چیف جسٹس صاحب۔۔۔اس طرف بھی دھیان دیں

منگل 27 مارچ 2018

Muhammad Arslan Farid

محمد ارسلان فرید

چیف جسٹس صاحب کا گلاب دیوی ہسپتال کا دورہ، امپورٹڈ ڈبوں پر "یہ دوھ نہیں غذا ہے" لکھنے کیلئے 6 ماہ کی مہلت، نجی میڈیکل کالجوں کو زائد فیس واپس کرنے کا حکم، یہ کچھ خبریں ہیں جو آج کل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں "میں چاہتا ہوں میرے بعد لوگ مجھے یاد رکھیں"۔ عوام خوش ہے کے چلو کوئی تو ہے جو ہمارے بارے میں سوچ رہا ہے کوئی تو ہے جو کام کر رہا ہے۔

سوا ل یہ ہے کہ کیا یہ کام چیف جسٹس صاحب کے کرنے والے ہیں، آخر یہ سب کام چیف جسٹس صاحب کو کرنے کی ضرورت کیوں پڑی، اگر یہ سب کام چیف جسٹس صاحب کے ہی کرنے والے ہیں تو محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، محکمہ خوراک ان سب کو تالے لگا دیں، آخر ہمیں ان محکموں کی ضرورت ہی کیا ہے۔
چیف جسٹس صاحب اگر آپ واقعی ہیرو بننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کے بعد لوگ آپ کو یاد رکھیں تو جس کا کام ہے اسی سے کروائیں، شاخیں مت کاٹیں جڑوں کی طرف دھیان دیں، بھوکے کو کھانا کھلا کر اسے اپنا محتاج بنانے کی بجائے بھوکے کو کھانا کمانا سیکھا کر عزت سے جینا سیکھائیں، اداروں کو اپنا کام خود کرنا سیکھائیں، بنیادی سسٹم کو ٹھیک کریں، اگر سسٹم میں رشوت ہے تو کیوں ہیں؟ اگر کوئی بھاری رشوت دے کرسرکاری نوکری پر آئے گا تو وہ اپنی رشوت کے پیسوں کو پورا کرنے کیلئے رشوت ہی لےگا۔

(جاری ہے)

یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے بس ایک دوسرے پر الزام تراشی ہے۔
اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ آپ اس سسٹم کو درست کر سکتے ہیں اگر آپ وہ کام کریں جو آپ کو کرناچاہیے اور وہ ہے فوری انصاف کی فراہمی، غریب اور امیر کے لئیے ایک ہی قانون، قانون پر عملدرآمد۔ اس وقت ہزاروں ایسے کیسز ہیں جن کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی، لوگ کیس کے فیصلے کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر فیصلہ نہیں آتا۔

معمولی سے معمولی کیس کے فیصلے میں بھی 2 سے 3 سال لگ جاتے ہیں، عدالت میں 10 منٹ کی بحث کے بعد اگلی پیشی 3 ماہ بعد۔ اس ملک میں کوئی بھی ان پڑھ شخص کسی بھی پڑھے لکھے آدمی کو ہمارے موجودہ نظام انصاف کے تحت ذلیل و خوار کر سکتا ہے اور اگر 8،10،12 سال ذلیل ہونے کے بعد ہمارا یہ عدالتی نظام اسے با عزت بری کر بھی دے تو وہ معاشرے کے طعنوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔


چیف جسٹس صاحب اگر آپ واقعی ہیرو بننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام آپ کو یاد رکھیں تو جناب قائداعظم محمد علی جناح کے دیرینہ خواب کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ وہ ایک کام جسے مکمل کرنے میں قائداعظم محمد علی جناح کی صحت نے ان کا ساتھ نہ دیا وہ ہے پاکستان کا اپنا نظام انصاف۔ ریلوے اور تعلیم کے نظام کے ساتھ ساتھ ہمارا موجودہ نظام انصاف بھی انگریز کی چھوڑی ہوئی باقیات میں سے ایک ہے۔

وہ انگریز جس کے اپنے ہاں پاس ہونے کیلئے 100 میں سے 65 نمبر درکار ہوں اور وہ صرف اس غرض سے برصغیر میں پاس ہونے کے لئے 100 میں سے 32.5 نمبر کی شرط رکھے کہ برصغیر کے لوگ عقلمندی میں ہم سے کمتر ہیں اس انگریز کا بنایا ہوا نظام ہمارے حق میں کیسےہو سکتا ہے، اور اگریہ ہمارے حق میں درست ہے تو قائداعظم محمد علی جناح اس نظام کو بدلنا کیوں چاہتے تھے۔ کیا ہم اس قابل نہیں کہ اپنا نظام انصاف بنا سکیں؟ کیا انگریز سچاہے کہ ہم سچ میں کمتر ہیں؟ ایسی کونسی وجہ ہے جو ہمیں اس بارے میں سوچنے نہیں دیتی۔ حضور والا کچھ اس طرف بھی دھیان دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :