ڈی سی گوجرا نوالہ کی خودکشی!

پیر 9 اپریل 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

شکیب جلالی اردو شاعری کا بڑا نام ہیں ، ان کا اصل نام سید حسن رضوی تھا،یہ یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ کے قصبے جلال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بدا یون میں ملازمت کرتے تھے،یہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور سارے گھر کا ماحول تناوٴ کا شکار رہتا تھا،شکیب جلالی کی والدہ ساری زندگی یہ کشمکش برداشت کرتی رہیں لیکن زندگی کے آخری ایام میں یہ جنگ ہار گئیں ، وہ گھر سے نکلیں ،ریلوے لائن پہنچیں اور ٹرین کے آگے لیٹ کر خود کشی کر لی ۔

شکیب جلالی اس وقت دس سال کے تھے ، انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ دس سال کی عمر میں یہ صدمہ دیکھا اور یہ صدمہ ہمیشہ کے لیے ان کے ذہن پر نقش ہو گیا۔وہ ساری زندگی اپنی ماں کی المناک موت کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکے، اسی دکھ اور صدمے نے انہیں پندرہ سال کی عمر میں شاعر بنا دیا ۔

(جاری ہے)

یہ پندرہ سال کے تھے جب انہوں نے شاعری شروع کی اور بڑے بڑے شاعروں کو حیران کر دیا۔

یہ قیام پاکستان کے بعدہجرت کر کے راولپنڈی منتقل ہوگئے۔کچھ عرصے بعد لاہور شفٹ ہوئے اور یہاں سے جاوید نام کا ایک رسالہ نکالنا شروع کر دیا۔رسالہ نہ چل سکا تویہ ایک اخبار میں ملازم ہوگئے اور آخر میں تعلقات عامہ کے محکمے میں ملازمت مل گئی ۔ ملازمت کے بعد یہ سرگودھا شفٹ ہو گئے، یہ یہاں بھی مطمئن نہیں تھے، والدہ کی خودکشی کا منظر ابھی تک ذہن سے محو نہیں ہوا تھا ، یہ ایک دن سرگودھا کی سڑکوں پر نکلے اور ریلوے لائن پہنچ گئے، یہ ابھی صرف بتیس سال کے تھے جب انہوں نے سرگودھا ریلوے اسٹیشن کے پاس ٹرین کے سامنے کود کر خودکشی کر لی۔

بظاہر خوش باش، انتہائی حساس اور سنجیدہ دکھائی دینے والاشکیب جلالی صرف بتیس سال کی عمر میں زندگی کی بازی ہا ر گیا۔شکیب جلالی کا واقعہ مجھے کیوں یا د آیا اس کی وجہ ڈی سی گوجرانوالہ کی خود کشی ہے،ڈی سی گوجرانوالہ سہیل احمد ٹیپو ایک سلجھے ہوئے اور ایماندار افسر تھے، میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے خود کشی کیسے کر لی ، صرف میں ہی نہیں بلکہ ان سے ملنے اور تعلق رکھنے والے ہر انسان کے لیے ان کی موت ابھی تک معما بنی ہوئی ہے۔

میں ان کے دوستوں اور ان کے ماتحت کام کرنے والے جتنے بھی افراد سے ملا سب کا یہی کہنا تھا کہ وہ ایسے انسان نہیں تھے۔لیکن ان کی موت کی جو حتمی رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں باضابطہ طور پر ان کی موت کو خود کشی قرار دے دیا گیا ہے۔میں جب ان کی زندگی اور خودکشی پر نظر دوڑاتا ہوں تو پریشان اور الجھن کا شکارہو جاتا ہوں ،میں ان کی زندگی کے چندواقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں مجھے یقین ہے ان واقعات کے بعد آپ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


سہیل ٹیپو ضلع ساہیوال کی تحصیل عارفوالاسے تعلق رکھتے تھے ، والدین دونوں ٹیچر تھے اور اپنا پرائیوٹ سکول بنا رکھا تھا ، والد اقبالیات کے ماہر تھے اور اس کا اثر سہیل ٹیپو پر بھی دکھائی دیتا تھا۔ لاہور میں موں کے پاس رہ کر سی ایس ایس کیا اور سول سروس میں آ گئے ، یہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری تھے ،وزیر اعلیٰ نے انہیں کوئی اسائنمنٹ دی ، انہوں نے قلم کاغذ پکڑا اور نوٹس بنانے کے لیے ایک کمرے میں بیٹھ گئے، چوکیدار کو بلایا اور کہا مجھے کوئی ملنے آئے تو کہنا میں مصروف ہوں ، تم باہر سے تالا لگا دو اور اپنا فون آن رکھنا ، میں جب فری ہو جاوٴں گا تو تمہیں کال کر دوں گا تم دروازہ کھول دینا۔

چوکیدار نے تالا لگا دیا اور کچھ دیر تک کمرے کے باہر بیٹھا رہا، تھوڑی دیر بعد وہ چائے پینے کے لیے دوستوں کے پاس چلا گیا، وہاں بیٹھے بیٹھے اسے یا دنہیں رہا او ر وہاں سے اٹھ کر سیدھا گھر چلا گیا، تقریبا دو گھنٹے بعد سہیل ٹیپو نے کال کی کہ دروازہ کھول دو ، ملازم کے ہاتھ پیر پھول گئے اور اس نے بتایا سر میں تو گھر آ چکا ہوں ، اس نے معذرت چاہی کہ سر میں ابھی آتا ہوں ، اسے آنے میں تقریباآدھا گھنٹہ لگنا تھا لیکن سہیل ٹیپو نے منع کر دیا کہ چلیں کوئی بات نہیں آپ مت آئیں، کمرے کے ساتھ واش روم تھا ، کسی دوسرے دوست کو فون کیا کہ زرا واش روم کا دروازہ کھولواور اس طرح وہ کمرے سے باہر آئے ۔

اگلے دن ملازم کو ایک حرف تک نہ کہا۔ ٹیچر اور استاد کا اتنا ادب تھا کہ وزیر اعلیٰ ہاوٴس میں بھی اور اس کے علاوہ جہاں بھی پوسٹنگ ہوئی اپنے اسٹاف کو کہہ رکھا تھا ، اگر کوئی ٹیچر یا استاد آئے اسے روکنا نہیں ، میں جتنا بھی مصروف ہوں مجھے بتا دیں ، اگر کال ہو تو پہلے مجھے لائن پر لینا ہے بعد میں استاد کو۔ میرے ایک دوست جو پنجاب سیکرٹریٹ میں ہوتے ہیں ، وہ سہیل ٹیپو کے بہت قریبی تھے ، بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا ، گرمیوں کا موسم تھا اور سخت گرمی تھی، میں کافی دیر تک ان کا انتظا ر کرتا رہا لیکن وہ نہ آئے ۔

آدھے گھنٹے بعد اندر سے نکلے اور آتے ہی معذرت چاہی کہ میں والد کو غسل کر وا رہا تھا ، والد صاحب انتہائی ضعیف ہیں اور وہ خود واش روم تک نہیں جا سکتے لہذا ساری دیکھ بھال میں خود ہی کرتا ہوں ، ملازمین تو موجود ہیں لیکن میں والد صاحب کو ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا ۔ ان کے والدکامہروں کا آپریشن ہوا تھا جس میں ڈاکٹروں نے پیشاب کی نالی کاٹ دی تھی ، پیشاب کا مسئلہ رہتا تھا اور نماز بھی تیمم سے پڑھتے تھے ۔

سہیل ٹیپو کاروزانہ کا معمول تھا کہ صبح جب دفتر آتے تو والد صاحب کو پیمپر لگا کر آتے ، دوپہر کھانا کھانے گھر جاتے تو پیمپر بدل دیتے اور شام کو جب گھر آتے تو پھر پیمپر بدلتے ۔ سہیل ٹیپو کی والدہ کچھ سخت مزاج تھیں ، ملازمین کو ڈانٹ دیا کرتی تھیں تو اپنے سارے سٹاف کر کہہ رکھا تھا اگر والدہ سخت سست کہہ دیں تو ان کے سامنے آپ نے زبان نہیں کھولنی ، وہ جو کچھ کہیں خاموشی سے سن لیں اور بعد میں اس کا بدلہ آپ مجھ سے لے لیں ۔

مجھے جو کچھ کہنا ہے کہہ دیں ۔
2010میں سیلا ب آیا تو جنوبی پنجاب سب سے ذیادہ متاثر ہوا، تحصیل جامپوراسی فیصد تباہ ہو گئی تو وزیر اعلیٰ نے انہیں بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا نگران بنا کر بھیجا ، یہ کل سات ضلعے بنتے ہیں ، یہ ساتوں ضلعوں میں سرگرم رہے اور دن رات ایک کر دیا ، یہ گندے پانے سے گزرنے کی وجہ سے جلد کی بیماری کا شکار ہو گئے ، ساتھیوں نے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا تو کہا ہم یہاں ڈلیورکرنے آئے ہیں اور ہمیں یہ کام کرنا ہے ۔

بعد میں چھ ماہ تک سکن سپیشلسٹ سے علاج کروایا تب جا کر جلد ٹھیک ہوئی۔ ملازمین میں سے کسی کا ایک روپیہ نہیں رکھتے تھے ، اگر کبھی کوئی چیز منگوائی تو دس روپے اوپر دے دیئے لیکن کسی ملازم کا ایک روپیہ نہیں لگنے دیا ، سرکاری سہولیات کا صرف جائز استعمال کیا اور کبھی پروٹوکول کے چکر میں نہیں پڑے۔ دوران ملازمت رشوت تو دور کبھی کسی سے ہدیہ اور گفٹ تک قبول نہیں کیا ۔

ایک دفعہ لیہ کے ایک ایم پی اے عمرہ کر کے آئے تو ایک موبائل انہیں گفٹ کیا ، یہ شش پنج میں تھے قبول کریں یا نہ، اگلے دن وزیر اعلیٰ کی میٹنگ میں بیٹھے تھے کہ وہ ایم پی اے بھی آگئے، وہ کل والا واقعہ وزیر اعلی کے نوٹس میں لے آئے تو انہوں نے اجازت د ے دی کہ چلو رکھ لو۔ ایک بار دوستوں نے کہاکہ آپ فلاں کام کر دیں ورنہ آپ کا ٹرانسفر کر دیا جائے گا تو کہا میں تو پہلے ہی افسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہوں لیکن میں غلط کام نہیں کروں گا۔ قصہ مختصر !ان سارے واقعات کے بعد اگر ذوالفقار چیمہ جیسا ایماندار افسر ان اپنے کالم میں ان کی گواہی دے رہا ہے اور تجہیز و تکفین تک کے سارے عمل میں شامل رہا تو کم از کم میرے لیے تو ان کی موت ابھی تک ایک معما بنی ہوئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :