برق فروزاں سرِ وادیٴ سینا

ہفتہ 21 اپریل 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

دمشق سے زبدانی کوئی زیادہ دور نہیں ہے، اگر کار میں سفر کریں تو یہ مسافت کم و بیش دو گھنٹے کی ہے مگر دمشق اور زبدانی کے موسم میں بہت فرق ہے۔ جون، جولائی کے مہینوں میں جب دمشق میں خوب گرمی پڑ رہی ہوتی ہے تو زبدانی میں خنکی اور ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ اس موسمی فرق کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ زبدانی قدرے بلند پہاڑی علاقہ ہے۔ انہی بل کھاتی پہاڑیوں کی ایک چوٹی پر حضرت ہابیل کی قبر ہے۔

ہابیل جو فرزندِ آدم اور اپنے سگے بھائی قابیل کے ہاتھوں قتل ہوئے، نسلِ انسانی کے پہلے مقتول ہیں۔ حضرت ہابیل کے مقبرے سے نکل کر دیکھیں تو ایک طرف اسرائیل کی پہاڑیاں صاف نظر آتی ہیں اور دوسری طرف لبنان کے پہاڑی سلسلے۔ بلامبالغہ، اگر آپ صبح کے وقت عازم سفر ہوں تو شام تک یہاں سے پیدل اسرائیل اور لبنان سے ہوتے ہوئے واپس ملکِ شام میں پہنچ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہاں! اس سفر کی اجازت آپ کو اگر نہیں مل سکتی تو یہ خالصتاً ایک سفارتی معاملہ ہے۔
ہابیل جہاں قتل ہوئے، اسی پہاڑی پر اسرائیل اور لبنان کی طرف رخ کر کے میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ سرسبز و شاداب پہاڑیوں کا یہ جنت نظیر خطہ اس قدر متشدد کیوں ہے؟ مقامی لوگوں سے بات چیت کر کے دیکھیں تو شیریں دہن اور حد درجہ مہمان نواز ہیں، تاریخ اور حال پر نظر دوڑائیں تو خون کی ایک طویل لکیر، لہو کی اک موج مسلسل رواں دواں ہے۔

سیاہ لباس اور کلاہ میں ملبوس گھنی سفید داڑھی والے ایک عیسائی راہب سے میں نے یہی سوال پوچھا تھا کہ اس کبھی نہ تھمنے والی خون ریزی کا سبب کیا ہے؟ شفیق مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اس عراقی نژاد، شامی آرتھوڈوکس مسیحی بزرگ نے ایک لمحے کے لیے سوچا، کچھ توقف کے بعد کہنے لگا کہ اس سرزمین پر خدا کے پیغمبروں کا ناحق خون بہایا گیا ہے، یسوح مسیح کو یہاں مصلوب کیا گیا ہے، یہ ان مظلومین کے لہو کا اثر ہے۔

آج کی خون آشامی کی جڑیں ماضی میں بہت گہرائی میں موجود ہیں۔ اس راہب کا تو کہنا تھا کہ یہاں کبھی بھی امن قائم نہیں ہوگا، اس دھرتی پر نظر آنے والا تشدد مظلوموں کے خون کی تاثیر ہے۔
ٹوکیو میڈیکل یونیورسٹی میں نیوروفزیالوجی پڑھانے والا میرا دوست پروفیسر میرے اس سوال کو سائنسی انداز میں دیکھتا ہے۔ نیوروفزیالوجی کے شعبے کو آپ دماغ کی ساخت اور افعال کے مطالعے کا نام دے سکتے ہیں۔

یہ نیم ملحد پروفیسر پیغمبروں کی سرزمین میں جاری تشدد کی لہرکو طب کی زبان میں ”مرّرنیورو“ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کی وضاحت وہ یوں کرتا ہے کہ جب ہم کسی عمل کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں یا کسی شخص کو کوئی بھی فعل سرانجام دیتے ہوئے کا منظر ہماری نظروں سے گزرتا ہے تو ہمارے دماغ میں بھی اس عمل سے متعلق خلیے حرکت میں آ جاتے ہیں۔

جب ہم درد میں مبتلا زخمی یا دکھی افراد سے ملتے ہیں تو ہمارے دماغ کے اندر درد، تکلیف اور دکھ سے متعلق خلیئے حرکت میں آ جاتے ہیں جن کے سبب ہم میں ایسا منظر دیکھ کر جذبہٴ رحمی پیدا ہوتا ہے، ترحم اور ہمدردی کے علاوہ دل پسیج جانا اور رنج و غم میں مبتلا ہو جانے کی وجہ بھی یہی ہے۔ کسی کو روتے دیکھ کر غدودِ گریہ سے آنسوؤں کا اخراج بھی ”مرّرنیورو“ کی ایک مثال ہے۔

ماہرین نفسیات و طب کے نزدیک ڈرٹی پکچرز کے متعلق بھی یہی معاملہ کارفرما سمجھا جاتا ہے۔ غرض اگر معاشرے میں تشدد پھیل جائے تو پھر پرتشدد اور خون خرابے پر مبنی مناظر دیکھنے سے تشدد اور خون ریزی سے متعلق دماغی خلیے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں، نتیجتاً سماج میں متشدد رویے پروان چڑھتے ہیں۔ پروفیسر کی بات اس لیے کچھ دل کو لگتی ہے کہ اس سے ہمارے فوک وزڈم کو، جس میں بچوں کو بُری محفل اور بری صحبت و سنگت سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے، ایک سائنسی اور خالصتاً طبی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔

روسی زبان میں مثل مشہور ہے کہ ”مجھے تم اتنا بتا دو کہ تمہارا دوست کون ہے؟ میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کون ہو۔“
دمشق کی جامعہ بنی امیہ جسے امیہ مسجد بھی کہا جاتا ہے، اس کے مرکزی ہال میں داخل ہوں تو پندرہ، بیس فٹ کی اونچائی پر یزید کا تخت نظر آتا ہے،تخت کے سامنے وہ مقام ہے جہاں کربلا سے لائے گئے قیدیوں کو سن 61ہجری میں کھڑا کیا گیا تھا، اس مقام کو مسجد کے فرش کی عمومی سطح سے قریباً ایک فٹ اونچا تعمیر کر کے اردگرد باڑ لگا دی گئی ہے، یہیں کھڑے ہو کر سیدة زینب نے دربارِ یزید سے اپنا تاریخی خطاب کیا تھا۔

چند قدم ادھر خدا کے سچے پیغمبر یحییٰ کا سرمبارک دفن ہے، یحییٰ علیہ السلام، جنہیں عیسائی دنیا جان دی بیپٹسٹ کے نام سے جانتی ہے، عیسائیوں میں بتسمہ کی رسم انہی سے منسوب ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کزن ہونے کے علاوہ یسوع مسیح کی رسمِ بتسمیہ بھی انہی نے ادا کی تھی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا دھڑ یروشلم میں دفن ہے، بعض روایات کے مطابق انہیں قتل کرنے کے بعد جسد آخرکار مصر میں اور سر مبارک کاٹ کر دمشق میں مقام مذکورہ پر دفن کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ مسجد امیہ مسلمانوں کی آمد سے قبل مسیحی گرجا گھر تھا، کئی برس تک یہ مقام مسلمانوں اور عیسائیوں کی مشترکہ عبادت گاہ رہا۔ ولید بن عبدالمالک نے جب مسجد کی تعمیرنو کی تو ساتھ ہی اسے فقط مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا مگر اب بھی روزانہ دنیا بھر سے عیسائی زائرین مسجد میں مقامِ یحییٰ کی زیارت کے لیے کثیر تعداد میں آتے ہیں۔
مسجد کے صحن میں داخل ہوں تو دائیں طرف امام زین العابدین کا زندان ہے۔

کربلا معلی سے امام حسین کا سر کاٹ کر لشکر یزید اپنے ہمراہ دربار میں پیش کرنے کے لیے لے آیا تھا۔ یزید کے حکم پر راس الحسین کو امام زین العابدین کے اسی زندان میں دفن کیا گیا، مقصد شاید عبرت دلانا ہو، اب یہ مقام انہی کے نام سے منسوب ایک چھوٹی سی مسجد ہے، لوگ راس الحسین کی زیارت کے بعد یہاں نوافل ادا کرتے ہیں۔ جامع بنی امیہ کے احاطہ سے باہر نکلتے ہی ایک طرف صلاح الدین ایوبی کا مزار ہے تو دوسری طرف امام حسین کی چار سالہ بیٹی سکینہ کا روضہ ہے، جو دورِ یزید میں روایت کے مطابق بی بی سکینہ کا زندان ہوا کرتا تھا، معصومہ کی شہادت کے بعد یہی مقام ان کا مدفن بن گیا۔

سرِوادیٴ سینا ظالم اور مظلوم اب بدل گئے ہیں، نئے دور نے نئے ظالموں کو جنم دیا ہے اور مظلومین بھی تبدیل ہو چکے ہیں مگر خون ریزی قابیل کے ہاتھوں یہاں پہلے انسانی قتل سے لے کر آج کے دن تک جاری و ساری ہے۔ بہت عجیب و غریب مقدر ہیں اس دھرتی کے، کہ جس کے چپے چپے پر پیغمبروں کے قدموں کے آثار ہیں اور ذرّے ذرّے پر انسانوں کے ناحق خون کے چھینٹے پڑے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :