یہ ہے تبدیلی۔۔۔۔؟

منگل 3 اپریل 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

پنجاب میں پولیس کی صرف وردیاں تبدیل کی گئیں جبکہ ہم نے وردی نہیں پولیس کو تبدیل کیا،پنجاب میں طبی سہولیات کے صرف نعرے لگائے جارہے ہیں مگرہم نے صحت انصاف کے ذریعے ہسپتالوں کانظام بدل کرڈاکٹروں کوچوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پرلگادیاہے ۔ہماری تبدیلی سے خیبرپختونخوامیں صحت سمیت دیگربنیادی سہولیات اب لوگوں کوگھروں کی دہلیزپرمل رہی ہیں ۔

آج کے خیبرپختونخوااورپرانے کے پی کے میں زمین وآسمان کافرق ہے۔یہ وہ دعویٰ ہے جس سے تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان کی کوئی تقریرخالی نہیں ۔عمران خان اپنی تقریر،گفتگواوربیان میں کسی اورچیزکاذکرکریں یانہ لیکن وہ سرکاری ہسپتالوں اوردیگرمحکموں میں اپنی تبدیلیوں اوراصلاحات کاذکرضرورکرتے ہیں ۔عمران خان کے بقول ان کی صوبائی حکومت نے اصلاحات اورکمالات کے ذریعے خیبرپختونخواکے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اورنرسوں کی شکل میں اب وہ نورانی مخلوق بٹھادی ہے جوعوام کوصحت انصاف کی فوری فراہمی میں ایک لمحے کی بھی تاخیربرداشت نہیں کرتی۔

(جاری ہے)

عمران خان کایہ دعویٰ بڑاپرلطف،گمان اچھااورخیبرپختونخواکے ہسپتالوں اوردیگرسرکاری اداروں میں اصلاحات کے ذریعے تبدیلی لانے کایہ نعرہ انتہائی خوشبوداراورپرذائقہ ہے۔تبدیلی کے حوالے سے عمران خان کی یہ باتیں سن کرجہاں ہرشخص کے منہ میں پانی آتاہے وہیں پنجاب،سندھ اوربلوچستان میں رہنے والے غریب لوگ ایک لمبی ،،آہ،،بھرکرکہتے ہیں کہ کاش ہم بھی خیبرپختونخوامیں پیداہوتے ۔

لیکن جب حقیقت کی دنیامیں کسی کاخیبرپختونخواکے ان ہسپتالوں اورتھانوں سے گزرہوتاہے،یہاں کی پولیس اورڈاکٹروں سے واسطہ پڑتاہے تووہ پھراس جملے کے ساتھ کہ ،،شکرہے ہم یہاں پیدانہیں ہوئے ،،اللہ کاشکراداکئے بغیرنہیں رہ سکتے ۔ماناکہ عمران خان خیبرپختونخواکی تبدیلی کاجونقشہ کھینچتے ہیں یادنیاکے سامنے پیش کرتے ہیں وہ بڑازبردست اوراس کے دلفریب مناظردل کوچھولینے والے ہیں لیکن حقیقت کی دنیامیں خان صاحب کاتبدیلی کایہ دعویٰ بے جان اورگمان بالکل غلط ہے۔

ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آبادنہ صرف ہزارہ بلکہ ملک کاایک بڑاہسپتال ہے ۔یہ بدقسمت ہسپتال بھی خیبرپختونخواکے ان سرکاری ہسپتالوں میں شامل ہے جن کوپی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے اصلاحات،اقدامات اورکمالات کی مشینری سے ایک نہیں ہزاربارگزرناپڑا۔عمران خان اورپرویزخٹک کی کتابوں میں صوبے کے اندرجن ہسپتالوں کودورجدیدکے تقاضوں اورسہولیات سے ہم آہنگ کیاگیاان میں سے ایک ہسپتال یہ بھی ہے ۔

عمران خان کے نزدیک صوبے کے دیگرسرکاری ہسپتالوں کی طرح اس ہسپتال میں بھی عوام کوطبی سہولیات کی فوری فراہمی کے لئے 24گھنٹے دودھ اورشہدکی نہریں بہتی ہیں لیکن حقیقت میں یہاں ایساکچھ نہیں ۔انورشمیم بٹگرام کے نواحی علاقے جوزکے رہائشی اورایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ،کوئی خاص روزگارنہ ہونے کی وجہ سے انورشمیم کاگھریلونظام مشکل سے چلتاہے،انورشمیم کی بیوی کوایک دن دل کے آس پاس سخت دردہونے لگتاہے وہ اسے بٹگرام کے مقامی ہسپتال لے آتے ہیں وہاں سے ڈاکٹرانہیں ایبٹ آبادجانے کامشورہ دیتے ہیں ۔

اگلے روزوہ بیوی کومعصوم بچے سمیت لے کرایبٹ آبادپہنچتے ہیں ۔ایبٹ آبادکمپلیکس کاہی ایک ڈاکٹراسے پرائیوٹ طورپرچیک کرکے تین چارمہینوں تک دوائیوں پردوئیاں دیتاہے مگرمرض کی تشخیص ہوتی نہیں یاوہ کرتا نہیں ۔آخرایک دن مرض کی تشخیص ہوہی جاتی ہے اوراسے کارڈیوتھراسک ڈاکٹرسے چیک اپ کی ہدایت ملتی ہے۔ وہ ایبٹ آبادکمپلیکس کے ہی کارڈیوتھراسک ڈاکٹرسے پرائیوٹ طورپر اہلیہ کاچیک اپ کرواتے ہیں ،ڈاکٹرمریضہ کے لئے آپریشن تجویزکرتے ہیں ۔

وسائل نہ ہونے پرانہیں ہدایت ملتی ہے کہ آپ کل کمپلیکس ہسپتال کی اوپی ڈی آئیں وہاں سے آپ کوآپریشن کی تاریخ مل جائے گی اس طرح آپ کے پچاس ساٹھ ہزارروپے لگ کرآپریشن ہوجائے گا۔انورشمیم اگلے دن 29نومبر2017کوبیوی کولیکرکمپلیکس ہسپتال کی کارڈیوتھراسک اوپی ڈی پہنچتے ہیں،وہی ڈاکٹرمریضہ کے ضروری ٹیسٹ کرانے کے بعدمریضہ کامختصرڈیٹااپنے پاس رکھ کریہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ گھرجائیں ہم آپ کوآپریشن کے لئے بلادیں گے۔

دسمبرکاپورامہینہ گزرجاتاہے مگرآپریشن کاپتہ نہیں چلتا،جنوری اورفروری بھی انتظارکے سائے میں گزرجاتے ہیں ،یہاں تک کہ مارچ 2018کاسورج بھی غریب انور شمیم کی امیدیں لئے غروب ہوجاتاہے مگرصحت انصاف کی ظالم یالاڈلی بلی پھربھی تھیلے سے باہرنہیں آتی۔اسی طرح 31مارچ 2018کودردسے کراہنے والے بٹگرام کے ہی رہائشی قاری ثاقب نامی ڈائیلاسزکے ایک مریض کو اسی ہسپتال میں لایاجاتاہے،اس کے لواحقین جب ڈائیلاسزیونٹ سے رجوع کرتے ہیں تویونٹ کاانچاج یہ کہہ کراس کے ڈائیلاسزکرنے سے انکارکرتاہے کہ یہ آؤٹ سائیڈرہے یہاں پرہم بٹگرام اوردوسرے اضلاع کے مریضوں کے ڈائیلاسزنہیں کرتے ،دردسے کراہنے والے قاری ثاقب کے لواحقین اس انچارج کی بڑی منت سماجت کرتے ہیں لیکن وہ ایک ہی جواب دیتاہے کہ جومرضی کرلویہاں ڈائیلاسزنہیں ہوگا۔

آپ پرائیوٹ ہی ڈائیلاسز کروادیں۔یہ توصحت کاانصاف تھا۔اب آتے ہیں پرانی وردی میں تبدیل ہونے والی پولیس کی طرف، ہزارہ کے ایک بڑے ضلع میں لین دین کے معاملے پرچندافرادلین دین کرنے والے نوجوان کے سفیدریش والدکواٹھاکراسے حبس بے جامیں رکھتے ہیں ،تین چاردن بعد وہ بزرگ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے ضلعی صدرکے عقوبت خانے،ٹارچرسیل یاقلعے سے برآمدہوتے ہیں ،اس کے لواحقین مقدمے کے اندراج کے لئے تھانے کارخ کرتے ہیں ،تھانے کاایس ایچ اونہ صرف متاثرین پردباؤڈال کر،،خودگیاتھااورخودواپس آیا،،جیسے مبارک الفاظ سے لبریزمقدمہ درج کرتے ہیں بلکہ سیاسی پارٹی کے اس ضلعی صدرکوفون کرکے ان کواپنے احسان عظیم سے بھی اسی وقت آگاہ کردیتے ہیں ۔

یہ توصرف خیبرپختونخواکے ایک ہسپتال اورایک تھانے کاحال ہے۔باقی ہسپتالوں اورتھانوں کی کیاحالت ہوگی ۔۔؟اس حقیقت سے بھی کوئی ناآشنااورناواقف نہیں۔جس صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں چارمہینوں میں بھی ایک غریب کاآپریشن نہ ہو۔جہاں کے تھانوں میں آج بھی سیاسیوں،چوہدریوں،خانوں ،نوابوں اوروڈیروں کے اشاروں پرمقدمات درج کئے جاتے ہوں ،جس صوبے میں صحت انصاف کے لئے آج بھی سرکاری ہسپتالوں کے لانوں اوردلانوں میں ایک دونہیں ہزاروں مریض ایڑھیاں رگڑرگڑکردربدرپھررہے ہوں ،جس صوبے میں انصاف کے حصول کیلئے آج بھی غریب اورمظلوم لوگ شیرجوانوں کے پاؤں پکڑتے ہوں ۔

اس صوبے کے بارے میں یہ کہناکہ ہم نے اس صوبے کوتبدیل کردیاہے یاسیاسی مداخلت سے آزادکردیاہے ،خوش فہمی ،غلط فہمی ،سفیدجھوٹ یاسیاسی بیان توہوسکتاہے مگرحقیقت ہرگزنہیں ۔عمران خان کواللہ تعالیٰ نے خیبرپختونخوامیں حکومت اورکچھ کرنے کاموقع دیالیکن افسوس کہ انہوں نے یہ موقع احتجاج ،جلسے ،جلوسوں،دھرنوں اوردوسروں کی ٹانگیں کھینچنے میں ضائع کردیا۔

کتابوں کی حدتک عمران خان کی صوبائی حکومت نے واقعی نہ صرف سرکاری ہسپتالوں اورتھانوں بلکہ پورے کے پی کے کوپیرس بنادیاہے لیکن زمین پرجس کی لاٹھی اس کی بھینس والانظام،رواج اورطریقہ آج بھی رائج اورہزارہ سے کوہستان اورپشاورسے چترال تک ڈاکٹروں،پولیس،سیاستدانوں اوربے لگام سرکاری افسروں کے مظالم تلے دبے غریبوں کی چیخ وپکارآج بھی ہرگھراوردرسے سنائی دے رہی ہے۔

تعلیم ،صحت سمیت دیگر سہولیات اورانصاف یہ ہرشخص کابنیادی حق ہے،جولوگ اپنی رعایاکویہ حقوق نہ دے سکیں انہیں ہرگزیہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ سینہ چوڑاکرکے تبدیلی تبدیلی کاراگ الاپے۔بندے کااپناپیٹ بھراہواہوانہیں پھرلاکھوں بھوکوں کے پیٹ بھی بھرے ہوئے نظرآتے ہیں ۔بنی گالہ میں واقعی تبدیلی آچکی ہے ۔وہاں واقعی دنیاکی ہرسہولت اورہرنعمت میسرہے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ خیبرپختونخوامیں ایساکچھ بھی نہیں ۔

خیبرپختونخواکے لوگ آج بھی اپنے حقوق اورانصاف کیلئے تڑپ اورترس رہے ہیں ،عمران خان اپنی تقریروں میں خیبرپختونخواکوپیرس بناکرپیش کرنے سے پہلے صرف ایک بارآنکھیں کھول کریہاں کے زمینی حقائق کودیکھیں ،عمران خان صرف ایک بار کسی ریڑھی بان اورکسی چھابڑی فروش کے ذریعے صوبے کے کسی ایک ہسپتال اورتھانے کی جانکاری کرائیں اگرکسی ریڑھی بان اورچھابڑی فروش نے ،،سب اوکے،،کی رپورٹ دی توہم مان جائیں گے کہ خیبرپختونخوامیں واقعی تبدیلی آچکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :