نمرود کی ”قبر“ پاکستان کے شہر گوادر میں…!!

بدھ 28 مارچ 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

گوادر سے 150 کلومیٹر دور ایک جلا ہوا دروازہ موجود ہے جسے’ سْتک گین در“ کہتے ہیں،بلوچستان کا’ سْتک گین در“ ہی دراصل”’نمروْد کا ٹھکانہ“ یعنی قبر ہے،ماہرین کہتے ہیں کہ دروازے کا لفظ علامتی طور قدیم بندر گاہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو 3500 قبل مسیح میں مکران سے میسوپوٹیمیا تک صنعتی راہداری کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔

عالمی نشریاتی ادارے کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق’سْتک گین در“ کے قریب رہنے والے داد رحیم یہاں 50 سال سے مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا پردادا اس جگہ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تھے اور کہتے رہتے تھے کہ یہ نمروْد کا ٹھکانہ ہے ،ا ن کے مطابق اس جگہ کے مالک وہ خود ہیں اور اس کی رکھوالی بھی وہ خود ہی کرتے ہیں لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ ان کو وقت کے ساتھ ہوا۔

(جاری ہے)

پانچ ہزار لوگوں کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ میرانی بازار کے نام سے مشہور ہے جو یونین کونسل سنتسر، تحصیل جیونی اور ضلع گوادر میں پڑتا ہے۔
شہنشاہ نمرود کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ (سورة البقرہ۔2 ) تفسیر میں لکھا ہے۔ ”عراق کے بادشاہ نمرود کو جب ابراہیم (علیہ السلام) کی تبلیغ کا پتہ چلا تو اس نے انہیں بلایا۔ نمرود نے پوچھا ”تم اپنے باپ دادا کے مذہب کے خلاف کیوں ہو۔

ابراہیم نے جواب دیا ”میں اللہ پر یقین رکھتا ہوں۔ جس نے مجھے، آپ کو سورج چاند، ستارے، ہر جاندار اور کائنات کو پیدا کیا… یہ گونگے، بہرے بے یارومددگار لکڑی اور پتھر کے بت خدا نہیں ہو سکتے۔“ نمرود نے کہا ”اگر میرے علاوہ کوئی اور خدا ہے وہ کہاں ہے اور وہ کیا ہے،،؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا ” میرا خدا وہ ہے جو زندگی اور موت پر قادر ہے،، نمرود نے جواب دیا،، میں بھی زندگی اور موت دے سکتا ہوں۔

پھر بادشاہ نے ایک بے قصور آدمی کو بلوایا اور اس کا سر قلم کروا دیا۔ ساتھ ہی ایک قاتل کو جسے سزائے موت ہو چکی تھی اسے آزاد کر دیا۔ یہ دیکھ کر ابراہیم نے کہا ”اللہ کے حکم سے سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ کیا آپ میں اتنی قوت ہے کہ مغرب سے طلوع کروا دیں،، سوال سن کر نمرود اور اس کے درباری حیران و پریشان ہو گئے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ابراہیم کو زندہ جلا دیا جائے۔

،،زمین میں بہت بڑا گڑھا کھودا گیا جسے لکڑیوں سے بھر دیا۔ شہری لکڑیوں کے ٹکڑے لے آئے شاہی فرمان پر جن سے گڑھا بھر گیا، اس کے بعد آگ دہکائی گئی جو کئی دن تک جلتی رہی۔ اس قدر تپش پیدا ہوئی کوہ بڑے پتھر بھی سرخ ہو گئے۔ پھر ایک دن بادشاہ کے حکم پر شہری آگ کے گرد جمع ہوئے۔ ایک منجنیک لائی گئی جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کو ڈال کر اس دہکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا۔

قرآن میں لکھا ہے ”ہم نے حکم دیا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کی محافظ بن جا،، (سورة البقرہ۔2 ) روایت ہے کہ جب ابراہیم کے والد آذر نے آگ میں پھلوں سے لدا ہوا باغ دیکھا تو بیٹے کو آواز دے کر کہا ”ابراہیم تمہارا خدا واقعی بہت بڑا ہے،، یاد رہے کہ آذر بت خانہ کے پروہت تھے۔عالمی شہرت یافتہ مصنف ”سر لیونارڈ “ ملکہ و نمرود کے مزار کے متعلق لکھتا ہے ”ملکہ کا زمین دوز مزار ایکڑوں میں پھیلا تھا۔

ملکہ کا سارا جسم جو (ہڈیاں بن چکا) ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات سے بھرا ہوا تھا۔ موسیقار، سازندے اپنے سازوں کے ساتھ، کوچوان شاہی رتھوں اور گھوڑوں کے ساتھ، شاہی لباس کی الماری اور کپڑے پہنانے والی باندی، شاہی نوکرانیاں اور باندیاں بعض کے ہاتھوں میں گولڈ ہیئر ربن، کنگھیاں، سونے کے گجرے ہاتھ میں لئے … ایک ستار بجانے والی کی انگلی ابھی تک ستار کو چھو رہی تھی۔

اہرام مصر میں ایسے فرمانرواُں کے مزار دریافت ہوئے ہیں جن کے ساتھ ان کے درباریوں کو بھی دفن کر دیا جاتا۔ ایک فرعون ایک اسرائیلی کے بیٹوں کو قتل کراتا اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ فرعون کی لاش کو بھی اللہ نے دنیا والوں کے لئے باعث عبرت بنا دیا۔ عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹر کے مطابق اس جگہ کے بارے میں اس وقت یہ تاثر بنا کہ یہاں پر بھوت پریت ہیں اس لیے یہاں کوئی بھی زیادہ عرصے نہیں رہ پاتا۔

2004 سے شروع ہونے والی ریاست اور سرمچاروں کے درمیان جنگ کی وجہ سے بہت سے لوگ یہاں سے باقی علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ مختلف ادوار میں انگریز اور فرینچ مشن کی اس جگہ آمد اور کھدائی کے عمل سے علاقے کے لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید یہاں سونا ہے، لیکن وہ سونا ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔بھوت پریت کی کہانیوں کے برعکس، محقق اور لسبیلہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حمید بلوچ بتاتے ہیں کہ سْتک گین در کے لوگ دراصل آباد کار تھے جن کا کام صنعتی راہداری کی حفاظت کرنا تھا۔

اس جگہ پر تین ادوار میں تحقیق کی گئی ہے۔1930 میں سر اورل سٹین نے مکران کا دورہ کیا۔ لیکن ڈاکٹر حمید بلوچ کہتے ہیں کہ اورل کا طریق کار غیر سائنسی تھا کیونکہ وہ صرف سالم حالت میں موجود چیزیں نکالتے اور آگے بڑھ جاتے جس وجہ سے یہاں پر موجود بہت سے آثار ضائع ہو گئے تھے۔1950 میں امریکن آرکیالوجسٹ جارج اے ڈیلس اور ڈاکٹر رفیق مغل یہاں آئے۔ یہ اس دور کا سب سے تفصیلی جائزہ تھا جس کا تذکرہ ڈیلس نے اپنی کتاب 'اے سرچ آف پیراڈائز' میں کیا۔

ڈاکٹر حمید نے کہا کہ ’ان کو کہا گیا تھا کہ اگر آپ کو جنت دیکھنی ہے تو آپ مشرق کی طرف سفرکریں۔ ان کو جنت تو نہیں ملی لیکن ’سْتک گین در“ کے قریب موجود میسوپٹیمین زمانے میں بنی ہوئی قلعے کی دیوار ضرور مل گئی۔پھر 1987 سے لے کر 2001 تک فرینچ اور اطالوی مشن نے مکران کا ایک طویل اور تفصیلی جائزہ لیا۔ ان کو وہاں مچھلی کی ہڈیاں ملیں جس سے انھوں یہ اخذ کیا کہ جن لوگوں کو یونانی 'فش ایٹرز' (مچھلی خور) کہتے تھے وہ چار ہزار سال سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔تاہم جو سائنسی شواہد ملے ہیں وہ ساڑھے چار ہزار قبل کے ہیں۔آج یہ جگہ اسی طرح موجود ہے لیکن یہاں سے بہت سا سامان اور آثار چوری ہو چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :