لاثانی سرکار!

پیر 23 اپریل 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ ان کا آخری وقت تھا ، نزع کا عالم طاری تھا اور کسی بھی وقت سانسیں اکھڑسکتی تھیں۔ اتنے میں ایک انسانی شکل کمرے میں داخل ہوئی اور مرنے والے کے سرہانے بیٹھ گئی، اس نے مرنے والے سے پوچھا "کیا اس کائنات میں اللہ کا وجود ہے"مرنے والے نے جواب دیا "بالکل ہے" اس نے اگلاسوال کیا "تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے " مرنے والے بہت بڑے عالم، محدث، متکلم اور فقیہ تھے انہوں نے خدا کے وجود پر دلائل دینا شروع کر دیئے۔

وہ جتنے بھی دلائل دیتے گئے کمرے میں موجود شخصیت ان کےدلائل رد کرتی رہی ، پہلی دلیل ، دوسری دلیل ، تیسری دلیل حتیٰ کہ انہوں نے ستر دلائل دیئے اور دوسری طرف سے پلک جھپکنے میں سب دلائل کو رد کر دیا گیا۔اب انہیں تشویش لاحق ہوئی کہ یہ انسان کون ہے جو میری ہر دلیل کا جواب دیئے جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اللہ نہ کرے اگر یہ اسی طرح میری ہر دلیل کا جواب دیتا رہا تو میں اللہ کے وجود کا منکر ہو کر مر جاوں گا۔

انہوں نےا ور زور سے اور مستحکم دلائل دینا شروع کر دیئے جب بات ننانوے دلائل تک پہنچی اور صرف ایک دلیل باقی رہ گئی تو انہیں پسینے چھوٹنے لگے،وہ گھبرا گئے کہ اگر اس حالت میں موت آ گئی تو بغیر ایمان دنیا سے رخصت ہو جاوں گا۔ادھر یہ اسی کشمکش میں تھے کہ اللہ نے ان کے شیخ کو اس سارے معاملے پر مطلع کر دیا ، وہ اس وقت وضو کر رہے تھے ، ان کے ہاتھ میں پانی کا برتن تھا انہوں نےا سے زمین پر پٹخا اور چلا کر کہا کہ اس مردود کو یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں بغیر دلائل کے اللہ کے وجود کا قائل ہوں۔

انہوں نے یہی الفا ظ دہرائے تو شیطان کمرے سے بھاگ نکلا۔ جی ہاں یہ امام رازی اور شیطان کے درمیان مکالمہ تھا، امام رازی اپنے وقت کے بہت بڑے متکلم ،محدث اور فقیہ تھے ، ساری زندگی دین اسلام کی حقانیت کو بیان کیا لیکن جب آخری وقت آیا تو خود شیطان کے حملے کا شکار ہو گئے۔ اللہ کا کرم ہوا اور یہ شیطان کے حملے سے بچ گئے وگرنہ شیطان کی ہرممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ حالت نزع میں ہر صاحب ایمان سے اس کا ایمان چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔

اسی لیے علماء کہتے ہیں کہ اللہ سے ایمان والی موت مانگنی چاہیئے۔ یہ نہ ہو کہ ساری زندگی عبادات میں گزاری اور آخر میں ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایمان والی موت اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اور ہمیں اس دعاکو اپنے معمولات میں شامل کرنا چاہئے۔
ہم اس وقت جس نازک دور سے گزررہے ہیں اس میں جگہ جگہ ایمان لوٹنے کےا ڈے کھلے ہوئے ہیں ، جھوٹے پیر ، بنگالی بابے اور جعلی عامل، ایسی صورت میں اگر کو ئی شخص ان تمام فتنوں سے اپنا دامن بچا کر ایمان کی موت مر جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

آج کل ایسے ہی ایک پیر "لاثانی سرکار" کا بہت چرچا ہے ، یہ پیر صاحب پیری کی کس معراج پر کھڑے ہیں اور کس طرح سا دہ لوح عوام کے ایمان کو لوٹ رہے ہیں اس کا اندازہ آپ ذیل کے ان اقتباسات سے لگائیے جو ان کی کتب سےہی لیے گیے ہیں ۔ لاثانی سرکار کا اصل نام مسعود احمد صدیقی ہے اور اس کی پیدائش1960میں خانیوال شہر میں ہوئی ، اس کی جماعت کا مرکزی دفتر فیصل آباد غلام رسول نگر میں ہے ۔

یہ لوگ ہر سال سالانہ محفل کرتے ہیں جسے جشن ولادت لاثانی سرکار کا نام دیا جاتا ہے ، اس محفل کو منانے کی وجہ ان کی کتاب نوری کرنیں میں یہ لکھی ہے "ولی اللہ کا کوئی عمل بھی رضائے الٰہی کے بغیر نہیں ہوتا لہذا 1991 میں حضرت صدیقی لاثانی سرکار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو ا لوگ ہر سال برتھ ڈے مناتے ہیں ، تم ان کی مخالفت کرتے ہوئے ہرسال جولائی کی پہلی جمعرات کو جشن ولادت کے نام سے سالانہ محفل ذکرو نعت کا انعقاد کیا کرو ۔

یہ جشن ولادت تمہاری پوری زندگی میں نہایت شان و شوکت اور باوقار انداز میں منایا جانا چاہئے اور تمہارے پردہ کرجانے کے بعد اسی محفل پاک کو عرس مبارک کا نام دے دیا جائے یعنی یہ آپ کا عرس مبارک ہوگا ۔"اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ لکھا ہے "درویش کی اپنی مرضی اور ارادہ ہوتا ہے تو انتقال کرتا ہے ، جب درویش توفیق الٰہی سے مرتبہ قطبیت و غوثیت پر فائز ہوتا ہے تو تمام معاملات اس کے حضور پیش ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے ہرطرف کی خبریں ہوجاتی ہیں اور غوث کا کام دادرسی کرنا ہے وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے ۔

" اس کے مریدین کا عقیدہ ہے کہ صوفی مسعود لاثانی سرکار ہی اب ہمارا قبلہ اور کعبہ ہے اس لئے اب حج پر جانے کی ضرورت نہیں صوفی مسعود کا دیدار ہی ہمارا حج مبرور ہے۔اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں " تمام روئے زمین فقیر کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے اس لیئےفقیر کو پیروں کے نیچے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔"دوسری کتاب مرشد اکمل میں لکھتے ہیں "لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے ، ہم دور سے ان کے اعمال دیکھ لیتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی شکلیں دکھا دیتا ہے۔ جتنے لوگ یہاں موجود ہیں کسی کی شکل کتے جیسی ہے تو کسی کی بندر جیسی ، اور یہ جو تم نے اپنے چہروں پر داڑھیاں لٹکائی ہوئی ہیں ، یہ داڑھیاں نہیں جھاڑیاں ہیں جو دکھاوے کے لئے چہروں پر سجا رکھی ہیں ۔ دل میں داڑھی ہونی چاہئے ۔ اللہ چہروں کو نہیں دلوں کو دیکھتا ہے ۔ جو کوئی بات پوچھنا چاہتے ہو ہم سے پوچھ لو ، ہم سے اپنے فوت شدہ لوگوں کا شجرۂ نسب ، ان کے حالات پوچھ لے ، قبروں میں ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے ، ہم سے وہ پوچھ لے ، جو لوگ ہمارے سلسلے میں داخل ہوں گے قیامت تک آنے والے ان لوگوں کے نام ، ان کے آباؤاجداد کے نام ہم سے پوچھ لے ، ان کے نام ، ان کے والدین اور آباؤ اجداد کے نام ہمیں پتہ ہیں۔

" اپنی کتاب راہنمائے اولیا میں لکھا ہے "بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں یہ رنگ دار چیزیں فیشن کے طور پر استعمال کرتا ہوں ، میں نے یہ اپنی مرضی اور خواہش سے نہیں بلکہ اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے حکم سے شروع کیا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے میرے مالک و معبود اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : تم سرخ ، سبز ، سیاہ ، سفید ، سنہری ، گولڈن ، اور جو گیا رنگ پہنا کرو ، پھر چند سال بعد اللہ تعالیٰ شانہ‘ نے دوبارہ کرم فرماتے ہوئے ارشاد فر مایا : اپنے پرانے کپڑے اور جوتے استعمال نہ کیا کرو ، یہ تقسیم کردیا کرو ، ہم چاہتے ہیں کہ تمہارا لباس ، جوتا ، رہائش کی جگہ اور دیگر استعمال کی چیزیں برتن ، بستر وغیرہ بہت اچھے ، بیش قیمت ہوں ۔

"
مخزن کمالات میں لکھا ہے " ایک آدمی جمعہ کے دن ان کے آستانے پر آیا ، اس نے دیکھا کہ سرکار نے اپنے آستانہ عالیہ میں اکیلے ہی نماز جمعہ ادا کی اس نے کہا یہ کیسا پیر ہے جو دوسروں کو تو نماز باجماعت کی تلقین کرتا ہے خود اکیلا نماز ادا کرتا ہے ۔ اس کے بعد اس آدمی نے لنگر کھایا اور گھر چلا گیا ۔ اس رات تقریباً چار ، پانچ بجے کے قریب وہ آدمی آستانہ عالیہ پر آیا وہ بہت گھبرایا ہوا تھا ۔

لوگوں نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا مسئلہ پیش آیا تو اس نے اپنا واقعہ سنایا کہ جب میں گھر جا کر سویا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے آقا رحمۃ اللعا لمین حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تشریف لائے ، آپ ﷺ کو دیکھتے ہی میرا دل باغ باغ ہوگیا ، میں اپنے مقدر پر ناز کرنے لگا لیکن اگلے ہی لمحے میں نے جو سنا اس سے میری ساری خوشی خاک میں مل گئی ، آپ ﷺ نے فرمایا تم کون ہوتے ہو لاثانی سرکار پر اعتراض کرنے والے ، لاثانی سرکار نے تو کل نماز جمعہ ہمارے ساتھ روحانی طور پر پڑھی ہے ۔

"
یہ چند اقتباسات ہیں ورنہ پیر صاحب کی ساری کتب اس طرح کے "معجزات و کرامات" سے بھری پڑی ہیں ۔میں سمجھتا ہوں یہ اس ملک اور عوام کے ساتھ سب سے بڑی کرپشن ہے ، دنیا کا مال و اسباب یہیں رہ جائے گا لیکن اگر ایمان ہاتھ سے چلا گیا تو کچھ باقی نہیں بچے گا ، خدارا اس عوام پر رحم کریں ، دنیا تو پہلے ہی ہاتھوں سے گئی تھی اب ان کا ایمان تو نہ چھینیں ۔میری متعلقہ محکموں سے درخواست ہے کہ وہ پیر صاحب کی ان خرافات کی تحقیقات کروائیں اور عام اور سادہ لوح عوام کے ایما ن کا تحفظ یقینی بنائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :