ل لوٹا

بدھ 25 اپریل 2018

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستان میں جمہوریت جس انداز سے پروان چڑھ رہی ہے، کچھ بعید نہیں کہ مستبقل قریب میں جمہوریت خود ہاتھ باندھے کھڑی ہو کہ مجھ پہ اتنا تو ظلم روا نہ رکھو، مجھے سانس لینے کی اجازت تو دے دو۔ کرپشن پہ پردہ ڈالنا ہو، بہترین پردہ جمہوریت ہے۔ غیر قانونی اثاثوں کو قانونی شکل دینی ہو، بہترین قانون جمہوریت ہے۔ اپنے خاندان کا مستبقل محفوظ کرنا ہو، بہترین مستقبل جمہوریت ہے۔

اقتدار کو اپنے گھر کی باندی بنانا مقصود ہو، یہ باندی جمہوریت دیتی ہے۔ ظلم کر کے مظلوم بننا ہو، ایسا جمہوریت سے ممکن ہے۔ ملک کی سالمیت کے خلاف ہو کے بھی بچ جانا ہو، ایسی چھتری صرف جمہوریت ہے۔ غریب کو غریب تر، امیر کو امیر تر کرنا ہو، ایسا جمہوریت سے ہی ممکن ہے۔ جمہوریت عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کا سبب ہے، جمہوریت قانون کی حکمرانی کا درس دیتی ہے، جمہوریت نچلی سطح تک انصاف کا نظام قائم کرتی ہے، جمہوریت معاشرے میں تفریق کو جڑ سے اکھاڑتی ہے، جمہوریت تعلیم کی مفت فراہمی یقینی بناتی ہے، جمہوریت میں ہسپتالوں سے فری علاج ہوتا ہے، جمہوریت میں عوام کے نمائندے عوام کے حقیقی خادم ہوتے ہیں، یہ تمام ایسی جمہوری بڑھکیں ہیں جو صرف تین سے چھ ماہ سننے کو ملتی ہیں۔

(جاری ہے)

اور اب کیوں کہ انتخابات آنے والے ہیں اس لیے سننے کو مل رہی ہیں۔ ورنہ حقیقت میں جمہوریت کی ان صفات کا پاکستان میں جمہوریت سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت میثاق جمہوریت سے میثاق مری تک ہی بکتا ہوا چورن ہے۔
اور اب جمہوریت کا ایک اور حسن ملاحظہ ہو کہ لوٹا کریسی کو انقلاب و جہدو جہد کا نام ملنا شروع ہو گیا ہے۔ عہدے کو عروج پہ لات مارنا تو جہدوجہد گردانا جا سکتا ہے مگر پانچ سال سہولیات، مراعات، تنخواہیں، بونس سب وصول کرنے کے بعد اگر کوئی کہے کہ میں جمہوریت کے لیے عہدہ چھوڑ رہا ہوں تو اس انسان کو اپنے آپ سے خفت محسوس ہونی چاہیے کہ شکم سیری کے بعد کون سا انقلاب لایا جا سکتا ہے۔

ماضی میں جھانکنا سیکھیے، انتخابات 2013 سکندر بوسن ، راجہ شاہد ظفر، شیخ وقاص اکرم، نوابزادہ لشکری رئیسانی،سردار محمد یوسف، دیوان عاشق بخاری، اسلم بودلہ،سمیت کئی راہنماؤں نے عین انتخابات سے کچھ پہلے حمایت کا وزن اس پارٹی کے پلڑے میں ڈال دیا جو بعد میں اقتدار میں آئی۔ اسی طرح سندھ میں جتھے کے جتھے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔
کچھ ایسی ہی صورت حال اب انتخابات 2018 سے کچھ پہلے دیکھنے میں آ رہی ہے۔

چند دن پہلے طاہر بشیر چیمہ، خسرو بختیار سمیت پانچ ایم این ائے اور تین ایم پی ائے پورے پانچ سال اقتدار کا حصہ رہنے کے بعد اپنے خطے کی محرومیوں کو جواز بنا کر ن لیگ چھوڑ چکے ہیں۔ اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار، اور بلال ورک بھی داغِ جدائی دے چکے ہیں حکومتی پارٹی کو۔کراچی کی صورت حال سامنے ہے متحدہ کے پتے ایسے کمال کی جھولی میں گرنا اچانک شروع ہو گئے ہیں جیسے ان کے پاس ملک کو چلانے کا حکیمی نسخہ آ گیا ہے۔

ایسی ہی صورتحال پیپلز پارٹی جوائن کرنے والوں کی ہے۔ چوہدری نثار جیسے راہنما ابھی خود کو لوٹا کریسی کا حصہ بننے سے بمشکل روکے ہوئے ہیں۔
لوٹا لفظ کیوں کہ غیر مہذب گردانا جاتا رہا ہے لہذا احباب اس کو اب وفاداری تبدیل کرنے کا نام دیتے ہیں۔لیکن بہر حال کردار لوٹے کا ہی رہے گا کہ لوٹا بھی ہر کوئی استعمال کرتا ہے اسی طرح کچھ لوگ پارٹیاں بھی اسی رفتار سے بدل رہے ہیں۔

حرج پارٹی بدلنے میں نہیں، حرج کسی جماعت کا حصہ بننے میں بھی نہیں۔ حرج صرف یہ ہے کہ انقلاب کی گاڑی میں پٹرول الیکشن نزدیک آنے پہ ہی کیوں ڈالا جاتا ہے۔ باقی پانچ سال اس انقلابی گاڑی کے ٹائر کیوں پنکچر ہوئے رہتے ہیں جس میں تمام موسمی انقلابی راہنما سوار ہو جاتے ہیں۔ کراچی کا سوچ کے پی ایس پی کا حصہ بننے والے پانچ سال کیا ٹمبکٹو کا حصہ تھے جو کراچی کا خیال نہیں آیا، جنوبی پنجاب کا نعرہ بلند کرنے والے کیا پانچ سال ستو پی کے سوتے رہے جب وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے، پختونوں کے حقوق کا نعرہء مستانہ اُٹھانے والے کیا پانچ سال گم رہے جو اب حقوق کی پکار اُٹھ کھڑی ہوئی۔


انقلاب اپنی پارٹی کو پالیسیاں تبدیل کر دینے پہ مجبور کرنے کا نام ہے۔ انقلاب اقتدار سے چمٹے رہنے کا نام نہیں ہے۔ حکومت کی مدت کا تمام عرصہ عیاشی رہے اور آخری چند مہینے انقلاب ، انقلاب کی صدائیں، یہ چورن بک رہا ہے مگر زیادہ دیر بکے گا نہیں۔ کیوں کہ اردو قاعدے میں ل لوٹا تو پڑھتے آئے ہیں مگر وہ وقت دور نہیں کہ عوام موسمی انقلابیوں کو دیکھیے ہی، وہ جا رہا ہے۔۔۔۔ ل لوٹا۔۔۔ کی صدائیں لگائیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :