میرا جسم میری مرضی (عورت راج)

جمعرات 5 اپریل 2018

Hussain Jan

حُسین جان

کام پر بیٹھے ہوں تو اکثر کچھ خواتین گو دمیں ایک عاد جواک (بچہ) لیے آتی ہیں اور اللہ کے نام پر کچھ رقم کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ کام میں گزشتہ سات سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔ دُکان پر بہت سے کاریگر بھی بیٹھے ہوتے ہیں پر کبھی کسی نے ان مانگنے والی عورتوں کو یہ نہیں کہا کہ کچھ پیسے لے لو اور ہمارا بستر گرم کردو۔ سچ بات تو یہ کے کبھی ان عورتوں نے بھی ایسا اشارہ نہیں کیا۔

اگر کچھ دے دیں تو لے کر چلتی بنتی ہیں۔ اگر نہ دیں تو پھر بھی نہیں ٹھہرتیں فورا اگلی جگہ چلی جاتی ہیں۔
آج کل عورت راج کی بات ہو رہی ہے۔ یہ دراصل عورتیں نہیں کچھ خاص کماش کی لڑکیاں ہیں جو کسی مخصوس مقصد کی خاطر پیچھے سے راستہ مانگ رہی ہیں۔ دو لڑکیاں اپنے دائیں بائیں دولڑکوں کو کھڑا کرکے بیک سے تصویر بنواتی ہیں۔

(جاری ہے)

بدن کے ایک مخصوص حصے میں لال رنگ لگا رکھا ہے۔

پتا نہیں وہ اس بات سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر تو وہ شادی شدہ ہیں تو ہوسکتا ہے ایسی حالت میں میاں اُن کے ساتھ زبردستی کرتے ہوں۔ ویسے وہ شادی شدہ لگتی تو نہیں اس لیے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ بوائے فرینڈ زبردستی کرتا ہو گا۔ کیونکہ ایسی لڑکیوں کے بوائے فرینڈز میں 90فیصد عادات عورتوں والی پائی جاتی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اسلام میں عورت کے مخصوس ایام میں کچھ اسلامی اور شرعی کام کرنے کی ممانت ہے۔

ویسے بھی عورت راج کی خواتین مذہب بیزار ہیں۔ لہذا اُن کو تو ویسے بھی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ کچھ لوگ اسلام پر تنقید کرتے ہیں کہ دُنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور مسلمان چھوٹے چھوٹے مسائل کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے عرض کر دوں کہ دُنیا میں آج تک کوئی بھی بشپ یا پادری سائنسدان نہیں بنا۔ اُن کا کام مذہب کی تبلیغ اور اُس کے مطابق مسائل کا حل بتانا ہوتا ہے۔

باقی لوگ دُنیاوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے عالم ہی لوگوں کو ایسے مسائل بتاتے ہیں۔ اُنہوں نے کبھی کسی کو سائنسدان بننے سے نہیں روکا۔ اگر کوئی مسلمان چاند پر جانا چاہے تو شوق سے جاسکتا ہے۔ اُس کے لیے مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
پھر کہا گیا میرا جسم میری مرضی۔ چلیں مان لیتے ہیں آپ کا جسم آپ کی مرضی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سے ہر بندہ جسم استعمال کرنے کی اجازت مانگ سکتا ہے یہ الگ بات ہے آپ بعد میں منع کردیں۔ لیکن کیونکہ جسم آپ کا ہے لہذا پوچھا ضرور جاسکتا ہے۔ کسی دوست نے کہا ہے ان خواتین کا پسندیدہ مصنف منٹو ہے۔ ہم نے بھی منٹو پڑھ رکھا ہے اور کافی پڑھ رکھا ہے۔ کالی شلوار ، اُلٹی شلوار، ٹھنڈا گوشت اور اس جیسے بہت سے افسانے پڑھ رکھے ہیں۔

چلیں وہ وہی لکھتا ہے جو دیکھتا ہے ، مان لیتے ہیں حقیقت نگار ہے۔ اُس کے ایک افسانے میں جب مرد مفاد کے لیے دوسری عورت وکو اُلٹی شلوار پہنا دیتا ہے تو بدلے میں اُس کی بیوی بھی ویسے ہی شلوار پہن آتی ہے۔ تو بھائی اگر مرد ضرورت کا فائدہ اُٹھا رہا ہے تو دوسری طرف عورت بھی تو پروموشن کی خاطر شلوار اُتارنے پر راضی ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی عورت راج کی۔

اللہ بخشے جب تک والد زندہ تھے والدہ کے زیر اثر ہی رہے اور یہی حالت اپنی ہے۔ میاں بیوی جیسے مقدس رشتے میں بندھے ہونے کے باوجود آج تک بیگم کی مرضی کے بغیر کچھ کرنا محال ہے۔ جب رات کے کھانے کے لیے کچھ خاص خریدا جائے تو دوست احباب سمجھ جاتے ہیں آج کچھ ہونے والا ہے۔ تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے بیوی کو خوش کرنا پڑتا ہے پھر آپ کی باری آتی ہے۔

آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں سب گھروں میں عورت راج ہی نظر آئے گا۔ اس عورت راج کا مطلب غلط نکالاجاتا ہے۔ جب کے حقیقت میں عورت کو عزت دی جاتی ہے۔ اسلام میں عورت کو خاص مقام حاصل ہے۔ اسلام عورت کو کھلونا نہیں سمجھتا۔ ہاں کچھ لوگوں کے ذاتی عمل کو اسلام کے ساتھ جوڑنا غلط بات ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں عورتوں پر ظلم بھی ہوتے ہیں مگر یہ ظلم کسی بھی معاشرئے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔

عورت اگر اپنے جسم پر اتراتی ہے تو اس جسم کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عدد مرد اپنے جسم کی قربانی دیتا ہے۔ صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتا ہے تاکہ بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرسکے۔ ایسے میں چند لونڈیاں نئی سائیکلوں پر بیٹھ کر سائیکلوں جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ مجھے بس کوئی یہ سمجھا دے اُن کے مطالبات کیا ہیں۔ اگر اُن کو چھیڑا جاتا ہے تو ہم نے اکثر دیکھا ہو گا خواتین کو چھیڑنے والے لفنگوں کی بھرے بازار ہی درگت بنا دی جاتی ہے۔

اگر اُن سے زبردستی کی جاتی ہے تو معاشرہ اور قانون سخت سزا دیتا ہے۔ یعنی ہرحال میں خواتین کو عزت حاصل ہے۔ تو ایسے میں معاشرئے میں انتشار پھیلانے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔
ایسے میں اس طرح کی مہم چلانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ صرف اور صرف ملک میں انتشار پھیلانا۔ مذہب کو بدنام کرنا تاکہ عالمی سطح پر ایسے لوگ خود کو بیچ کر نام اور پیسہ کماتے ہیں۔

یہ ہر وہ عمل کرتے ہیں جس سے ملک و قوم کی بدنامی ہو۔ ان معاملات میں لبرل طبقہ سب سے آگے ہے۔ ہمارے ہاں کا لبرل طبقہ صرف نکر (کچھے) کو ہی لبرل ازم سمجھتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ کسی بھی چیز کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا نام ہی لبرل ازم ہے۔ برداشت کرنا اور دوسرئے کے موقف کو اہمیت دینا ہی اصل لبرل ازم ہے۔ لہذا جو خواتین عورت راج کے لیے سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی ہیں اُن سے گزارش ہے کہ اُن کا راج تو پہلے سے ہی قائم ہے ۔ بس خود کو اُس قابل بنانے کی ضرورت ہے۔ جب پرس میں پانچ پانچ بوائے فرینڈز لے کر گھومیں گی تو راج تو قائم نہیں ہو گا ہاں البتہ آ پ نمائشی گڑیا ضرور بن جائیں گی۔ اپنے آپ کو پہنچانے اور عزت کروائیں۔ کہ اسی میں سب کی بقا ء ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :