ایسٹ چائینہ کمپنی

جمعرات 5 اپریل 2018

Afzal Sayal

افضل سیال

آپ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تو جانتے ہوں گے ۔ جی میں اسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی بات کررہا ہوں ، جس کے ذریعے برطانیہ ہندوستان پر حکومت کے نام پر قابض رہا ،ہمارے آباواجداد نے قربانی دیکر آزادی کے نام پر پاکستان تو حاصل کرلیا ہم گوروں سے تو آزاد ہوگئے لیکن اپنوں نے ہمیں ستر سالوں سے طاقت کے زور پر باندی بنا رکھا ہے، پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں 40 سال ہمارے محافظ سرحدوں کی بجائے ہم پر وردی اور بندوق کے زور پر قابض رہے جبکہ 30 سال جمہوریت کے نام پر انکے طاقتور کارندوں نے ہمیں یرغمال بنا رکھا ہے ۔

۔۔۔ دس فیصد طاقتور طبقے نے پاکستان کو مسائلستان بنا دیا ہے بھوکی ،ننگی۔ پیاسی عوام کو یہ طبقہ جب بھوک ننگ ختم کرنے کا خواب دکھاتا ہے تو یہ یرغمالی عوام بغیر سوچے سمجھے اپنی محرومی ختم کرنے کے لیے اسکو مسیحا سمجھ کر اسکے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں ۔

(جاری ہے)

"اگر آپ تاریخ پڑھیں تو برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ہندوستان میں جب داخل ہوا تو انہوں نے بھی بزنس کے نام پر یہاں پہلے قدم جمائے تھے" آج پاکستان میں سی پیک کے نام سے "ایسٹ چائینہ کمپنی "داخل ہوچکی ہے، اور حکمرانوں نے سی پیک کا اتنا شور مچایا ہوا ہے کہ عوام سمجھ رہے ہیں بس اب محرومیاں ختم اور دودھ کی نہریں بہنے کو بے تاب ہیں ۔

۔
لیکن حقائق اتنے بھیانک ہیں جس کا ادراک نا حکمرانوں کو ہے اور نہ ہی عوام کو ہے کیونکہ سچ عوام کو بتاتا کوئی نہیں اور حکمران ووٹ لینے کے لیے عوام سے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ایک نزنسمین دوست چوہدری لقمان ججہ جو کہ پاکستان ،چائینہ، یورپ سمیت بہت سے ممالک میں اپنا بزنس کرتے ہیں ان سے سی پیک پرتفصیلی گفتگو ہوئی ان سے میں نے سوال کیا کہ سی پیک کے نام پر ہوکیا رہا ہے اور ہونا کیا چاہیے !
لقمان ججہ نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سی پیک پاکستان کی ترقی میں اہم رول ادا کر سکتا ہے لیکن اگر اسکو حکمران ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر اپنے ملک اورعوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کی پلاننگ کریں تو سی پیک واقع ہی ہماری تقدیر بدل دیگا ۔

لیکن ہو یہ رہا ہے کہ سی پیک پر تمام مشنری ، ورکرز، اور تمام چھوٹے بڑے پروجیکٹ چاہینز لگا رہے ہیں ۔ سی پیک روٹ کے نزدیک چائیز کو زمینں الاٹ کی جارہی ہیں اور چائینز باآسانی پاکستان میں ڈی سی ریٹ پر زمینیں خرید رہے ہیں ۔ چائینہ کی ہرکمپنی میں چوکیدار سے لیکر جی ایم تک تمام ورکرز چائینز ہیں،حتٰی کہ وکیل بھی چائینہ سے لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور تین ہزار چائینز وکلاء نے پاکستان کے بار کونسل میں درخوستیں دے رکھی ہیں، تاکہ وہ لیگل ایڈوائز کے طور پر پاکستان میں کام کر سکیں، فل حال تمام انڈسٹری امپورٹ کے لیے لگائی جا رہی ہے ،پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے گذرنے والے روٹ پربرائے نام کام ہو رہا ہے ۔

اگر سی پیک پاکستانیوں کا پروجیکٹ ہے تو جو سی پیک فری انڈسٹریل زون بنائے جا رہے ہیں اس میں پاکستانی کمپنیز پر کیوں پابندی لگائی گئی ہے ۔ ؟ پھر حکومت کے علاوہ کسی کو نہیں پتہ کہ سی پیک روٹ پر کہاں کہاں انڈسٹریل زون بنائے جا رہے ہیں ، کتنا کام ہو چکا کتنا باقی ہے ۔ کچھ معلومات نہیں پاکستانی بزنسمین کو مسلسل اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے ،۔

۔ وغیرہ وغیرہ
ججہ صاحب نے لمبا سانس لیا اور بولے کہ ہونا یہ چاہیے ، ہمیں میڈلسٹ ماڈل کو نافذ کرنا ہوگا جس کے لیے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے ۔ میں نے ضمنی سوال پوچھا کہ یہ میڈلسٹ ماڈل کیا ہے ۔ انہوں نے کہ میڈلسٹ ماڈل یہ ہے کہ چائینہ سمیت تمام عرب ممالک میں بزنس کرنے کے لیے 51 فیصد کا مقامی پارٹینر ضروری ہے، پاکستان میں بھی اسی فارمولا کی ضرورت ہے، کوئی بھی غیر ملکی کمپنی یہاں زمین خریدے گی تو 51فیصد لوکل انویسٹر جبکہ 49فیصد کا مالک غیر ملکی ہوگا ،ہر کمپنی کے لیے ضروری ہوکہ وہ 50 فیصد ورکرز پاکستانی رکھنے کی پابند ہو، سی پیک کے ذریعے لگنے والے تمام پروجیکٹ کو پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں لگانے والوں کو زیادہ سہولیات دی جاہیں، ایکسپورٹ انڈسٹری لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کے جائے تاکہ پاکستان کو فائدہ ہو ۔

مثلا چائینہ جوسامان اپنے شہر شنگھائی یا کاشغر میں بنا کر گوادر کے راستے ایکسپورٹ کرتا ہے اگر وہ پاکستان میں بنائے گا تو اسکو 2300 سو کلومیٹر کی ٹرانسپورٹشن نہیں کرنی پڑے گی ۔دوسری بات یہ ہے کہ جو روٹ اسلام باد سے گوادر کو ملاتا ہے جس میں میانوالی ۔ بھکر، لیہ ، ڈیرہ اسماعیل خان ،اور کوئٹہ بلوچستان سے گذرتا ہے اسکو مکمل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں ۔

آخر میں انکا کہنا تھا کہ اگر ہماری حکومتوں نے سی پیک کے ذریعے ہونے والے تمام پروجیکٹ میں مقامی انویسٹر کی پارٹینر شپ کو یقینی نا بنایا ، سی پیک کی تمام انفارمیشن پاکستانی کمپنیز کو نا بتائی اور پاکستانی بزنسمین کو سی پیک سے مستفید ہونے کے برابر مواقع نہ دیے تو پاکستان کو فلسطین بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :