یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے!

اتوار 13 مئی 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ڈاکٹر ڈیوڈ ولیم گوڈال آسٹریلوی سائنس دان ہیں، 4 اپریل 1914ء میں پیدا ہوئے، 1935ء میں بی ایس سی کی ڈگری مکمل کی اور 1941ء میں پی ایچ ڈی کر لی۔ یہ یونیورسٹی آف لندن کے امپیریل کالج کے اسٹوڈنٹ رہے۔ بنیادی طور پر ماہر نباتات و ماحولیات تھے۔جاب کے سلسلے میں 1948ء میں آسٹریلیا منتقل ہوئے اورمیلبورن یونیورسٹی میں نباتیات کے لیکچرر کے طور پر پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔

بعد میں یہ مستقل طور پر آسٹریلیا شفٹ ہو گئے۔ساٹھ سال تک آسٹریلیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھایا اور ریسرچ پیپرز لکھے۔ بیسویں صدی کے آخر میں بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھا تو آسٹریلین گورنمنٹ نے ان کا ڈرائیونگ لائسنس کینسل کر دیا۔ دو ہزار دس کے بعد یہ مزید ضعیف ہوگئے ، کان اونچا سننے لگے، آنکھوں کی بینائی جاتی رہی لیکن دماغ بہر حال کام کرتا رہا۔

(جاری ہے)

یہ دو ہزار دس سے یکم مئی دو ہزار اٹھارہ تک زندگی کی گاڑی کو دھکا دیتے ہے ، یکم مئی کوان کی ہمت جواب دے گئی ، یہ کیمروں کے سامنے آئے ، پریس کانفرنس کی اور خود کشی کا اعلان کر دیا۔دس مئی کو یہ خود کشی کے لیے سوئزرلینڈ کے شہر باسل پہنچ گئے۔ سوئزرلینڈ دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں خودکشی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔سوئزر لینڈ کے اس شہرباسل میں انتہائی علیل، ذہنی و جسمانی معذور، طویل العمر اور لاغر افراد کو آسان موت موت فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ آسانی سے کرسکیں۔

باسل شہر کا کلینک ”ایٹرنل اسپرٹ“ اس حوالے سے کافی مشہور تصور کیا جاتا ہے۔اس کلینک میں دو طرح سے موت دی جاتی ہے۔ ایک ،خودکشی کرنے والے کو موت کا انجیکشن لگادیا جاتا ہے، دو ، اسے زہر کا گھونٹ پلا دیاجاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں سے بظاہر مرنے والے کو کوئی تکلیف ہوتی نظر نہیں آتی۔ مثلا خود کشی کرنے والے کو آدھا کپ زہراس کی فیملی اور کیمروں کی موجودگی میں پلا دیا جاتا ہے۔

زہر پلانے سے قبل اس سے بیان حلفی لیا جاتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے اور خوشی سے خودکشی کررہے ہیں، آپ پر کسی کا کوئی دباو نہیں ہے۔خودکشی کرنے والا زہر کا پیالہ اپنے ہاتھ میں پکڑتا ہے اور پھر اپنے بیوی بچوں کی طرف دیکھتے ہوئی الوداعی ہاتھ ہلاتا یا بوسہ لیتا ہے اور اس کے بعد زہر کا گھونٹ بھر لیتا ہے۔ زہر کا پیالہ پینے کے فورا بعد بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے پانی کا گلاس پیا ہو، خود کشی کرنے والا بالکل نارمل ہوتا ہے، پھر اسے ایک دو بسکٹ دیے جاتے ہیں اور پھر وہ باتیں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ غنودگی کی حالت میں چلا جاتا ہے۔

اس کے بعد اسے سخت نیند آناشروع ہوجاتی ہے اور اس کے بعد وہ ہمیشہ کی نیند سو جاتاہے۔ڈاکٹرولیم ڈیول گوڈال نے کچھ عرصہ پہلے سویئس کلینک لائف سرکل کی برانچ ایٹرنل اسپرٹ کلینک سے رابطہ کیا تھا جہاں انہوں نے رضاکارانہ طور پر مرنے کی درخواست دے رکھی تھی۔ اس کلینک میں پچھلے سال تہتر افراد اور دو ہزار پندرہ میں نو سو چھیاسٹھ افراد نے خودکشی کی تھی۔

اس طرح خودکشی کر کے مرنے کویوتھنیزیا کہا جاتا ہے۔ سوئزرلینڈ میں 1940 سے رضا کارانہ خودکشی کا یہ قانون نافذ ہے۔ اسی طرح کا قانون کینیڈا، بیلجیم، نیدرلینڈز اورلکسمبرگ میں بھی موجود ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی چھ ریاستوں میں بھی یہ قانونی گنجائش موجود ہے ۔البتہ ان ممالک میں خودکشی کے لیے تعاون صرف ان ہی مریضوں کے لیے ہوتا ہے جو بالغ ہوتے ہیں اور ان کی بیماری لاعلاج اورتکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔

دو ہزار سترہ میں آسٹریلیا کی اسٹیٹ تسمانیہ کے ایک ڈاکٹر فلپ نٹشکے جو ڈاکٹر ڈیتھ کے لقب سے مشہور ہیں ، انہوں نے خودکشی میں مدد فراہم کرنے والی ایک مشین ایجاد کی تھی جس میں 91 فیصد نائٹروجن اور 9 فیصد کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا استعمال کر کے لوگوں کو ان کے حتمی انجام تک پہنچایا جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر فلپ دنیا کے پہلے ڈاکٹر تھے جنہوں نے انیس سو چھیانوے میں تسمانیہ ایکٹ انیسو پچانوے کے تحت پہلا لیگل زہر کا انجکشن یوتھنیزیا میں استعمال کیا۔


یہ حقیقت ہے کہ مذہب بیزار معاشرے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سیکولرزم کے نام پر مذہب کا تو دیس نکالا دیا ہے لیکن ان کا سیکولرزم بھی ان کو امن، سکون اور روحانیت نہیں دے پایا اور یہ بیچارے اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔آ پ دنیا کا کوئی بھی سیکولر معاشرہ دیکھ لیں آپ کو اس میں سب سے ذیادہ بے چینی اور خودکشی کا رجحان ملے گا۔

قدیم دور سے انسان مذہب میں سکون اور روحانیت تلاش کرتا آیا ہے لیکن آج کے جدید معاشرے مذہب کو پس پشت ڈال کر سکون اور روحانیت چاہتے ہیں جو انہیں کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہ معاشرے دنیا کی تمام سہولتوں کے باوجود اندر سے کھوکھلے اوربے چین ہیں۔وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ پر سکون زندگی کے لیے پیسا اور سہولیات کافی نہیں قلبی اطمینان ضروی ہے ، یہودی اور عیسائی مذہب کی اصل تعلیمات ان تک پہنچی نہیں اور مذہب اسلام کی اس وقت جومروجہ تصویر پیش کی جا رہی ہے اس سے یہ لوگ بیزار ہیں اس لیے مذہب کے بارے میں یہ لوگ کشمکش کا شکار ہیں،سکون ،اطمینان اور روحانیت بھی چاہتے ہیں لیکن مذہب کو بھی اپنانا نہیں چاہتے۔

روحانی تسکین نہ ہونے کی وجہ سے ایسے ممالک میں خود کشی کی شرح سب سے ذیادہ ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔تہذیب کی بنیادی اکائی خاندان ہے لیکن خاندان اور فیملی کا لفظ ان معاشروں میں ختم ہوتا جا رہا ہے ، وہ سب کچھ پالینے کے باوجود اندر سے خالی ہیں ، ان ممالک میں اسلام کی مقبولیت کا جو رجحان پروان چڑھ رہا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی چھتری تلے انہیں ذہنی سکون ملتا ہے۔

خواتین اسلام کے دائرے میں آ کر خود کو پرامن اور محفوظ تصور کرتی ہیں اور ان کو ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے۔ مذہب بیزار معاشروں کواپنی بقا کے لیے اس وقت تین بڑے چیلنجز درپیش ہیں ،ایک یہ عقلیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہیں اور اس انتہا کی دوسری جانب زوال کی گہری کھائیاں اور طویل غار ہیں ،انیسویں اور بیسویں صدی عقلیت پرستی کی صدیاں کہلاتی ہیں اور عقلیت پرستی کسی قوم اور تہذیب کے زوال کاآخری اسٹیج ہوتا ہے۔

ان معاشروں کا دوسرا بڑا چیلنج خاندانی نظام ہے ، وہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، خاندان نہ ہونے کی وجہ سے گھر بنانے اور بسانے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے ۔ تیسرا بڑا چیلنج روحانیت کا فقدان ہے ، یہ لوگ روحانی طور پر بہت پریشان ہیں اور سکون کی تلاش میں کبھی چرچ جاتے ہیں کبھی مندر لیکن اس کے باوجود انہیں سکون نہیں ملتا ، جس دن انہیں پتا چل گیا کہ اصل چین اور دل کا سکون اسلام کے پاس ہے اس دن یہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے اور کم از کم ہم سے اچھے مسلمان ثابت ہوں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ مذہب ہر دور میں انسان کی ضرورت رہا ہے اور قدیم معاشرے مذہب سے سکون او ر روحانیت تلاش کرتے آئے ہیں۔ پچھلے چودہ سو سال سے اگر کوئی مذہب اس دنیا میں اپنی اصلی حالت میں باقی ہے اور مذہب کہلانے کا حقدار ہے تو وہ صرف اسلام ہے اس لیے اگر آج کوئی ولیم ڈیوڈ گوڈال امن ، چین اور قلبی سکون کا متلاشی ہے تو اسے یہ خزانہ اسلام کی تجوری سے ملے گا ، اسے اسلام کی چھتری تلے آنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :