عہد تجدید وفا کا تقاضا

پیر 26 مارچ 2018

Zameer Afaqi

ضمیر آفاقی

پاکستان قدرت کے بے بہا خزانوں سے مزین ایسی سر زمین ہے جس کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے اور اس میں بسنے والے تمام افراد کو ایک لڑی میں پرو کر قوم کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوششوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ عہد تجدید وفا کا تقاضا تو یہ بھی ہے کہ ہم رنگ و نسل کے فرق سے بالا تر ہو کر اس عظیم ملک کے بارے میں سوچیں جو ہمارے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے ہمیں تاریخ اور قرارداد پاکستان سے سبق لینے کی ضرورت ہے جہاں ہم نے یہ عہد کرنا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے وہیں ہمیں پاکستان کی زمین کے اندر سے چھپے ہوئے خزانوں کو تلاش کرنے کے لئے اپنی بے پناہ صلاحتیوں کو استعمال کرتے ہوئے ایسی عظیم مملکت بنانا ہے جو ناقابل تسخیر ہو۔

(جاری ہے)


اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں جائے بغیر جو دستیاب معلومات ہیں ان کے مطابق دنیا کا سب بڑا دریائی اور نہری نظام پاکستان میں ہے۔ جبکہ برف سے ڈھکے سفید پوش پہاڑوں ،گلیشیرز کا سلسلہ زلف یار سے بھی دراز ہے۔ یہ پانی کے وہ قدرتی پہاڑ ہیں جس میں ہماری کسی کوشش یا جدو جہد کا عمل نہیں اگر ہم قدرت کی عطا کردہ اس نعمت کو محفوظ بنانے اور استعمال کرنے کا سلیقہ سیکھ جائیں تو ہمیں پانی کی کمی کا سامنا کبھی بھی نہیں کرنا پڑئے گا جبکہ اس پانی سے ہماری بنجر زمینیں سیراب ہو کر وافر اجناس، پھل اورسبزیاں پیدا کر سکتیں ہیں۔


کپاس کی پیداوار میں ہم دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ گندم اور پیاز کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر۔ ہم گنے کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہیں جبکہ آم کی پیداوار میں ہمارا چوتھا نمبر ہے۔ دودھ اور کھجور کی پیداوار میں ہم پانچویں نمبر پر ہیں۔ یو ایس ایڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دس ہزار ٹریلین مکعب فٹ سے زائد شیل گیس اور 2323 بلین بیرل شیل آئل کے ذخائر موجود ہیں۔

پاکستان کا نہری نظام دنیا میں آج بھی پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود ہماری فی کس سالانہ آمدنی صرف آٹھ سو اٹھارہ ڈالر تک پہنچی ہے جو سوچنے کا مقام ہے۔ پاکستان کا شمار ان خوش قسمت ملکوں میں ہوتا ہے جہاں چاروں موسموں کی بہارہیں اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ ہمارئے شمالی علاقہ جات کے حسن کے آگے سوزرلینڈ کی کیا حیثیت؟ اگر ہم اپنے ان سیاحتی مقامات میں مناسب سہولیات ،سیاحوں کے تحفظ اور ضروریات کا بندوبست کرنے کے ساتھ بہتر انتظامی نظام قائم کر لیں تو ہم صرف سیاحت کے فروغ سے ایک امیر ترین ملک بن سکتے ہیں جبکہ ان علاقوں میں خوشحالی آ سکتی ہے۔

پاکستان دنیا بھر کی سمندری خوراک کو پورا کرنے میں بھی بہت بڑا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن ہماری ترجیحات شائد کچھ اور ہیں۔ پاکستان ایک ایسا خطہ سر زمین ہے جس کی افرادی قوت بے مثال ھے، ہنر مند اور ایک سے ایک قابل افراد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ہم انے نوجوانوں کو راہنمائی کرنے سے قاصر ہیں اور اور یوں بریں ڈرین ہو رہا ہے جو کسی بھی ملک کے لئے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

سب سے بڑھ کر ہم دنیا کی سب سے زیادہ منظم اور قابل بری بحری اور فضائی افواج رکھتے ہیں جو ہمارا فخر اور تحفظ کی ضمانت ہے۔
یوں تو پاکستان کا ہر شہر اور صوبہ اپنی مثال آپ ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑئے صوبے بلوچستان میں قدرتی وسائل کی فروانی قدرت کا بے بہا عطیہ ہے ۔دستیاب معلومات کے مطابق بلوچستان جنوبی ایشیاء کے اس خطے میں واقع ہے کہ جس کے ایک جانب ایران اور دوسری جانب افغانستان ہے اور تیسری جانب800 کلومیٹر طویل بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی موجود ہیں۔

بلوچستان کی ڈیپ پورٹ گوادر سے صرف 45ناٹیکل میل کی دوری پر عمان کی ریاست واقع ہے جبکہ 150 ناٹیکل میل کی دوری پر آبنائے ہرمز ہے کہ جو دنیا کی مصروف ترین بحری تجارتی گزر گاہ ہے کہ جہاں سے صرف تیل کی دنیا کو سپلائی ایک تہائی سے زیادہ ہوتی ہے۔بلوچستان کی ڈیپ بندرگاہ گوادر جلد ہی ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کرنے والا ہے۔ یہاں سے چین، افغانستان اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان ،ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں تک جانے کے لیے سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔

گوارد کی بندر گاہ خلیج فارس ،بحیرہ عرب ،بحر ہند ،خلیج بنگال اور اسی سمندری بیلٹ میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ گہری بندر گاہ ہے کہ جس میں 50ہزار ٹن سے لیکر ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے کہ جہاں پر معدنیات بھی دیگر صوبوں سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔پاکستان کے ممتازایٹمی سائنسدان اور پلاننگ کمیشن کے رکن سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر ثمر مبارک کے مطابق بلوچستان کے علاقے ریکوڈک کی سونے و تانبے کی کانوں کے ایک چھوٹے سے حصے ای ایل 5، میں ہی 270 ارب روپے ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں اور اسی بیلٹ میں بہت سے بڑے ذخائر بھی موجود ہیں جن سے ملک کومزید کئی ارب ڈالر کی آمدن ہوسکتی ہے۔

جبکہ باقی کے حصے میں ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد کی معدنیات موجود ہو سکتی ہیں۔ بلاشبہ امریکا اور یورپی ممالک کی صنعتی ترقی میں وہاں کے معدنی وسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔صنعتی شعبہ میں کوئلہ کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایندھن کا کام بھی دیتا ہے اور طاقت کا سرچشمہ بھی ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ بلوچستان میں ڈیگاری، شریگ اور سوئر کے مقام پر اس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔

پٹرول کو ذرائع نقل و حرکت میں نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ جبکہ پٹرول سے متعدد پٹرولیم مصنوعات بھی تیار کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں پٹرول کی پیداوار بہت کم ہے۔ تاہم پاکستان کے کچھ علاقوں سے ابھی بھی تیل نکالا جا رہا ہے جبکہ بلوچستان میں 1952میں پہلی مرتبہ تیل دریافت ہوا۔ مزید تیل کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے، جس میں حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔


جدید مشینی دور میں کوئلہ اور پٹرول کی طرح لوہے کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے ملک میں لوہے کی پیداوار اگرچہ بہت کم ہے۔ 1965-66ء کے درمیانی عرصہ میں اس کی پیداوار26ہزار597ٹن سالانہ تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ تعداد ملکی صنعتوں کی ضروریات کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ پنجاب کے علاوہ بلوچستان میں کوئٹہ کے پاس لوہے کے ذخائر موجود ہیں مگر پاکستانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے پہاڑی سلسلے میں لوہے کے وسیع ذخائر ہو سکتے ہیں۔

جن کی تلاش کا کام جاری ہے۔کیمیائی صنعت میں گندھک بہت کار آمد ہے۔ پاکستان میں گندھک کی زیادہ مقدار بلوچستان میں ہی پائی جاتی ہے اور اسے صاف کرنے کے کارخانے کراچی اور کوئٹہ میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ بلوچستان کے علاوہ گندھک قلات، خیر پور، مردان اور جیکب آباد میں بھی پائی جاتی ہے۔ گندھک سوئی گیس سے بھی حاصل کی جاتی ہے۔کرومائیٹ ایک ایسی دھات ہے جو متعدد دوسری دھاتوں کی تیاری میں کام آتی ہے اور اس کا صنعت میں بہت استعمال ہوتا ہے۔

علاوہ بریں یہ اسلحہ سازی اور چمڑا رنگنے کے بھی کام آتی ہے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں کرومائیٹ کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔جپسم ایک ایسی قسم کا پتھر ہے جو پلاسٹر آف پیرس اور رنگ و روغن وغیرہ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سیمنٹ بنانے میں بھی جپسم استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں جپسم ملکی ضروریات کے لیے کافی مقدار میں دستیاب ہے اور یہ پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور قلات کے علاقوں میں وسیع تعداد میں ملتا ہے۔

جبکہ قدرتی گیس سے تو بلوچستان ایک مالامال علاقہ ہے۔1952ء میں بلوچستان میں سوئی کے مقام پر تیل کے کنووں کی تلاش کے دوران ہی قدرتی گیس کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔ جس کی مقدار تقریباً 60 کھرب مکعب فٹ بتائی جاتی ہے۔پاکستان کی گھریلو ضروریات کے علاوہ صنعتوں کی ایک بڑی تعداد اسی گیس پر انحصار کرتی ہے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ ہم جہاں جہاں جس بھی مقام پر ہیں اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :