جیل یا جلا وطنی

اتوار 1 اپریل 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

معاملات اب جس انتہا کو پہنچ چکے ہیں وہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس ملک کے تین بڑے ادارے ایک دوسرے کا گریبان تھامے کھڑے ہیں۔ ایک طرف باجوہ ڈاکٹرائن کا شوشہ ہے دوسری طرف ایک خاندان کے خلاف بے انصافی کا مقدمہ ہے اور تیسری جانب سول بالا دستی کا غلغلہ ہے۔ اس سہ طرفہ جنگ میں فتح کس کو نصیب ہوتی ہے اور شکست کس کا مقدر بنتی ہے ؟شہیدکون بنتا ہے اور غازی کون کہلاتا ہے؟منزل کسے نصیب ہوتی ہے اور زاد سفر کون بنتا ہے؟ اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔

لیکن ہماری تاریخ ہمیں بارہا یہ سبق پڑھاتی ہے کہ جمہوریت کا علم اٹھانے والوں کو یہاں ایسا سبق سکھایا جاتا ہے کہ ان کی نسلیں یاد رکھتی ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف جس بیانئے کو لے کر آج چل رہے ہیں اس کو بے پناہ عوامی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

یہ پذیرائی ہی کچھ حلقوں میں تشویش پیدا کر رہی ہے۔ سوچا تو یہ گیا تھا کہ نواز شریف کے نااہل ہوتے ہی مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

لوگ جوق در جوق دوسری جماعتوں میں شامل ہو جائیں گے۔ نااہل قرار دئیے لوگوں کے ساتھ اس ملک میں ایساہی ہوتا رہا ہے۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ لوگ ٹوٹے نہ جماعت میں پھوٹ پڑی۔جی ٹی رود کے سفر نے نااہل وزیر اعظم کو ایک نئی طاقت سے روشناس کیا۔جی ٹی روڈ کے سفر کے بعد جہاں روز بہ روز نواز شریف کی عوامی قوت میں اضافہ ہورہا ہے وہاں انکے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائی میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔

کبھی جماعت کا صدر تسلیم نہیں کیا جا رہا ، کبھی انکے دئیے ہوئے ٹکٹ نامنظور کر دیئے گئے اور کبھی انکی جماعت کے نمائندے سینٹ میں آذاد قرار دے دیئے گئے۔دوسری جانب عدالتی مقدمات کے غبارے سے جا بجا ہوا نکلتی جا رہی ہے۔ کبھی واجد ضیاء اپنے بیان سے منحرف ہوجاتے ہیں کبھی رابرٹ ریڈلے اپنے آقاوں کو شرمندہ کرواتے ہیں۔
آئین کی بات کرتے ہوئے چیف جسٹس اپنے ادارے کی حدود پار کرتے ہوئے کبھی کسی ہسپتال میں جا نکلتے ہیں ، کبھی بھینسوں کو لگنے والے ٹیکوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کبھی یونیورسٹیاں بند کروانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

ایسے دکھائی دیتا ہے کہ نگران حکومت کے سیٹ اپ کا انتظار نہیں ہو رہاہے اور اس سے پہلے ہی ایک نگران سیٹ اپ معرض وجود میں آگیا ہے۔ حکومت کی ساری مشینری تما م وقت عدالت کے حضور حاضر رہتی ہے۔ کسی بیوروکریٹ کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ کوئی بھی وزیر اپنی وزارت چلانے سے قاصر ہے۔کوئی منصوبہ آگے نہیں بڑھ رہا ۔ بین الاقوامی ادارے امداد سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔

سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں سی پیک کا مستقبل بھی مخدوش نظرآتا ہے۔ سینٹ کے الیکشن تو ہو گئے مگر ان الیکشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ہمیں بس اس موقع پر اتنا یاد رکھنا ہے کہ حالات خراب نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر خراب کیئے جا رہے ہیں۔ ایک بدنما تصویر دکھا کر پینٹنگ میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس موقعے پر نواز شریف کا عوام کو اس ملک کی تاریخ یاد کروانا بہت معنی خیز ہے۔

ستر سال کی تاریخ اور عوام کے حق حاکمیت کا بیان بہت توجہ طلب ہے۔ نواز شریف عوام کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں غیر جمہوری قوتیں ، جمہوری اداروں سے بہت طاقتور ہو گئی ہیں۔ جس جماعت یا لیڈر کو عوامی مقبولیت حاصل ہوتی ہے اسے حیلے ، ہتھکنڈوں سے دھول چٹا دی جاتی ہے۔آئین کو بار بار پامال کیا جاتا ہے۔
ووٹ کی تقدیس کو تار تار کیا جاتا ہے۔

عوامی رائے عامہ کو شکست دی جاتی ہے۔ اس بیانئے کی مدد سے نواز شریف ان قوتوں کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو دہائیوں سے ہم پر قابض ہیں۔ یہ اتنا سہل کام نہیں ہے۔ لوگ چاہے کتنی ہی شدت سے نواز شریف کی آواز میں آواز ملائیں غیر جموری قوتوں کے پاس بحرحال کچھ ہتھکنڈے ایسے ہوتے ہیں جن سے عوامی مینڈیٹ کا ستیا ناس کیا جا سکتا ہے۔
یہ مفروضہ غلط ہے کہ نواز شریف ہمیشہ ہی اداروں کے ساتھ ایک ایسی مزاحمتی فضا پیدا کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

بات بالکل بر عکس ہے۔ نواز شریف نے اس دفعہ مزاحمت میں بہت دیر کر دی ہے۔پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ہے۔ یہ مزاحمت سب سے پہلے اس وقت کرنی چاہیے تھی جب دھرنہ ون میں غیر جموری قوتوں کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے۔ اس وقت پوری شدت سے آواز بلند کرنی چاہیے تھی ۔ احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ دھرنا ٹو اور لاک ڈاون کے پیچھے چھپی طاقتوں کے انکشاف پر مزاحمت کرنی چاہیے تھی۔

قادری کے مالکان کا راز واشگاف ہونے پر قیامت بپا کرنی چایئے تھی۔ ڈان لیکس کے معاملے پر جمہوری قوتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر طوفان کھڑا کرنا چاہیے تھا۔ پرویز رشید ، مشاہد اللہ اور نہال ہاشمی کی قربانی پر مزاحمت کرنی چاہیے تھی۔ سینٹ کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پرعوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے تھا۔ نواز شریف کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ میاں صاحب سمجھتے تھے کہ اس ملک کے بگڑے حالات ٹھیک کرنے میں وقت درکار ہے اور غیر جمہوری قوتوں کو یکدم سسٹم سے نہیں نکالا جا سکتا ۔

اس احتیاط کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج میاں صاحب کو خود سسٹم سے باہر کیا جا رہا ہے۔ان کی پارٹی کے خلاف ایک باقاعدہ انتقامی مہم شروع کی جارہی ہے۔ آئندہ الیکشن کے وقوع کو مشکوک بنایا جا رہا ہے۔ نگران حکومتوں کی طوالت کی بات ہو رہی ہے۔عدالتوں سے مزید انتقامی فیصلوں کا امکان بڑھتا جا رہا ہے ۔ واقعات کی باگ دوڑ اب میاں صاحب کے ہاتھ میں نہیں رہی۔

اب معاملات کو سنبھالنے والے سامنے آگئے ہیں۔
مزاحمت کی اس صدا کو لگانے میں اگر چہ میاں صاحب کو بہت دیر ہو گئی ہے مگر اس آواز میں ابھی بھی عوام کے لئے بے پناہ کشش موجود ہے۔ عوام ہر موقع پر اپنے حق حاکمیت کے لئے جد و جہد کرنے کو تیار ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ کہ نواز شریف جو باتیں کر رہے ہیں اس کا اس ملک میں کبھی کوئی رواج نہیں رہا ہے۔

یہاں تو جمہوریت کو گالی دینا چلن ، سیاستدانوں کو کرپٹ کہنا روایت اور عوام کو احمق ثابت کرنا لائحہ عمل رہا ہے۔عوام کی قوت نواز شریف کو این اے 120 سے لودھراں تک یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جموریت کی حرمت کی اس کاوش میں وہ اپنے لیڈر کے ساتھ ہیں۔ اب فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے کہ وہ غیر جموری قوتوں کے ستم کو کس حد تک برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

یہ وہ موقع ہے جو لیڈروں کو بڑے نصیب سے ملتا ہے۔ نواز شریف چاہیں تو اس وقت امر ہو سکتے ہیں۔ جیل کی سلاخیں لیڈروں کے لئے بابرکت ثابت ہوتی ہیں۔ عدالتی ناانصافیاں انکے قد کو بڑھاتی ہیں۔ ظلم کے سامنے ڈٹ جانے والے ہی رہنما کہلاتے ہیں۔ ہر قیمت پر عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والے ہی تاریخ میں ارفع مقام پاتے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے نواز شریف نے جو لہجہ اختیار کیا ہوا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے اس دفعہ نواز شریف کو جلا وطن کر نے کی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی ۔

نواز شریف اس دفعہ جیل میں رہ کر عوام کی آزادی کا مقدمہ لڑنے کو تیار ہیں۔
جہاں تک وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی میٹنگ کے حوالے سے کسی مبینہ ڈیل کی افواہیں گردش کر رہی ہیں اس سلسلے میں صرف اتنا عرض ہے کہ میڈیا میں اعلان کر کے، پی ٹی وی کے کیمرے کے سامنے تصویریں بنوا کر ڈیل نہیں ہوتی۔ ڈیل کا مجرب نسخہ جنرل پرویز مشرف نے بتایا تھا کہ کس طرح جنرل راحیل شریف نے عدالتوں پر دباو ڈال کر انہیں ایک نہائت پر تعیش خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور کیا گیا ۔ یہ وہ ڈیل تھی کہ جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی تھی۔ راز کی ان باتوں کو ڈیل کہا جاتا ہے عوام کی نگاہ کے سامنے ہونے والی ملاقاتیں ڈیل کے زمرے میں نہیں آتیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :