تا ثریا می رَور دیوار کج

ہفتہ 12 مئی 2018

Dr Azhar Waheed

ڈاکٹر اظہر وحید

گزشتہ دنوں ایک عجب شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ بقول اس کےٗ اس نے قرآن پر بہت ریسرچ کی ہے اور ان مطالب سے آگاہی حاصل کی ہےٗ جن تک گزشتہ بارہ سو برس تک امت میں سے کسی کی رسائی نہ ہو سکی تھی۔ ماتھا ٹھنکا۔ دین کے حوالے سے اسلاف کو جاہل سمجھنے والے کا علم بجائے خود ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔اس کے فکر کی بنیادی اینٹ یہ آیت تھی .... وانتم الاعلون ان کنتم مومنین ....جس کا ترجمہ وہ یوں کر رہے تھے ‘ تم ہی غالب ہو ‘ اگر تم مومن ہو۔ ان کے بقول ”اعلون“ کا مطلب غالب ہونا ہے۔” غالب“ اغلباً نہیں ‘ یقینا عربی ہی کا لفظ ہےٗ اگر یہاں مراد محض غالب ہونا ہی ہوتا تو قرآن میں غالبون ہی نازل ہوتا ۔ بہرطور ان کے نزدیک اگر مسلمان اس وقت سیاسی اور معاشی طور پر مغلوب ہیںٗ تو اس کا لامحالہ مطلب یہی ہے کہ وہ مومن نہیں ، اگر وہ مومن ہوتے تو ضرور دوسری اقوام پر غالب ہوتے۔

(جاری ہے)

ان کے نزدیک اعلیٰ ہونے کا معیارِ مطلق سیاسی اور معاشی غلبہ حاصل ہونا ہے۔ گویا اس معیار کے مطابق اسپین اور بغداد میں مسلمان بادشاہوں کے دورِ عروج میں نبیذ ، کنیز اور محلات کی بے تحاشا غلام گردشوں کے درمیان اسلام خوب غلبہ حاصل کر چکا تھا.... اوردورِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے سخت کوش ماحول میں مومنین گویا کم مومن تھے!! دراصل دین کو معیار کی بجائے مقدار کے پیمانوں میں ماپنے والے ہمیشہ ہی خسارے میں رہے۔
یہ سمجھتے ہوئے کہ ان سے تبلیغ کا حق ادا نہیں ہوا ‘ اگلے ہفتے موصوف اپنے استاد کو لے کر آ گئے ۔ان کے استاد بڑے استاد نکلے۔ اپنے سوا ہر دوسرے کو گمراہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ( نقلِ کفر کفر نہ باشد) رسولِ پاکؐ نے جس طرح خود قرآن "سمجھا" اسی طرح صحابہ کو سمجھا دیا ، لیکن اس کے بعد ویسے نہیں سمجھا گیا۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ سمجھ اب مجھے میسر آگئی ہے، لہذا اب مجھ پر قرآن کی تبلیغ فرض ہو گئی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن میں مکمل ہدایت موجود ہے ‘اس لیے ہمیں کسی انسان کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ہرشخص اب یہ کتاب پڑھ لے اور ہدایت لے لے۔ اس بقراطِ وقت کو کیسے سمجھایا جاتا کہ جنابِ والا آپ ہی کے فلسفے کے مطابق اس کلیے کا اطلاق جب آپ پر ہوگاٗ تو یہ بات ماننا آپ کے سننے والے کیلئے ناممکن ہو گا !!جب بارہ سو برس کا دور ایک ”تاریک دور“ ہی گزرا ہے تو اس میں احادیث مبارکہ بھی گویا طاقِ نسیاں میں چلی جاتی ہیں کہ علومِ حدیث تو تین سے چار سو برس بعد مرتب ہو رہے ہیں۔ قرآن کو کافی اور صاحبِ قرآن کو معاذاللہ اضافی جاننے والے حکمت دین نہیں جان سکتے ہیں۔ جاننے کیلئے پہچاننا ضروری ہے اور پہچان انسان کی ہوتی ہے۔انسانِ کامل .... الانسان ....کی پہچان کے بغیر اس کتاب کی بابت کوئی آگاہی کیسے ممکن ہے جو آپ کے قلبِ اطہر پر نازل ہوئی۔ جس ذاتِ پاک پر وہ کتاب نازل ہوتی ہےٗ اسے بھی کیا امتی کی طرح اسے "سمجھنے" کی ضرورت ہے؟؟ اقبالؒ تو امتِ محمدیہ کے ایک بندہِ مومن کے متعلق اعلان کر رہا ہے کہ .... قاری نظر آتا ہے ‘ حقیقت میں ہے قرآن ۔ قرآنِ ناطق کے بغیر قرآنِ صامت کیسے کلام کرے گا۔ قرآن بالتعریف قرات کرنے والی چیز ہے۔ قرآن سماعت کی جانے والی ایک حقیقت ہے‘ اس کیلئے قرات کرنے والا درکار ہے۔۔۔۔۔ فاستمعو اونصتو لعلکم ترحمون ( اور قرآن سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے)
عجب گمراہی کے حلقے پیدا ہوچکے ہیںٗ ہمارے گلی کوچوں میں.... جس کا جی چاہتا ہے‘ اپنی عقلِ ناقص کی نقب لگاتا ہے اور اس قلعہِ الہام میں گھس بیٹھیا بن بیٹھتا ہے‘ جس کے درو بام تک رسائی کا دعویٰ کرنا دراصل اپنی نارسائی کا اعلان کرنا ہے۔ حدیثِ مبارکہ کو قرآن فہمی میں ایک جملہ معترضہ سمجھنے والے جس قرآن فہمی کی بات کرتے ہیں وہ دراصل ایک غلط فہمی ہے۔ غلط فہمی جب تک دور نہیں ہوتی‘ خوش فہمی کہلاتی ہے۔ ایسے اصحاب کی خدمت میں ایک مختصر سا سوال ہے‘ ذرا چشمِ تصور میں دیکھیے کہ آپ چودہ سو برس قبل پیدا ہوچکے ہیں، وہاں آپ قرآن کے کہنے پر صاحبِ قرآن ﷺ کو مانیں گے یا صاحبِ قرآن ﷺ کے کہنے پر قرآن کو تسلیم کریں گے؟ ہر ذی شعور مانے گا کہ اس دور میں ایمان لانے کیلئے ہمیں قرآن سے پہلے صاحبِ قرآن کی بات کو ماننا ہوگا۔ صاحبِ قرآن کی بات ہی کا نام حدیث ہے۔ کسی حدیث کے صحیح، ضعیف یا مرفوع ہونے کی بابت تو بات ہو سکتی ہےٗ اہلِ تحقیق کے درمیان .... لیکن قرآن فہمی کے باب میں مجموعہ ہائے احادیث سے لاتعلقی اختیار کرنا اس کتابِ ہدایت سے ہدایت کی بجائے ضلالت مول لینے کے برابر ہے.... ”یضل بہ کثیر و یہدی بہ کثییراً ....اس کتاب سے بہت سوں کو گمراہی ملتی ہے اور بہت سوں کوہدایت۔ یعنی صاحبِ کتاب سے تعلق اور تمسک رکھنے والے ہدایت پائیں گے اور اعراض کرنے والے گمراہی میں چلیں گے۔ کتابِ ہدایت از خود ہدایت نہیں دیتی .... اس کیلئے ”ہادی“ کا ہونا ضروری ہے۔ ولکلِ قومٍ ھاد .... اور ہر قوم کیلئے ہادی ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘ ہادی تو اللہ ہے.... بلاشبہ وہی ”الہادی“ ہے .... اگر ہدایت کیلئے ایک کتابِ ہدایت اور وہ ایک واحد تنہا، یکتا "الہادی" ہی کافی ہوتا تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ باری تعالیٰ نے انسانوں پر انسان ہی کو حجت بنایا ہے۔ انسان انسان ہی سے مانوس ہوتا ہے.... کردار کی اتباع کیلئے ہمیں انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہدایت کیلئے صرف اچھی اچھی باتیں لکھنا اور بول دینا کافی نہیں، ان باتوں پر عمل کرنے والا ایک جیتا جاگتا پیکرِ انسان درکارہوتاہے .... تاکہ کردار کردار میں ڈھل سکے۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا نعتیہ مصرع ہے:
جنہیں تیراؐ نقشِ قدم ملا وہ ترےؐ جمال میں ڈھل گے
انّا نحن نزلنا الذکر وانّا لہ لحٰافظون....بے شک ہم نے ہی اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ کتاب صاحبِ کتاب کے باطنی تصرف سے محفوظ ہوتی ہے۔ ہدایت پر چلنے والے صاحبِ کردار لوگوں کی ایک کہکشاں ہے جو دورِ نبویؐ سے آج تلک درخشاں ہے ....اور عامتہ المسلمین کیلئے قابلِ تقلید ہے....اُنؐ کا دَور جاری و ساری ہے ۔ اصحابِ ذی مقام، تابعین ، تبع تابعین ، اولیا، صلحا، نقبا، شہدا.... غرض انعام یافتہ اور ہدایت کی نعمت سے آراستہ امتیوں کا ایک سلسلہ ہے ‘ جو درمیان میں کہیں ٹوٹتا نہیں۔ ہدایت کی تمنا ہو تو کتابِ ہدایت کی سماعت ان ہدایت یافتہ لوگوں کی معیت میں کرنی چاہیے.... کہ قرآن کہہ رہا ہے” فسئلو اھل الذکر( اہلِ ذکر سے پوچھ لو)۔ تفسیرِ قرآں تو ایک طرف.... اجماع کے بارے میں بھی حکم یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں نے جس بات پر اجماع قائم کیا ہو ‘ اس کے برعکس اجماع نہیں ہو سکتا ۔ دنیاوی قانون بھی یہی کہتا ہے کہ جو نظیر قائم ہو چکی ہو‘ اس کے برعکس کوئی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا ہے۔
ہر علم کے مبادیات میں ہے کہ الفاظ اپنے لغوی معنوں میں نہیں ’ بلکہ اصطلاحی معنوی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً لفظ "نبی" کا لغوی معنی خبر دینے والے کے ہیںٗ لیکن اصطلاحی معانی فرستادہِ خدا کے ہیں۔اسی طرح وحی، میزان ، گناہ اور ثواب کا مطلب اہلِ لغت سے نہیں‘ اہلِ معانی سے ملے گا۔ اہلِ لغت صرف ترجمہ کرسکتے ہیں‘ الفاظ کومعانی کاجامہ پہنانا اہل معانی کا کام ہے.... یہ منصب اہل معرفت اور اہلِ ذکرسے منسوب ہے۔ مقصود ترجمہ نہیںٗ معانی کا حصول ہے۔ کشف المحجوب میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں" معرفت لفظ سے معانی کا سفر ہے“۔ اصطلاحی معنوں کی حرمت پر پہرہ دینے کیلئے اہلِ ذکر ، اہل فکراور اہلِ معرفت سلسلہ بسلسلہ صدیوں سے موجود و معروف ہیں.... معانی اور اہلِ معانی کا تسلسل کہیں منقطع نہیں ہوا۔ ایسی فکری تخریب کاری جس کا مدعا اپنے نفس سے برآمد ہونے والے معانی کا فروغ اور چودہ سو برس سے طے شدہ معانی سے انحراف ہو ایک خروج کے سوا کچھ نہیں۔ اگر اسی کتابِ ہدایت سے حال اور ماضی کے مسلمانوں کو گمراہ ثابت کرنا ہی مقصودِ ہدایت ٹھہرا تو ایسی تشریح اور تفسیر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
استاد جی کی گمراہی میں بھی کوئی دلکشی نہ تھی .... گفتگو میں ربط ،دلائل میں وزن مفقود تھا، قرآن سے اخذ کی ہوئی ان کی ہر بات کا ابطال قرآن ہی میں موجود تھا .... لیکن وہ خود کو مامور من اللہ سمجھ رہے تھے.... اور اتمام حجت کیلئے میرے پاس تشریف لائے تھے۔ خود کو مامور جاننے والا گزشتہ چودہ سو برس کے مامورین کو تسلیم کرنے میں متامل تھا!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :