایجنٹ پریشان ہیں۔

ہم ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے لڑیں گے۔ مینار پاکستان گواہ ہے 70 سال ہو گئے مگر اسلامی نظام نافذ نہیں ہوا۔ پنجاب میں اس سے بڑا گراؤنڈ ہوتا تو وہ بھی ہم بھر دیتے۔ میرے اس قافلے میں کوئی آف شور کمپنی والا اور پانامہ کی دیوار نہیں ہے۔ ہمارا پہلا پروگرام دیکھ کر لوگوں کے رنگ اڑ گئے۔ پاکستان کو پرامن ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ایم ایم اے پوری قوم کی آواز ہے۔

بھارت، جہلم، ستلج، چناب کا پانی پی رہا ہے، حکمران خاموش ہیں۔ ہمارے حکمران ملک کے جغرافیہ کی حفاظت کر سکے نہ نظریہ کی۔ میری لڑائی کسی فرد یا خاندان کیخلاف نہیں، ظلم کیخلاف ہے۔ ظالم مولوی ہو یا بیوروکریٹ ہم مخالفت کریں گے۔ ہماری لڑائی بھوک، افلاس اور غربت کیخلاف ہے۔ اس ملک کیلئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ کروڑوں مسلمانوں نے ہجرت کے نام پر جانوں کی قربانی دی۔

آج ہمارے اتحاد سے مودی کے یار پریشان ہیں۔ میرے مذہب میں روٹی، کپڑے، تعلیم کے مسئلے کا حل ہے۔ اللہ کی طرح اس کا نظام بھی لاشریک ہے۔ پاکستان میں جمہوریت چاہئے نہ کوئی ازم بس اسلام کافی ہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ یہ متحد کیوں ہو گئے، ہم اس لئے متحدہ ہوئے ہیں تاکہ نیا پاکستان نہ بنے۔ وطن میں امن قائم ہو سکے۔ پاکستان کو خوشحال ریاست بنانے کیلئے ہم متحد ہوئے۔

ہمارے قافلے میں صرف غلامان مصطفی ہیں۔انہوں نے اس بات کو تسلیم بھی کیا کہ آج اسلامی ممالک کو بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ میں نے سیاست ٹرمپ سے نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی کرپٹ لوگوں کو کسی پارٹی میں جگہ نہیں ملنی چاہئے۔ ملک میں خالص دوائی ملتی ہے نہ پانی دستیاب ہے۔ ایم ایم اے چاہتی ہے شہریوں کو انصاف ملے۔ ہم اقتدار میں آ کر عام آدمی کیلئے اقتدار کے دروازے کھول دینگے۔

ہم عام پاکستانی ہیں ہم مزدور کا مسئلہ جانتے ہیں۔ ملک میں زکوٰة کا نظام نافذ کریں گے۔ حکومت کوئی بھی ہو ملک کا بجٹ ایک ہی ٹیم بناتی ہے۔ ہم غیر منصفانہ ٹیکس کا نظام ختم کرینگے۔ پاکستان میں بہت جلد کوئی زکوٰة لینے والا نہیں ہو گا۔ کروڑ پتی سے مزدور کے برابر ٹیکس لیا جاتا ہے۔ ہم موجودہ نظام معیشت کو نہیں مانتے عوام روشن پاکستان کیلئے ووٹ کی طاقت کا استعمال کریں، نواز شریف اور عمران خان نے فوج کی مداخلت کا دعویٰ کرکے الیکشن کو مشکوک بنادیا۔

دونوں کے بیانات سے عوام کا الیکشن پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ ہم برداشت اور ترقی کی سیاست چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کی تقریر بھی خوب تھی جس میں ا نہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ آئندہ حکومت ہماری ہوگی، امت مسلمہ پر آگ برسائی جا رہی ہے، ستر سال تم نے حکومت کی مینار پاکستان آپ کے جھوٹ کی گواہی دے رہا ہے۔ پاکستان کو آزاد فلاحی ریاست بنائیں گے۔


قارئین محترم !متحدہ مجلس عمل کا کامیاب شو اس بات کی گواہی ہے کہ لوگ اب اس سسٹم سے تنگ آچکے ہیں اور حقیقی معنوں میں اسلامی اور فلاحی نظام چا ہتے ہیں ۔اب یہ ایم۔ایم۔اے کے قائدین پر منحصر ہے کہ وہ کیسے لوگوں کی امیدں پر پورا اترتے ہیں اور کیسے ملک میں اسلامی اور فلاحی نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں اپنے سابقہ اختلافات کی روشنی میں دوبارہ اپنی تر جیحات متعین کر نا ہونگی اور جانتے ہوئے بھی عالمی نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والی روش کو بھی ترک کر نا ہو گا۔

اگر تو ایسا ہو گیا تو کچھ بعید نہیں کہ ارض وطن کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنا نے کا سہرا متحدہ مجلس عمل کے سر سجے اور اگر خدانخواستہ وہی پرانی روش اختیار کی گئی تو مجھے اندیشہ ہے کہ پھر ان کا نام بھی نہ ہو گا داستانوں میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :