مولوی،، بے چارہ ،،کیوں۔؟

پیر 26 مارچ 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اغیارکے اشاروں پرناچ کرشیطان کی پیروی اوروکالت کرنے والے مٹھی بھرملاؤں کی وجہ سے مدارس اوراہل مدارس کوہردورمیں تنقیدکانشانہ بنایاگیا۔نفرت ،تعصب ،بغض اورحسدکی عینک پہننے والوں کوان مدارس سے نکلنے والے لاکھوں اورکروڑوں حفاظ،عالم ،مفتی،مفسر،مبلغ اورخطیب توکبھی نظرنہیں آئے لیکن شراورفسادکی بوانہیں جب بھی کہیں سے محسوس ہوئی انہوں نے اس بوکارخ ان مدارس اوراہل مدارس کی طرف موڑکرمدارس اوراہل مدارس کورگڑنے میں ذرہ بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔

اغیارکی خوشنودی کیلئے ہردورمیں شراورفسادکے تانے بانے انہی مدارس اوراہل مدارس سے ملانے کی ہرممکن کوششیں کی گئیں ۔ان مدارس سے اٹھنے والی امن کی آشااورقال اللہ اورقال رسول اللہ ﷺکی صدائیں توکسی کوسنائی نہ دیں لیکن بم دھماکے اورخودکش حملے جہاں بھی ہوئے انگلیاں سب کی ان مدارس کی طرف ضرور اٹھیں ۔

(جاری ہے)

ملافضل اللہ،علامہ طاہرالقادری اورعلامہ خادم حسین رضوی پرتونظرسب کی پڑی لیکن ان مدارس سے نکلنے والے لاکھوں اورکروڑوں حفاظ،عالم ،مفتی،مفسر،مبلغ اورخطیب جوامن ،محبت اوراخوت کاعلم اٹھائے آج بھی دنیاکے کونے کونے میں جہالت کی تاریکیوں میں دئیاجلارہے ہیں وہ آج تک کسی کونظرنہیں آئے۔

آمریت اورجمہوریت سے لے کرملک کے پورے نظام میں ہمیشہ اکثریت کواقلیت پرترجیح دی گئی لیکن مدارس اوراہل مدارس اس معاملے میں بھی بدقسمت ٹھہرے ۔یہاں اکثریت کو نظراندازکرکے ہمیشہ اقلیت کوسندکادرجہ دیاگیا،کسی سکول ،کالج اوریونیورسٹی سے نکلنے والے کسی پروفیسر،ڈاکٹر،انجینئر،ٹیچر،گلوکار،فنکار،پولیس،وکیل ،کھلاڑی اوربزنس مین کا کبیرہ گناہ تو یہاں ،،ذاتی فعل ،،شمارہوالیکن بات جب کسی داڑھی رکھنے والے ان پڑھ اورجاہل کی بھی آئی تب بھی مدارس اوراہل مدارس اس بنیادپرقصوارٹھہرے کہ مجرم کی داڑھی ہے ضرور اس کاکسی مدرسے اورمولوی سے تعلق ہوگا۔

بے چارہ ،،مولوی،،لوگوں کی گھورتی آنکھوں اورکھاتی نظروں سے نہ پہلے بچااورنہ ہی آج بچ رہاہے۔بات اورغلطی داڑھی رکھنے والے کسی سکھ کی بھی ہوگی لوگ انگلیاں پھربھی ،،مولوی،،کی طرف اٹھائیں گے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ مولوی سارے فرشتے ہیں ۔علماء کی صفوں میں ملافضل اللہ جیسے مٹھی بھرشرپسندآج بھی ہوں گے لیکن یہ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ مدارس اوراہل مدارس کی اکثریت فرشتہ صفت علماء اورطلباء پرمشتمل ہے۔

جب اکثریت امن پسنداورمحب وطن ہیں توپھراقلیت کواکثریت پرترجیح دے کردینی مدارس کوبدنام کرنے کی کیاضرورت۔۔؟جس طرح کسی پروفیسر،ڈاکٹر،انجینئر،ٹیچر،گلوکار،فنکار،پولیس،وکیل ،کھلاڑی اوربزنس مین کا جرم اورگناہ اس کاذاتی فعل کے زمرے میں آتاہے اسی طرح کسی فضل اللہ اورکسی داڑھی والے کاجرم اورگناہ پھراس کاذاتی فعل شمارکیوں نہیں ہوتا ۔

۔؟کیامدارس اوراہل مدارس کونشانہ بنانا فرض ہے۔۔؟کہتے ہیں کہ باڑے میں جوجانوربڑاہوجائے اس کے پھردانت نہیں گننے جاتے ۔ہم نے ان مدارس اوراہل مدارس کے درمیان بہت وقت گزاراہے ۔آج تک ہم نے کسی مفتی ،عالم اورقاری کی زبان سے امن ،محبت اوراخوت کے علاوہ کوئی لفظ نہ سنااورنہ ہی کبھی پڑھا۔ملائیت کے لبادے میں اگرکوئی ملافضل اللہ بنابھی توہم نے دینی مدارس کے کسی طالب علم کواس کے قریب جاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا،اسلام ،ملک اورملت کے خلاف جوبھی بات کرے ،فتویٰ دے ،درس وتدریس کرے ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں اورآج بھی ڈنکے کی چوٹ پرکہتے ہیں کہ اس کوچوک اورچوراہے پرالٹالٹکایاجائے لیکن خدارانفرت ،تعصب ،بغض اورحسدکی عینک پہن کراغیارکے اشاروں پرمدارس اوراہل مدارس کوبدنام نہ کیاجائے ۔

یہ مدارس اسلام کے قلعے اوردین کی حقیقی نرسریاں ہیں ۔یہاں آنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں ، فرشتے ان کے آگے اپناپربچاتے ہیں اورمچھلیاں ان کے لئے دعائیں کرتی ہیں ۔ان مدارس اوراہل مدارس کے درمیان رہ کردل کوبڑاسکون ملتاہے۔چنددن پہلے مولاناقاضی محمداسرائیل گڑنگی جنہوں نے دین اسلام کی سربلندی کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ملک کابچہ بچہ جن کے نام سے واقف ہے ۔

مولاناقاضی محمداسرائیل گڑنگی اپنی لازوال قربانیوں کی بدولت واقعی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی دعوت پرمانسہرہ اپرچنئی میں قائم ان کے مدرسے جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات میں ختم بخاری شریف کی پررونق اوربابرکت تقریب میں شرکت کاموقع ملا،چندگھنٹے کی تقریب اورمحفل سے دل ودماغ کوبہت سکون ملا،اللہ کے گھراوردرپرواقعی دل کو سکون بہت سکون ملتاہے مگرافسوس ہم اس حقیقت کوآج تک نہیں سمجھ سکے ہیں ۔

آج کاانسان فحاشی وغریانی،شراب وکباب اوربازاروں میں سکون تلاش کرتے کرتے مال ،دولت اورصحت سے ہاتھ دھوبیٹھتاہے لیکن مرض کے علاج کے لئے اللہ کے گھراوردرکارخ آسانی سے نہیں کرتا۔یہی ایک گھراوردرتوہے جس کی کوئی مثال ہی نہیں ،اسی لئے تومسلمانوں سے کہاگیاکہ تم پراگرکوئی مشکل،پریشانی اورمصیبت آئے توفوراًمصلے پرکھڑے ہوجاؤ،اللہ کاذکردل کوآکسیجن فراہم کرتاہے ۔

قال اللہ اورقال رسول ﷺ کی صدائیں بلندکرنے والوں کے دل کبھی مردہ نہیں ہوتے۔ ان کے درمیان رہنے والے مردہ ضمیربھی پھرجاگ اٹھتے ہیں ۔مولاناقاضی محمداسرائیل گڑنگی سمیت یہ مدارس اوراہل مدارس والے واقعی بہت خوش قسمت ہیں کہ یہ زندگی کے اصل مقصدکوسمجھ کربغیرکسی اجرت ،عہدے اورتنخواہ کے ایک اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔اس ملک میں جاگیرداروں،سرمایہ داروں ،خانوں اورنوابوں کی بھی کوئی کمی نہیں لیکن مدارس اوراہل مدارس پروردگارعالم نے ہمیشہ وہ چننے جن کے پاس اکثراوقات ایک وقت کی روٹی کیلئے بھی جیب میں کچھ نہیں ہوتا۔

یہ مدارس کیسے چلتے ہیں ۔؟یہ سوچتے ہوئے بھی انسان حیران وپریشان ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔ اللہ پاک واقعی دین کاکام ہر کسی سے نہیں لیتا۔جس سے لیتاہے اسے پھروہاں سے خزانے دیتاہے کہ جوکسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔یہ اہل مدارس ہمارے دشمن نہیں ہمارے محسن اوریہ مولوی،، بے چارہ،، نہیں یہ ہماراامام اوراللہ کامہمان ہے۔ ماناکہ پروفیسر،ڈاکٹر،انجینئر،ٹیچر،گلوکار،فنکار،پولیس،وکیل ،کھلاڑی اوربزنس مین کے بغیرہماری یہ دنیاادھوری ہوگی لیکن اس بے چارے مولوی کے بغیرتوہمارے دونوں جہان ادھورے رہیں گے۔

جس مولوی کے ہاتھ میں قوم کی امامت ہو۔دنیامیں آنے اورجانے والے ہرانسان کاناطہ جس مولوی کے ساتھ جڑاہواہووہ مولوی آنکھوں کاتارااورقوم کاامام ہوتاہے دہشتگرد،انتہاء پسنداوربے چارہ نہیں ۔جومولوی بھی ملائیت کے لبادے میں شیطان کی وکالت کرے،جوذاتی اورسیاسی مفادکیلئے فتوؤں کی سٹال لگائے،جودنیاکمانے کیلئے قوم کوآپس میں تقسیم کرے،جواسلام اورمسلمانوں کودنیاکے سامنے تماشابنائے۔

اسے شیطان نمامولوی پر ایک نہیں ہزاربارلعن طعن کیاجائے،اس کامنہ کالاکرکے اسے گدھے پربٹھاکرشہرشہراورگلی گلی میں پھرایاجائے،اسے الٹالٹکاکردنیاکے لئے نشان عبرت بنایاجائے لیکن خداراخدارا۔ایسے مٹھی بھرشیطانوں کی وجہ سے مدارس اوراہل مدارس کومفت میں بدنام کرنے کایہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیاجائے۔یہ مدارس دین اسلام کے قلعے اوراہل مدارس نہ صرف اللہ کے مہمان ہیں بلکہ ہمارے محسن بھی ،آےئے اپنے ان محسنوں اوراللہ کے ان مہمانوں کی دل سے قدرکرکے دینی مدارس کے خلاف اغیارکی سازشوں اورکوششوں کوناکام بنائیں۔اللہ ہمیں دین کی خدمت کرنے والوں سے محبت کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :