میاں نواز شریف کی غداری

منگل 15 مئی 2018

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

بین الاقوامی سیاست کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میاں نواز شریف نے موجودہ حالات میں ممبئی حملوں سے متعلق بیان دے کر پاکستانی قوم کی کون سی خدمت کی ہے ۔سوشل میڈیا پر عوام کی اکثریت میاں نواز شریف کو مطعون کرتے ہوئے انہیں غدار قرار دے کر ان پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہی ہے ۔

مجھ جیسے ایک ناچیز قلم کار کی کیا اوقات ہے جو اس مطالبے کی حمایت نہ کرے؟قوم اور ملک کو مشکل میں ڈالنے والوں کا انجام اس کے علاوہ اور ہونا بھی کیا چاہیے ۔ سو میں ان کے اس بیان کی بھرپور مذمت بھی کرتا ہوں اور ان پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کی حمایت بھی ۔
میاں نواز شریف کے سیاسی مخالف عمران خان نے بھی بجا طور پر ان کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے مسلح گروہوں کے کام کرنے کی بات کی ہے لیکن مجھے عمران خان کا وہ انٹرویو بھی یاد ہے جو انہوں نے بھارتی صحافی کرن تھاپڑ کو دیا تھا۔

(جاری ہے)

کرن تھاپڑ کے اس سوال پر کہ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو مسلح گروہوں کے بارے میں پالیسی کیا ہوگی ؟انٹرویو کے آغا زمیں عمران خان کا مسکراتا چہرہ ایک دم سپاٹ ہو گیا تھا انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم حکومت میں آئے تو پاکستان میں کوئی مسلح گروہ کام نہیں کرے گا۔ کرن تھاپڑ نے جب ان سے یہ اصرار کیا کہ کیا وہ حافظ سعید ، جماعت الدعوة یا فلاح انسانیت فاوٴنڈیشن کا نام لے کر کہیں گے کہ وہ ان کے بارے میں تحقیقات کریں گے ؟یہ وہ لمحہ تھا جب عمران خان کی ” پیں “ بول گئی اور پنجابی میں ان کی زبان کو ”دندل“ پڑ گئے ۔

ایک بہادر لیڈر کے الفاظ تھے کہ بھئی ”میں تو ایک Polarized ملک میں رہتاہوں جہاں گورنر کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کا قاتل ایک ہیروبن چکا ہے ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں زندگی بہت سستی ہے “۔
بہرحال !چودہ مئی سوموار کے دن نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اور ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تویہ اجلاس میاں نواز شریف کے اس بیان اور میڈیا میں اس کی ”پیش کش“پر مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ بھی کر چکا ہو۔

میاں نواز شریف کے ان الفاظ بارے مسلم لیگ ن کے ترجمان کی وضاحت بھی جاری کر دی گئی ہے کہ بھارتی میڈیا نے ان کے الفاظ کو مسخ کر کے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا اور پاکستانی میڈیا نے بھی اس معاملے میں بھارتی میڈیا کی تقلید کی ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور گزارش کروں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ سابق وزیراعظم کے انٹرویو کا وہ حصہ یہاں نقل کر دوں کیونکہ بھارتی میڈیا اور کسی حد تک پاکستانی میڈیا کا بیانیہ بھی یہی ہے کہ میاں نواز شریف نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث ہے ۔


"We have isolated ourselves. Despite giving sacrifices, our narrative is not being accepted. Afghanistan's narrative is being accepted, but ours is not. We must look into it."
"Militant organisations are active. Call them non-state actors, should we allow them to cross the border and kill 150 people in Mumbai? Explain it to me. Why can't we complete the trial?"
سابق وزیراعظم کے ان الفاظ میں (جو ایک موقر اخبار میں شائع ہوئے ہیں )یہ اعتراف تو موجود ہے کہ ممبئی حملوں میں نان سٹیٹ یعنی غیر ریاستی عناصر ملوث تھے لیکن ریاست پاکستان کے ملوث ہونے کا شائبہ موجود نہیں ہے ۔


بھارتی میڈیا تو ہے بھی شتر بے مہار اور وہ ان الفاظ کو جو معنی بھی پہنائے اس سے شکوہ کرنا فضول ہے لیکن ہمارا میڈیابھی اس بات میں آزاد ہے کہ وہ جو جی چاہے بیان فرمائے ۔
حقیقت یہ ہے کہ دس برس پہلے ہونے والے ممبئی حملوں کے بارے میں میاں نواز شریف کے ان الفاظ میں کوئی نئی خبر موجود نہیں ۔ میں اپنے قارئین کو یاد دلانا چاہوں گا کہ ممبئی حملوں کے فوری بعد دنیا بھر کے میڈیا میں ایک خبر سب سے اہم تھی ۔

اٹھائیس نومبر دو ہزار آٹھ کے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی اس خبر کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں اس بات پر رضا مندی ظاہر کی تھی کہ آئی ایس آئی کے چیف لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کو بھارت بھیجا جائے گا تاکہ وہ ممبئی حملوں سے بارے ”evidence of Pakistans possible link “کے متعلق معلومات کا تبادلہ کر سکیں۔

(یہ وہی وزیراعظم تھے جنہوں نے دو مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موت کو ”عظیم فتح “ قراردیا تھا) بعد میں آنے والی خبروں کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس فیصلے کو OVERRULEکردیا کیونکہ یہ ایک انتہائی غیر معمولی اقدام تھا جو کسی طو رپاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔
اب جس بات پر میاں نواز شریف کو مطعون کیا جارہا ہے میں اسے کوئی نئی خبر اس لئے قرار نہیں دے سکتا کہ یہ بات اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے مشیر داخلہ رحمان ملک اسلام آباد میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں بیان کر چکے ہیں ۔

رحمن ملک کا یہ بیان یوٹیوب پر موجود ہے اور قارئین کی سہولت کے لئے میں اس کا لنک ارزاں کئے دیتا ہوں ۔
https://www.youtube.com/watch?feature=youtu.be&v=UmJn61_evO8&app=desktop
سی این این پر فرید زکریا کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل نے ممبئی حملوں کے متعلق پاکستانی موقف کو زیادہ بہتر انداز میں پیش کیا تھا اور اس بات کی پرزور تردید کی تھی کہ کوئی بھی پاکستانی ادارہ یا حکومت ان حملوں میں کسی بھی سطح پر ملوث ہو سکتی ہے ل۔

سابق مشیر قومی سلامتی جنرل محمود درانی کابھارتی میڈیا پر چلایا گیا یہ بیان بھی یوٹیوب پر موجود ہے جسے میں اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی بجائے حرف بحرف نقل کئے دیتا ہوں ۔
"The terrorist attack in Mumbai carried out by a terrorist group based in Pakistan on 26 November 2008 is a classic trans border terrorist event. I Hate to admit this that this is true".
(قارئین کی سہولت کے لئے اس بیان کا یوٹیوب لنک یہ ہے) https://www.youtube.com/watch?v=Dt3tDm4TWiQ
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، سابق مشیر داخلہ رحمن ملک اور جنرل محمود درانی کے ان بیانات کے بعد یہ فیصلہ میں عوام پر چھوڑتا ہوں کہ کون محب وطن ہے اور کون غدار۔

لیکن ایک عرض کرنا میں ضرور ی سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم کے بچوں کو سکولوں میں آج بھی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ انیس سوپینسٹھ میں پاکستان کے مکار دشمن نے رات کے اندھیرے میں لاہور پر حملہ کردیا۔ یہی بچے جب کسی یونیورسٹی میں تاریخ ، سیاسیات یا بین الاقوامی تعلقات پڑھنے جاتے ہیں تو یونیورسٹیوں کے ناہنجار پروفیسر ان کو آپریشن جبرالٹر پڑھانے لگ جاتے ہیں ، رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے جس نے دنیا بھر کی معلومات آپ کے ہاتھ میں موجود چند انچ کی موبائل فون نامی چیز میں سمو دی ہیں ۔


آخری گزارش یہ ہے کہ جنوبی ایشیا دنیا کا وہ اہم ترین خطہ ہے جس میں صرف پاکستان اور بھارت ہی اہم ملک ہیں ۔چین ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ہو لیکن امریکہ کا مفاد یہ ہے کہ بھارت اس خطے کا تھانیدار ہو۔ شمالی کوریا کے ایٹمی بٹن کو مسٹر ٹرمپ نے صرف یہ کہہ کر خراب کردیا ہے کہ میرا بٹن تمہارے بٹن سے بڑا ہے اور کام بھی کرتا ہے ۔ایران کے ساتھ معاہد ہ بھی ٹرمپ نے پھاڑ کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا ہے ، اگلی باری کس کی ہوسکتی ہے اس کے لئے زیادہ سوچ بچا روہ کریں جن کا یہ کام ہے ۔ باقی کرنی تسی اپنی مرضی اے ۔
https://www.dawn.com/news/332244

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :