عمر چیمہ کی خبر اور چیف جسٹس کا نوٹس

پیر 30 اپریل 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

گذشتہ دنوں جنگ اور نیوز میں برادرم عمر چیمہ کی ایک خبر کا بہت تذکرہ رہا۔یہ خبر ایک نابینا وکیل جناب یوسف سلیم کے بارے میں تھی۔ جنہیں مجسٹریٹ /سول جج کے امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کرنے کے باوجود انٹرویو میں فیل کر دیا گیا تھا۔ اس امتحان میں پورے پنجاب سے ساڑھے چھ ہزار وکلاء نے داخلہ جمع کروایا ۔ تین ہزار چھ سو سے زائد نے امتحان دیا اور سارے پاکستان میں سے کل اکیس امیدوار کامیاب ہوئے۔

ان اکیس کامیاب امیدواروں میں ہونہار یوسف سلیم کا نام بھی تھا۔ اسکے بعد انٹرویو کے مرحلے میں سولہ امیدوار منتخب ہوئے جن میں یوسف سلیم کا نام نہیں تھا۔ یوسف کے بقول انٹرویو میں جو لہجہ اختیار کیا گیا وہ اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ انٹرویو کا مقصد انکو فیل کرنا ہے۔

(جاری ہے)

یوسف نے اس بات پر احتجاج کے لیے عمر چیمہ کے قلم کا سہارا لیا اور خوش قسمتی سے اس صریحا بدیانتی کا نوٹس محترم چیف جسٹس نے لیا۔

فوری طور پر اعلان ہو گیا کہ اس معاملے کو دوبارہ دیکھا جائے گا ،مگر اس اعلان کے بعد ابھی تک مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اگر یوسف سلیم پاکستان کے پہلے نابیناجج منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ فیصلہ بہت سے نابینا افراد کو روشنی دے گا۔انکے لیے نئے رستے کھلیں گے۔
یوسف سلیم ، صائمہ سلیم کے چھوٹے بھائی ہیں جو پاکستان کی پہلی نابینا سی ایس پی ا ٓفیسر ہیں اور آج کل فارن سروس میں ملک کا نام روشن کر رہی ہیں۔

یوسف سلیم کی ایک اور بہن عائشہ سلیم بھی نابینا ہیں جو لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ایجوکیشن کے مضمون کی تعلیم دے رہی ہیں اور اسی موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کر رہی ہیں۔ یوسف سلیم کو دو بہنیں بینا بھی ہیں ۔ انکے والد چارٹرڈ اکاونٹنڈہیں۔ یوسف کے کہنے کے مطابق انکی خوش قسمتی یہ ہوئی کہ انہیں لاہور کے پرائیویٹ سکول عزیز جہاں بیگم ٹرسٹ سکول میں داخلہ مل گیا۔

یہی سکول انکی تمام کامرانیوں کا سبب بنا۔ ذہانت کا یہ عالم ہے کہ یوسف سلیم نے بی اے ایل ایل بی کے تمام کے تما م دس سمسٹرز میں اول پوزیشن حاصل کی۔یوسف سلیم کی خبر کو عمر چیمہ اور چیف جسٹس کے نوٹس کی وجہ سے تما م دنیا میں پذیرائی مل رہی ہے۔ لیکن سارے پاکستان کے نابینا افراد اتنے خوش قسمت نہیں۔
میری نابینا افراد کے مسائل سے دلچسپی کچھ ذاتی نوعیت کی ہے۔

میری پہلی اہلیہ مرحومہ صائمہ عمار نابینا تھیں ۔ دو سال کی عمر میں انکی بینائی چلی گئی تھی۔ اسکے باوجود انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایم ایس سی کی۔ انکو دوران تعلیم جو مسائل پیش آئے انہی کے سبب انہوں نے ساری زندگی نابینا فراد کو تعلیمی سہولیات بہم پہنچاننے کے لیے وقف کر دی۔ اسی سلسلے میں ایک جگہ میری ان سے ملاقات ہوئی اور پھر شادی کے بعد ہم دونوں نے مل پورے پاکستان میں چار ہزار نابینا افراد کو تعلیم کی روشنی سے بہرہ ورکیا۔

مجھے یہ اعزا ز حاصل ہے کہ پورے پاکستان کے نابینا افراد مجھے میری آواز سے پہچانتے ہیں۔ چار ہزار کوئی بہت زیادہ لوگ نہیں لیکن یہ چار ہزار زندگیوں کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے آج بہت اچھے مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ میری مرحومہ اہلیہ کو زندگی نے زیادہ موقع نہیں دیا اور بائیس دسمبر دوہزار دس کو چالیس برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔

ہماری شادی چودہ سال ایک مہینہ اور بائیس دن رہی پھر اجل نے انہیں آواز دے دی۔
میری مرحومہ اہلیہ اور یوسف سلیم نابینا افراد میں سے وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کی حوصلہ افزائی گھر سے ہوئی ۔ لیکن سار ے پاکستان کے نابینا افراد اتنے خوش قسمت نہیں۔ ہم نے ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جہاں نابینا افراد کو رسیوں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے۔ معاشرتی بے حسی کا
یہ عالم ہے کہ کوئی معذوری کو ماں باپ کی کسی غلطی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے تو کوئی کسی گناہ کی سزا بتاتا ہے۔

اندھا ، کانا ، لولا لنگڑا جیسے الفاظ سے انکی توہین کی جاتی ہے۔ معاشرہ انکو نہ انکا مقام دیتا ہے نہ انکی معذوری کی حرمت باقی رہنے دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود جو نابینا افراد تعلیم حاصل کر لیتے ہیں اور کسی طرح نوکری حاصل کر لیتے ہیں تو معاشرے کا رویہ انکے بارے میں یکدم مثبت ہو جاتا ہے۔نوکری کے حصول کے لیے تعلیم لازمی ہے او ر نابینا افراد کے لیے تعلیم کا حصول سہل نہیں ہے۔

پورے پاکستان میں نابینا افراد کی درس گاہوں کی صورت حال بہت تشویشناک ہے مگر کے پی کے میں یہ صورت حال سب سے ابتر ہے۔
کے پی کے میں نابینا افراد کے درست اعداد و شمار پورے پاکستان کی طرح دستیاب نہیں کیونکہ والدین ایسے بچوں کا نام رجسٹر کرواتے ہوئے جھجھک محسوس کرتے ہیں۔کے پی کے میں نابینا افراد کی تعلیم کے لئے گیارہ سکول ہیں اور یہ سب سکول پرائمری سطح کے ہیں۔

ابھی تک کوئی سکول ہائی سکول کا درجہ نہ پاسکا ہے۔پورے خیبر پختون خواہ میں ایک بھی بریل پریس نہیں ہے بریل پریس لگانے کا اعلان سب سے پہلے انیس سو ستر میں کیا گیا آج بھی حکومت یہی اعلان کر رہی ہے۔بچوں کو سکول میں تعلیم دینے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر کتابیں میسر نہیں ہیں۔ ایک کلاس میں اگر چھ بچے ہیں تو دو کو کتاب میسر ہے۔یہ کتاب وہ ہے جو برسوں پہلے لاہور سے چھپ کر آئی تھی۔

پرانی کتابوں سے بریل ڈاٹس مٹ چکے ہیں۔طلباء نے امتحان پشاور کا دینا ہے مگر وہ لاہور کی کتاب پڑھنے پر مجبور ہیں۔پرائمری کے بعد بچوں کے پاس پڑھنے کو کوئی طریقہ نہیں۔نہ سبق ،نہ کتاب ، نہ سکول نہ ہی استاد میسر ہیں۔جو خوش قسمت لاہور یا راولپنڈی جا سکتے ہیں وہی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔نارمل سکولوں میں نابینا بچوں کا داخلہ انتہائی دشوار ہے۔

نابینا لڑکیوں کا معاملہ اور بھی تکلیف دہ ہے۔والدین ایسے بچوں کو پڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بعض صورتوں میں انہیں گھروں میں باندھ کر بھی رکھا جاتا ہے۔زیادہ تر بچوں کو نابینا حافظ بننے کے لئے مدرسوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔مذہبی تعلیم اہم ہے مگر دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے ذرائع ابتر ہیں۔امتحان میں بیٹھنے کے لئے نابینا طلباء کو رائٹر نہیں ملتا اور اگر ملتا ہے تو ممتحن اسکو بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اساتذہ کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں زیادہ تر طلباء پڑھ کر اور علامہ اقبال یونیورسٹی سے ڈگری لے کر اس سکول میں پڑھانے لگ جاتے ہیں۔بہت سے سکولوں کی عمارت نہایت مخدوش ہے اور کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔ووکیشنل ٹریننگ کے نام پر بچوں کو صرف کرسیاں اور چار پائیاں بننے کا کام سکھایا جا تا ہے۔سرکاری اور سیاسی بھرتیوں کا یہ عالم ہے کہ ایک سکول میں طالبعلم صرف تیس ہیں مگر اساتذہ کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے۔

ان میں سے تعلیم دینے والے صرف دس ہیں جبکہ چالیس سے زیادہ صرف کین ورکر کے طور پر بھرتی کئے گئے ہیں۔نابینا افراد کے کرسیاں بننے کا کام ستر کی دہائی میں سرکاری طور پر شروع ہوا اب دنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی ہے مگر قوانین میں رد وبدل نہ ہونے کی وجہ سے یہ پوسٹیں آج بھی اسی طرح قائم ہیں۔چند سکولوں میں پرائیوٹ اداروں نے کمپیوٹر لیب بنائی ہیں مگر جگہ کی کمی، استاد کی عدم دستیابی ، لوڈ شیڈنگ اور انٹر نیٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ لیبس نمائش کا ذریعہ بن گئی ہیں
کمپیوٹر اور موبائل پر ابھی تک اردو پڑھنے کا سافٹ وئیر نہیں بن سکا۔

انگریزی زبان نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے طلباء کو دشواری ہوتی ہے
لیکن جس طالبعلم نے تعلیم حاصل کر لی اور کمپیوٹر سیکھ لیا اسکی زندگی بدل گئی ہے۔ ہمیں سبق یہ ملتا ہے کہ جب کوئی نابینا فرد ملازمت حاصل کر لیتا ہے تو معاشرہ اسکو عزت دیتا ہے۔اس عزت کو حاصل کرنے کا واحد طریقہ تعلیم ہے۔ہزاروں نابینا طلباء تعلیم کی خواہش رکھتے ہیں مگر ناکافی سہولتیں انکو تاریکی میں دھکیل دیتی ہیں۔

ورنہ ان میں سے ہر کوئی کامیاب زندگی گزار سکتا تھا۔ہر کوئی ترقی پا سکتا تھا۔ہر کوئی اپنا نام بنا سکتا تھا۔وطن کا جھنڈا بلند کر سکتا تھا۔لیکن سب اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے۔ کچھ موتی مٹی میں مل جاتے ہیں۔ کچھ پھول خاک میں رہ کر خاک ہو جاتے ہیں ۔عرض صرف اتنی ہے ایک شخص کی خبر پو نوٹس لینے سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک حکومتیں اداروں کو مضبوط نہیں کریں اور ادارے خود احتسابی کے عمل سے نہیں گذریں گے یہ نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :