متوقع الیکشن2018، غیر متوقع ؟ اور بلوم برگ رپورٹ

جمعہ 30 مارچ 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے ورکنگ گروپ نے الیکشن کمیشن سے حلقہ بندیاں کرنیوالے افسران کی تفصیلات مانگ لیں۔ کمیٹی کے کنوینئر وفاقی وزیر دانیال عزیز کی زیر صدارت اجلاس میں مجوزہ حلقہ بندیوں پر غورکیاگیا۔ دانیال عزیز نے کہا کہ حلقہ بندیوں میں جہاں خرابی ہوئی اس کو سامنے لائینگے۔ ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن ظفر اقبال کے بقول جن حلقوں پر اعترضات ہیں الیکشن کمیشن میں درخواست دائرکی جائے۔

دانیال عزیز نے کہا آپ نے کلاک وائز حلقہ بندیاں کیوں نہیں کیں۔حلقہ بندیاں تمام پارٹیوں کیلئے الارمنگ ہیں۔علاوہ ازیں ایک اور ”تازہ خبر“ کے مطابق سینیٹ میں ن لیگ کو ایک اور جھٹکا لگا ہے، الیکشن کمیشن نے آزاد سینیٹرز کی ن لیگ میں شمولیت کی درخواستیں مسترد کر دیں۔

(جاری ہے)

سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے بھی آزاد ارکان کو” ن لیگ“ میں شمولیت کی اجازت نہ ملی۔

پاکستان پیپلز پارٹی 20 سینیٹرز کیساتھ سینیٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی، پاکستان مسلم لیگ ن 17 سینیٹرز کیساتھ دوسری جبکہ پاکستان تحریک انصاف 12 سینیٹرز کیساتھ تیسری بڑی جماعت ہوگی، سینیٹ میں آزاد سینیٹرز کی تعداد 33 ہے۔جہاں تک بات ہو رہی ہے، متوقع الیکشن کی تو، وہ غیر متوقع کیوں ہو رہے ہیں، اس کے پیچھے بھی کہیں کوئی” مبینہ ایمپائر“ تو نہیں،اجلاس کے دوران الیکشن کمیشن حکام حلقہ بندیوں پرکمیٹی کوتسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

ایک موقع پر تو حلفاً یہ بھی کہا گیا کہ ان کو نہیں معلوم کہ حلقہ بندی کمیٹیوں میں کون لوگ تھے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آبادی کے بجائے ووٹر لسٹوں پر حلقہ بندیاں کی گئی ہیں جو بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ حلقہ بندیوں پر وسیع سطح پر تحفظات موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا جا رہا ہے اعتراض لائیں دور کر دینگے۔

الیکشن کمیشن نے پارلیمان کو مردم شماری کے بعد قانون سازی کی ڈیڈ لائن دی تھی بصورت دیگر انتخابات التوا کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن تحریری اعتراضات دینے سے گریزاں ہے مبادا اسی آڑ میں انتخابات میں تاخیر ہو جائے۔ کچھ جمہوریت گریز گروہوں کی انتخابات موخر کرانے کی خواہش ہے۔ ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کا پرچار کرنیوالی جمہوریت مخالف قوتیں بھی سرگرم ہو رہی ہیں۔

الیکشن کمیشن مقررہ مدت میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراضات دور کرنے کی کوشش ضرور کرے مگر انکی آڑ میں ایک دن کیلئے بھی الیکشن التوا میں نہیں ڈالے جانے چاہئیں۔ الیکشن کمیشن صرف حقائق پر مبنی اعتراضات ہی قبول کرے جو مقررہ مدت میں دور ہوسکیں۔اسلام آباد کی فضاوٴں سے ایک ”لہر“ آئی ہے جس کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ حکومت کو کام کرنے دیا جائے اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد معاملات میں تیز پیشرفت ہوگی، انشا اللہ اب کوئی سمری نہیں رکے گی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اسلام آباد کے اسپتال میں ادویہ اور آکسیجن چوری اور سہولیات کی عدم فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ وزارت کیڈ نے عدالت کے حکم پرمن و عن عمل کیا،پمز اور اسلام آباد کے دیگر اسپتالوں کے سربراہان کی سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کو بھیج دی ہے، عدالتی احکامات پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہ اگرآپ نے تاخیر کی توہم اچھے لوگوں کو خود تعینات کردیں گے۔ سیکرٹری کیڈ ہسپتالوں کے سربراہان کی تقرری کے سلسلے میں ہمیں مثبت پیش رفت چاہیے، اگر پیش رفت نہ ہوئی توسربراہان کے طور پر اچھے لوگوں کی تقرری خود کریں گے، اس کے بعد مستقل تقرری آئندہ حکومت کرلے گی۔درخواست گزار ڈاکٹر نے کہا کہ انتظامی عہدوں پر بھی ڈاکٹروں کو لگا دیا جاتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خیال سے صحت کے شعبے کے سیکرٹری سمیت انتظامی معاملات پر ڈاکٹرز ہی ہونے چاہئیں، حکومت کو کام کرنے دیں، بعد میں دیکھیں گے اچھے لوگ لگائے گئے کہ نہیں۔

ادھر عالمی معاشی منظر نامہ کچھ اس طرح ہے کہ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق ایشیائی ممالک میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سب سے زیادہ تیزی سے گر رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے ذخائر کمبوڈیا سے بھی کم ہو جائیں گے جس کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں 10 گنا چھوٹی اور ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ رپورٹ میں عالمی مالیاتی ادارے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے فروری میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 13 ارب 50 کروڑ ڈالر رہ گئے جبکہ جنوری میں کمبوڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر 11 ارب 20 کروڑ ڈالر تھے۔

انسائٹ سیکیورٹیز پرائیوٹ کے مطابق جون تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کم ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان کو اس وقت ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے گزشتہ آٹھ ماہ میں پاکستان کا کرنٹ اکاوٴنٹ خسارا بڑھ کر 10 ارب 80 کروڑ ڈالر رہا جس کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی درآمدات ہیں جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباوٴ کے باعث انتظامیہ نے چار ماہ کے دوران دوسری بار روپے کی قدر میں کمی کر دی۔

1971 میں پاکستان سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی پاکستان سے دو گنا سے زائد ہیں جبکہ اس کی برآمدات بھی پاکستان سے زیادہ ہیں۔ بلوم برگ کے مطابق نیوزی لینڈ اور قازقستان بھی ان ایشیا پیسیفک ممالک میں شامل ہیں جن کی معیشت پاکستان سے چھوٹی لیکن زرمبادلہ کے ذخائر اس سے زیادہ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :