حجرہ اسود کی22سال بعد”بیت اللہ “ واپسی !!

جمعرات 5 اپریل 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

یہ مبارک ”سیاہ پتھر“ چاندی کے فریم میں انتہائی مناسبت سے خانہ کعبہ میں نصب ہے۔طواف ( حج یا عمرہ) کے دوران ہم ( مسلمان) اس کو بوسہ دیتے ہیں۔ذی الحجہ 317ھ یعنی رسول کریم ﷺ کی رحلت کے صرف تین سو پانچ سال بعد موجودہ بحرین کے اُس وقت کے حاکم ابو طاہر سیلمان قرامطی نے مکہ مکرمہ پر ایک جنگ کے دوران”قبضہ“ کرلیا اور ”حجرہ اسود“ کو بیت اللہ سے جدا کر کے مال غنیمت کے طور پر اپنیسلطنت” بحرین“ لے گیا تاہم22سال تک”بیت اللہ “ سے غائب رہا اور پھر جب مسلمانوں کو ”قوت“ ملی تو ایک معاہدے اور 30ہزار دینار” نقد“ ادائیگی کے بعد ”سیا ہ پتھر“ کو واپس لا کر بیت اللہ سے نصب کر دیا،تاریخ مکہ للطبریٰ کے مطابق ”حجر اسود“ کی واپسی ایک تاریخ واقعہ ہے۔

(جاری ہے)

قارئین محترم،حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔” حجر“ عربی میں” پتھر“ کو کہتے ہیں اور” اسود“ سیاہ اور” کالے رنگ“ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ” سیاہ پتھر“ ہے جو عہد موجود یعنی 1439ھ میں کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔تاہم اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔

یہ ٹکڑے اندازہً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنے جاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔22سال خانہ کعبہ سے جدا رہنے کے بعد 30 ہزار دینا کے عوض حجر اسود کو”بحرین“ سے لا کر واپس بیت اللہ نصب کرنے کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ذی الحجہ 317ھ کو حاکم بحرین ابو طاہر سیلمان قرامطی نے مکہ مکرمہ پر”قبضہ“ کرلیا۔

خوف و ہراس اتنا تھا کہ 317ھ کو حج بیت اللہ نہ ہوسکا،یعنی 317ھ کو کوئی بھی مسلمان سخت پابندی کے باعث عرفات نہ جا سکا۔یہ اسلام میں پہلا واقعہ تھا کہ حج بیت اللہ ”موقوف“ ہو گیا۔317 ہجری کو حاکم وقت ابو طاہر قرامطی نے جحر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا۔پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر قرامطی کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت تیس ہزار دینا”نقد“ کے عوض 339ہجری کو حجر اسود خانہ کعبہ میں واپس لا کر چاندی کے فریم میں نصب کیا۔

تاریخ مکہ للطبریٰ کے مطابق واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ مقتدر باللہ نے ایک بڑے عالم دین محدث عبداللہ کو حجر اسود کی وصولی کے لئے وفد کے ساتھ ”بحرین“ بھجوایا،علامہ سیوطی کی روایت کے مطابق شیخ عبداللہ محدث بحرین پہنچے تو حاکم بحرین نے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔تقریب میں حاکم بحرین نے ایک پتھر جو خوشبودار تھا اور خوبصورت غلاف سے نکالا کہ یہ حجر اسود اسے لے جائیں، محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں 2 نشانیاں ہیں،اگر اس میں یہ دو نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں،ایک تو یہ کہ یہ پتھر”ڈوبتا“ نہیں، دوسرا یہ کہ ”آگ سے بھی گرم“ نہیں ہوتا۔

پھر اس خوشبودار پتھر کو تقریب کے دوران ہی پانی میں ڈالا گیا تو وہ ڈوب گیا، آگ میں ڈالا تو وہ گرم ہو کر ”پھٹ“ گیا۔روایت کے مطابق حاکم بحرین نے دوسرا پتھر دیا اُس کے ساتھ بھی یہی عمل کیا گیا تو وہ بھی پانی میں ڈوب گیا، آگ میں گرم ہو گیا،پھر اُسی تقریب میں عوام الناس کے سامنے تیسرا پتھر پیش کیا گیا جس پر بھی خوبصورت غلاف چڑھا ہوا تھا ،اسے محدث عبداللہ نے آگ میں ڈالا تو کئی منٹ کے بعد باہر نکالا تو وہ”ٹھنڈا“ نکلا،پھر اسی پتھر کو پانی میں ڈالا تو وہ”پھول“ کی طرح اوپر تیرنے لگا۔

محدث عبداللہ نے فرمایا ”یہی ہمارا ہجراسود“ ہے،یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے، یہی جنت والا پتھر ہے۔حاکم بحرین کو کافی شرمندہ بھی تھا نے محدث عبداللہ سے دریافت کیا”یہ بتائیں آپ کو یہ نشانیاں کہاں سے ملیں ہیں؟“ محدث عبداللہ نے فرمایا”یہ باتیں ہمیں جناب رسول کریمﷺ سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہوتا“حجر اسود کے حوالے سے ایک اور رویت سنیں،جب حجر اسود خانہ کعبہ سے نکال کر زبردستی بحرین لے جایا جا ریا تھا تو جس اُونٹ پر لادا جا تا وہ مر جاتا، حتیٰ کہ بحرین پہنچتے پہنچتے 40 اونٹ نیچے آ کر مر گئے۔

تاہم جب بحرین میں حجر اسود جس مسلمانوں کو مل گیا تو اس کو خانہ کعبہ لے جانے کے لئے انتہائی کمزور سواری ہی میسر تھی جو کہ ایک اونٹنی تھی،لیکن جب اسے (ہجراسود) اونٹنی پر لادا گیا تو انتہائی کمزور اونٹنی میں زبردست قوت آگئی،اُس نے تیزی سے یجر اسود خانہ کعبہ پہنچا دیا۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراہیم جنت کے” یاقوتوں“ میں سے” یاقوت“ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے نوراورروشنی کوختم کر دیا ہے اگراللہ تعالیٰ اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا۔

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 )۔ حجراسود اللہ تعالیٰ نے زمین پرجنت سے اتارا ہے۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :( حجراسود جنت سے نازل ہوا )سنن ترمذی حدیث نمبر ( 877 ) سنن نساء حدیث نمبر ( 2935 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسے حدیث کوصحیح قرار دیا ہے۔ حجراسود دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا جسے اولاد آدم کے گناہوں نے سیاہ کر دیا ہے :ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :( حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کر دیاہے )سنن ترمذی حدیث نمبر ( 877 ) مسنداحمد حدیث نمبر ( 2792 ) اورابن خزمہ نے صحیح ابن خزمہ ( 4 / 219 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعا لیٰ نے فتح الباری ( 3 / 462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے، حجراسود روزقیامت ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حق کے ساتھ استلام کیا۔

حجراسود کا استلام یا بوسہ یا اس کی طرف اشارہ کرنا :یہ ایسا کام ہے جوطواف کے ابتدا میں ہی کیا جاتا ہے چاہے وہ طوا ف حج میں ہو یا عمرہ میں یا پھر نفلی طواف کیا جا رہا ہو۔جابربن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائیں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 )حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کا بوسہ لیا اورامت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اسے چومتی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ حجراسود کے پاس تشریف لائے اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے ” مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے، اگرمیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) جزاکم اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :