ووٹ کو عزت دو

پیر 9 اپریل 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

نواز شریف کے حالیہ بیانیئے کی وجہ سے اس معاشرے میں دو بڑے واضح طبقے وجود میں آ گئے ہیں۔ ایک طبقہ ووٹ کو عزت دینے کامطالبہ کر رہا ہے اور دوسرا ہر قیمت پر ووٹ کی تضحیک چاہ رہا ہے۔ اس نظریاتی تقسیم میں اب جماعتوں اوراداروں کی تخصیص نہیں رہی۔ اب تقسیم صرف جمہوری اور غیر جموری سوچ کی ہے۔ خود سوچئے ۔ رضا ربانی ، فرحت اللہ بابر، حاصل بزنجو اور عثمان کاکڑ کی جماعت مسلم لیگ ن نہیں ہے۔

لیکن ان کا بیانیہ جمہوری ہے۔ وہ کسی بھی جماعت میں ہوں وہ اسی طبقے میں شمار ہوں گے جو ووٹ کی تقدیس کی بات کر رہا ہے۔ اسی طرح اگر انصاف کے در پر دستک دیں تو جسٹس دوست محمد، ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ،کوہاٹ ،احمد سلطان ترین اور جسٹس فائز عیسی کا شمار بھی انہی لوگوں میں نظرآتا ہے جو سول سپریمیسی کیس قائل ہیں۔

(جاری ہے)

جو پارلیمان کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں۔

جو غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہتے ہیں۔ جیو اور جنگ تو جمہوریت پر یقین رکھنے کی سزا اٹھا ہی رہے ہیں مگر کچھ ایسے صحافی اور اینکر اور بھی ہیں جن کا تعلق جیو اور جنگ سے نہیں ہے مگر پھر بھی وہ جمہوریت کی شمع اپنی، اپنی بساط کے مطابق جلا رہے ہیں۔ اب یہ نظریاتی تقسیم، نشریاتی اداروں سے ماورا ہو گئی ہے۔صحافیوں ، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں میں بھی یہ تقسیم بہت واضح نظر آتی ہے۔

اگر چہ جمہوریت کے نام لیوا چند ایک ہی ہیں مگر ان کی بات اثر رکھتی ہے۔سیاسی جماعتوں میں بھی اب یہی تقسیم رہ گئی ہے۔ نام کچھ بھی ہو پارٹی کا منشور کچھ بھی کہتا رہے۔ پارٹی کا جھنڈا کسی بھی رنگ کا چاہے کیوں نہ ہوں لوگ اب پارٹیوں کو بھی نظریات کی بناء پر پرکھ رہے ہیں۔ عمران خان اور پیپلز پارٹی کا موجودہ بیانیہ جمہوریت کے حق میں نہیں ہیں۔

سینیٹ کے الیکشن میں کی جانے والی کھلم کھلا دھاندلی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ایمپائر کی انگلی کا انتظا ر اس کاواضح ثبوت ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ہونے والی یکدم تبدیلی اس اس غیر جمہوری بیانیئے کا اعتراف ہے۔سنجرانی کا سینیٹ چیئر مین بننا اس المیے کی طرف نشاندہی ہے۔
دوسرا طبقہ فکر وہ ہے جو جمہوریت کی حرمت کوتسلیم کرنے سے قاصر ہے۔

چوہدری نثار کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے مگر انکی سوچ اب جمہوریت پسندی کا ساتھ نہیں دے رہی۔ مفاہمت اب وقت کا تقاضہ نہیں رہی ہے۔ غیر جمہوری اداروں سے خفیہ ملاقاتوں کا اب وقت گذر چکا ہے۔ اب بات سیاہ اور سفید جتنی واضح کرنی ہو گی۔بین بین گفتگو کا مرحلہ گذر چکا ہے۔ پانچ جج جن کا ذکر بار بار نواز شریف کرتے ہیں انکی سوچ بقول نوازشریف جمہوری نہیں کہی جا سکتی۔

نواز شریف کے مطابق انہوں نے جمہوریت پر شب خون مارا ہے۔ ووٹ کی توہین کی ہے۔ پارلیمان کا مذاق اڑایا ہے۔اسی طرح میڈیا میں بہت سے ایسے ہیں جو جنرل مشرف کے دور کی یاد میں آہیں بھرتے ہیں۔ جنکو ہر خامی جمہوریت میں ہی نظر آتی ہے۔ جن کا مطمع نظر کسی نہ کسی طرح مارشل لاء کا ظہور پذیر ہونا ہے۔ہر شام ایسے اینکر جمہوریت کا نوحہ پڑھ کر ہی شاد کام ہوتے ہیں۔

ان کو عوام کی منتخب کردہ حکومتوں میں بس کیڑے ہی کیڑے نظر آتے ہیں۔ ایسے تجزیہ کار بھی ہیں جن کا مقصد ہر پروگرام میں، ہر چینل پر لوگوں کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ عوام کا فیصلہ غلط ہے۔ جمہوریت کرپشن کا نیا نام ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بہانہ ہے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ عوام کے حق حاکمیت کی کوئی دلیل ایسے تجزیہ کاروں کو متاثر نہیں کر سکتی۔ان کے ہیرو جنرل مشرف ہی رہیں گے اور ان کے امیر المومنین ضیاء الحق ہی کہلائیں گے۔


اس نظریاتی تقسیم کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ جمہوریت کا علم بلند رہتا ہے یا غیر جمہوری اداروں قوتوں کا بیانیہ پر اثر رہتا ہے اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ جب آج کے دور کی تاریخ لکھی جائے تو آپ کا ووٹ کس طبقہ فکر کے پلڑے میں ہو گا؟ کیا آپ ان لوگوں میں شمار ہونا چاہیں گے جو جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے رہے یا پھر آپ ان لوگوں کی قطار میں کھڑے رہنا پسند کرتے ہیں جو آمریت کے دلدادہ رہے۔

کیا آپ ان میں شامل ہیں جو غیر جمہوری قوتوں کے نمائندے بنے رہے ،دل ہی دل میں مارشل لاء کو راہ نجات قرار دیتے رہے؟ آپ سول سپریمیسی کے حق میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟ یا نادانستگی میں آمریت کی راہ میں پھول بچھا رہے ہیں۔ کیا آپ اس ملک کو ترقی کی سمت بھیجنے والوں کے ساتھ تھے؟ یا دہائیوں کی تاریکی مسلط کر دینے والوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے تھے۔


ان سارے دلائل کے باوجود اس ملک میں ایک طبقہ ہے جو بالکل بھی نظریاتی طور پر منقسم نہیں ہے۔ یہ طبقہ اس ملک کے مفلوک الحال عوام کا طبقہ ہے۔ان کے ہاں نواز شریف کے بیانیے کے لیئے صرف اور صرف اثبات ہی موجود ہے۔ اکیس کڑوڑ لوگوں پر مشتمل اس طبقے کی آواز دبانے کے لئے ماضی میں کیا کیا جتن نہیں کیئے گئے۔ کبھی ان کے منتخب نمائندوں کو پھانسی دے دی گئی کبھی ان کے رہنماوں کو غدار اور کافر قرار دے دیا گیا۔

کبھی ان کا ہیرو سولی پر لٹک گیا کبھی انکا لیڈر جلا وطن کر دیا گیا۔ کبھی کسی کو چوک میں گولی مار دی گئی اور کبھی کسی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔نواز شریف کا موجودہ بیانیہ ان اکیس کڑوڑکے لئے جادوئی اثر رکھتا ہے۔ ان لوگوں کو پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ ان کے وجود کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ان کی تعداد کے بھی کچھ معنی ہیں۔نواز شریف نے ان اکیس کڑوڑ لوگوں کو ان کے ہونے کا احساس دلا یا ہے۔

اس بات میں کوئی باک نہیں ہے کہ لوگوں نے نواز شریف کے بیانیے پر پوری شدت سے لبیک کہا ہے۔جو سفر جی روڈ سے شروع ہوا ہے اسکے اثرات لودھراں تک دیکھے گئے ہیں۔ اس سے پہلے صرف ایک دفعہ پاکستان کی تاریخ میں لوگوں کی سوچ کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ یہ وکلاء تحریک کا زمانہ تھا۔ ایک ڈکٹیٹر نے ایک چیف جسٹس کوکھڑے کھڑے برخواست کر دیا تھا۔ وکلاء تحریک میں عوام ڈکٹیٹر کے بیانیے کے خلاف سڑکوں پر نکلی۔

ڈنڈے کھائے ، گولیوں سے جسم چھلنی کروائے مگر اپنی بات پر قائم رہے۔ دباوء اتنا بڑھا کہ ناچاہتے ہوئے بھی جنرل کیانی کو دو ہنگامی میٹنگز آصف زرداری سے کرنا پڑیں اور نواز شریف کا قافلہ گوجرانوالہ پہنچے سے پہلے پہلے ہی افتخار چوہدری کی بحالی کا پروانہ سامنے آگیا۔ اس بحالی میں سارا کریڈٹ اس ملک کے عوام کو جاتا ہے۔
2018 کے عام انتخابات کا موقع بھی دور نہیں ہے۔

اس موقع پر عوام نے اپنی رائے کا ا ظہار کرنا ہے۔ عوام کیا سوچ رہے ہیں کیا چاہ رہے ہیں اس کا ظہار ہر ضمنی انتخاب میں ہو چکا ہے۔ نواز شریف کے جلسوں میں عوام کی بڑھتی تعداد ایک طرح کا ریفرینڈم ہے جو نوشتہ دیوار بن کر سامنے آ چکا ہے۔ غیر جمہوری قوتیں پوری شدت سے اس منظرنامے کو بدلنے کے درپے ہیں۔ لیکن اکیس کڑوڑ لوگوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔

اکیس کڑوڑ لوگوں کو سینیٹ الیکشن کی طرح خریدا نہیں جا سکتا ۔ اکیس کڑوڑ لوگوں کی سوچ کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ اس دفعہ کے
عام نتخابات میں اگر غیر جمہورسی قوتوں نے اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کی، تو نتائج بہت الم ناک ہوں گے۔ اب اکیس کڑوڑ لوگوں کو اس بات کا ادارک ہو چکا ہے کہ پاکستان کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے کا واحد طریقہ یہی ہے ووٹ کو عزت دو۔ عوام جانتے ہیں یہی راستہ ہے اور یہی منزل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :