دیوبند کی دہلیز ۔۔۔فضلائے کرام کے نام

ہفتہ 21 اپریل 2018

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

ان سطور کے پڑھے جانے تک ملک بھر میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور دینی مدارس کے اپنے امتحانات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہوگا،طلبائے کرام اپنے اپنے گھروں میں روانہ ہو کے دینی مدارس میں عارضی ویرانی کا سبب ضرور بن گئے ہوں گے،کچھ ت ویہاں سے واپسی کے بعد بھی اپنے اسی مقام پہ فائز ہوں گے،جس پہ جانے سے قبل تھے،جب کہ کچھ کی حیثیت اور مرتبہ تبدیل ہوچکا ہے،وہ اب ضیوف ِ الہٰی سے وارثانِ انبیاء علیہ السلام کی خلعت جلیلہ پہن کے علماء کی صف میں شامل ہوگئے ہیں،یہ وہ طالبعلم ہیں ،جنہوں نے اس سال دورہ حدیث والا سال جی بھر کہ اپنی طبیعت کو "محبوب "کی باتوں اور یادوں سے سیراب کیا ہے،آج کی نشست میں انہی طلبائے کرام جو ماشاء اللہ اب علماء کے سلسلة الزہب میں شامل ہو چکے ہیں ۔

(جاری ہے)

اللہ ان مناصب پہ فائز فرمائے ،جن پہ اس وقت امت کو ضرورت ہے۔
گزرے مہینے جب دینی مدارس میں دستارِ فضیلت کی تقریبات عروج پہ تھیں ،اس سال کچھ مدارس میں جانے کا اتفاق ہوا تواحباب نے تقاضا کیا کہ نئے فضلاء کی ذمہ داریوں پہ چند باتیں کی جائیں ،میں خود ایک طالبعلم،لیکن اپنے بڑوں کے حکم کے آگے سر تسلیم خم،جو معروضات ذہن میں آئیں ،انہی کے احاطہ کی آج اپنی بات کر رہا ہوں کہ جب فضلائے کرام اپنے اپنے علاقوں میں جائیں تو ساتھ کچھ نہ کچھ سوغات بھی لیتے جائیں ،لہذا اس کالم کو فضلائے کرام کی ہی سوغات سمجھا جائے،اور ان تک ان معروضات کو پہنچانے کی اپنی کوشش کی جائے۔


انسان جب ایک ادارے سے فارغ التحصیل ہو کے نکلتا ہے تو اس کو آنے والی زندگی کی شروعات پہ ایک لمحہ رک کر یہ ضرور سوچنا پڑتا ہے کہ آغاز کہاں سے کیا جائے کہ منزل تک سفر کی تکمیل آسان ہوسکے،چونکہ فضیلت جس قدر زیادہ ہوتی ہے ،زمہ داریاں بھی اسی تناسب سے ہوتی ہیں ،اور توقعات اور امیدیں بھی اسی قدر زیادہ،فضلائے کرام اب جس شعبے میں بھی جائیں ،ان نیا جہاں ان کا منتظر ہوگا،انہی دینی اداروں میں پہلے وہ طالبعلم کی حیثیت سے آیا کرتے تھے اور آج وہ ایک نئی حیثیت اور شان سے داخل ہورہے ہیں۔

اس لیئے اس سفر کے آغاز کیلئے اور زندگی میں امت کی رہنمائی کے عملی کردار کی ادائیگی کیلئے انہیں کچھ دیر کیلئے ہندوستان کے سب سے بڑے علمی مرکز اور اپنے اکابر کی مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کے دفتر میں ہونے والے اس اجلاس میں ضرور غور کرنا پڑے گا ،جس اجلاس میں آپ کے اکابر نے آپ کی سہولت اور مفاد کے مدنظر اپنے ہاتھوں سے آپ کو ایک جماعت بنا کے دی کہ اب آنے والی زندگی میں امت کی رہنمائی کا فریضہ آپ نے اسی پلیٹ فارم سے سرانجام دینا ہے۔


آپ کے علم میں یہ بات ضور ہوگی کہ آپ کے علمی ادارے کی مجلس ِ شوریٰ نے اپنی ڈیڑ ھ سو سالہ تاریخ میں صرف ایک ہی جماعت کی بنیاد رکھی ہے ،اور وہ جماعت جمیعت علمائے اسلام ہے،اور آپ فضلائے کرام اس امر سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ جمیعت علمائے اسلام کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اللہ کی زمین پہ اللہ کا نظام،جمیعت علمائے اسلام نہ صرف مصلیٰ صغریٰ سنبھالنے کا درس دیتی ہے بلکہ مصلیٰ کبریٰ پہ بھی بیٹھ کہ امت کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کی پالیسی تیار کرتی ہے،یہ وہ جماعت ہے جس میں پاکستان کے تمام اکابر،شیوخ الحدیث اور بڑے بڑے علمائے کرام نہ صرف شامل ہے بلکہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں جمیعت کا کام کر رہے ہیں ،کیونکہ یہ وہ میدان ہے جو اس وقت سب سے زیادہ کمزور ہے،یہ وہ میدان ہے جس میں آپ کو غیروں سے زیادہ اپنوں کی جلی کٹی سننا پڑتی ہیں ،لیکن طائف کا منظر مدنظر ہو،فاران کی پہاڑی پہ دیا جانے والا خطبہ توحید نگاہوں کے سامنے ہو،مکہ کی تیرہ سالہ زندگی کے شب و روز کی کتاب سامنے کھلی ہو تو یہ تکالیف بہت چھوٹی معلوم ہوتی ہیں ۔


آپ کے علم ِ دین کا اصل مقصد کیا ہےَ؟اس سوال کا جواب آپ کو اپنے مستقبل کا نقشہ بنانے میں مدد دے گا۔آپ دعوت و تبلیغ سے منسلک ہونا چاہیں ،تصنیف و تالیف کے شعبے سے آپ کا لگاؤ ہو،توحید و سنت کے میدان میں آپ آنا چائیں ،خطابت کی صلاحیتو ں کا آپ اظہار کرنا چاہیں،عصمت انبیاء علیہم السلام و ناموس اصحابِ مصطفیٰ ﷺ کیلئے آپ اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتے ہوں تو ان تمام میدانوں میں آپ کو ہماری اپنی ہی جماعتیں مل جا ئیں گی،لیکن کیا آپ ایسا پلیٹ فارم پسند نہیں کرتے جس میں ان تما م ذمہ داریوں پہ کام ہو رہا ہے،(جزو کے بجائے کل کو تھام لیں )اور ان تمام شعبوں کے بڑے بڑے نام جس پلیٹ فارم پہ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ،اور سب سے بڑی با ت کہ آئین و قانون کے دائرے کے اندار آپ کے یہ تمام کا م ہو رہے ہیں ،آپ کی نمائندگی قومی اسمبلی میں بھی ہے اور سینیٹ میں بھی،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی ایک بڑ ی تعداد آپ کی نمائندگی کر رہی ہے۔

جی ہاں ،آپ درست سمجھے ہیں ،وہی جماعت جس کی رکنیت فارم پر کرنے کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا اپنے لیئے اعزاز سمجھتے ہیں،وہی جماعت جس کی قیادت حضرت مولانا احمد علی لاہوری اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی  جیسے اکابر نے کی،وہی جماعت جس کی صرف ایک اپنا ووٹ ڈالنے کی خاطر شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اپنی بیرون ملک روانگی لیٹ کر وا دیتے ہیں،وہی جماعت جس کے ایک جلسہ (اسلام زندہ باد) کیلئے صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ اپنی جیب سے ایک لاکھ روپے چندہ دیتے ہیں،وہ جماعت جس کی صداقت پہ اتنا ہی کافی ہے کہ بڑے بڑے اکابر نے وصیت کی کہ ہمیں مرنے کے بعد جماعتی پرچم میں دفنایا جائے،اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں آپ کے مستقبل کا نقشہ بنانے کیلئے یہاں لکھی جا سکتی ہے،لیکن اس سب کا خلاصہ وہی ہے ،جو اوپر لکھا جا چکا کہ دارولعلوم کی شوریٰ نے اپنے قیام سے آج تک ایک ہی جماعت کی بنیاد رکھی ،اور وہ جماعت ہے ۔

جمیعت علمائے اسلام۔۔۔
ان سب باتوں کا خلاصہ نکالنا اب آپ کی ذمہ داری ہے،آپ کا نیا سفر ہے،آپ کو ایسا راستہ چننا ہے ،جس میں آپ اور آپ کے گھر والوں کو کسی امتحان سے دوچار نہ ہونا پڑے،وہ راستہ ،جو آئین اور قانون کے دائرے میں ہو،ایسا راستہ نہ ہو ،جس میں خواہ مخواہ کی جیل کی مقدر میں لکھ دیجائے،آپ اس وقت جہاں بھی ہیں،آپ خود اپنے مقام پہ جمیعت کے ساتھیوں تک خود پہنچیں ،اپنے اکابر سے محبت کا ثبوت دیں اور سیاسی میدان میں جہاں تک ہوسکے،اسلامی نظام کیلئے جمیعت کا ساتھ دیں۔


اس راستے پہ چلنے کا جنون آپ کو دیوبند کی دہلیز سے کبھی جدا نہیں رکھے گا،آزما لیں،اس سے پہلے کہ آپ کے ہاتھ سے وقت نکل جائے،پرچم نبوی ﷺ کے سائے تلے اپنی دینی و سیاسی اننگز شروع کر دیں۔ایک جہاں آپ کا منتظر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :