جمہوری ڈاکٹرائن ۔ قومی چیلنجز کا حل کیسے ؟

پیر 26 مارچ 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

گذشتہ ہفتے محترم سہیل وڑائچ صاحب کی ڈاکٹرائن کے حوالے سے ایک تحریر شائع ہوئی۔اس تحریر پر ملکی اور صحافتی حلقوں میں بہت بحث رہی۔ درج ذیل تحریر اسی تناظرمیں ہے۔ اس تحریرکا قطعا مقصد سہیل صاحب کی تحریر کی تردید یا تصدیق نہیں ،بلکہ جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان کے بارے میں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرنا ہے۔ کوشش کی ہے کہ موضوعات پر بحث کرتے ہوئے اسی ترتیب سے بات کو پیش کیا جائے تاکہ قارئین ایک دوسرے نقطہ نظر تک رسائی حاصل کر سکیں۔


گزشتہ ستر سال نے اس ملک میں بہت سے ابہام تخلیق کر دیئے ہیں۔ حق حاکمیت کس کا ہے؟ بالا دستی کس کو حاصل ہے؟دست نگر کس کو رہنا ہے؟ قانون کون سا لاگو ہونا ہے؟ آئین کی تقدیس کس چڑیا کو کہتے ہیں؟ پارلیمان کا مقام کیا ہے؟ طرز حکومت کونسا بہتر ہے؟ صدارتی نظام ، غیر جماعتی انتخابات ، ٹیکنو کریٹس ، آمریت یا سیاسی حکومتوں میں سے کس کا مقام ارفع ہے؟ 1973 کے آئین کی کیا اہمیت ہے؟ کون کس کو جوابدہ ہے؟ ان بنیادی معاملات پر اس ملک میں بہت ابہام پایا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

” لپ سروس “ کے طور پر ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ جمہوریت کی طرف داری تو کریں گے،1973کے آئین کو ارفع ضرور کہیں گے لیکن حقیقی واقعہ کچھ اور ہے۔ اس ملک کی نصف عمر فوجی اقتدار تلے گزری ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ ان ادوار میں بھی زبان پر نعرہ جموریت کا ہی رہا اور وعدہ انتخابات کا ہوتا رہا ۔ لیکن اس کے باوجود آئین کو پاوں تلے روندا گیا۔ سیاسی شخصیات کی تضحیک کی گئی۔

رائے عامہ کو بوٹوں تلے کچلا گیا۔باقی ماندہ جن ادوار میں جمہوریت رہی ہے وہاں بھی آمریت کا سایہ جمہوریت پر تنا رہا۔ستر سالہ تاریخ میں جس سیاسی شخصیت کی سوچ عوام میں جڑ پکڑنے لگی ،اس سے اختلافات کواس حد تک پہنچایاگیا کہ یا تو وہ شخصیت نہیں رہی یا پھر اسکا نظریہ ہی ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر نواز شریف تک بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں سیاسی رسوخ ہی وجہ عناد بن گیا۔

ہر دور میں ایک مائنس ون فارمولہ سیاستدانوں کے سر پر تلوار کی طرح لٹکتا رہا ۔ اداروں اور پارلیمان کی جنگ اس دھرتی پر دہائیوں سے لڑی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے اس جنگ میں فتح ہمیشہ اداروں کا مقدر ہوئی ہے اور شکست ہمیشہ سیاستدانوں کے گلے کا ہار بنی ہے۔کتنی ہی دفعہ جموریت پر شب خون مارا گیا مگر اس جرم کاا عتراف آج تک اس قوم کونصیب نہیں ہوا۔

سیاستدانوں کو کبھی کرپشن کے نرغے میں لیا گیا ،کبھی غداری کا بہتان لگا اور کبھی انکے بارے میں کفر کے فتوے جاری ہوئے۔الزامات کی اس بوچھاڑ کا شکار عوامی نمائندگان ہی رہے دوسرے ادارے ان مکروہات سے نہ جانے کیسے بچے رہے؟یہی بنیادی سوال اس ملک دہائیوں سے کیا جا رہا ہے اور اسکی ملک کی ابتری کا سبب بھی اسی سوال میں مضمر ہے۔
بین الاقوامی وژن
اس ملک کا بین لاقوامی وژن دو تاریک فیصلوں میں پوشیدہ ہے۔

بد قسمتی سے دونوں فیصلے آمریت کے دور میں کیئے گئے او ر ان مہیب فیصلوں میں نہ عوامی نمائندوں کی رائے شامل رہی نہ عوام کی منشاء حاصل کی گئی۔جنرل ضیاء الحق نے ہمیں روس سے جہاد کا سبق دیا۔ ہم نے امریکی امداد سے یہ ایمانی فریضہ پوری شدومد سے ادا کیا ۔ اسی مقصد کے لئے ملک میں جہادی مدارس قائم کیئے گئے اور روس کو نہ جانے کن گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکا گیا۔

اس ایک جنگ میں شرکت سے ہم نے روس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سماج ، ثقافت اور سیاست کو بھی شکست دی۔ 1977 سے پہلے کا پاکستان سماجی ، سیاسی اور ثقافتی طور پر ایک مختلف پاکستان تھا۔ہیروئن ، کلاشنکوف ، مذہبی پر تشد د تنظیمیں اور لسانی جماعتیں اسی دور کی پیداوار ہیں۔ چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک ہم اس ایک فیصلے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

نائن الیون کے بعد کی جانے والی ایک فون کال نے اس ملک کی خارجہ پالیسی کو دوسرا یو ٹرن لینے پر مجبور کیا ۔ اس دفعہ بھی اس فیصلے کی سعادت ایک ڈکٹیٹر کو نصیب ہوئی۔وطن بدری کی بناء پر عوامی نمائندگان اس فیصلے میں شریک نہیں ہوئے۔ اس نئے یو ٹرن نے صورت حال کو دگرگوں کر دیا۔ ہم اپنی لگائی ہوئی پنیری اپنے پاوں تلے روندنے لگے۔ جن مدارس میں افغان جہاد کی تربیت دی جاتی تھی انہی کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا۔

ان آپریشنز میں وقتی کامیابی تو نصیب ہوئی مگر اس طرح کی سماجی تبدیلی فوجی آپریشنز سے وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ اس کے لئے عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا پڑتا ہے۔ جس کی دور آمریت میں کبھی کوئی روایت نہیں رہی۔
انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی
کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اس مسئلے کو تسلیم کیا جائے۔انسداد دہشت گردی کے معاملے پر ہم بنیادی باتوں کو تسلیم کرنے میں ابہام کا شکار ہیں۔

خارجہ پالیسی کے دو عبرتناک فیصلوں کاخمیازہ ہم بھگتتے رہے مگر اس بات کو تسلیم کرے سے قاصر رہے کہ خامیاں اب ہمارے اپنے گھر میں بھی ہیں۔ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کو الزام دینے سے پہلے ہمیں تسلیم کرنا ہے کہ ہمیں اپنا گھر بھی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔یاد رہے ،ہم ہی وہ لوگ ہیں جو افغانستان کو اپنا پانچوں صوبہ بنانے کے خواہاں تھے۔ ہم ہی نے اچھے اور برے طالبان کا نظریہ تخلیق کیا تھا۔

ہم ہی نے اپنے فیصلوں سے فرقہ پرستی کو ہوا دی تھی۔ ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ بھی ہمارے مقدر میں دہائیوں سے رہی ہے۔ اپنی موجودہ صورت حال کا مورد الزام دنیا کو ٹھہرانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو تسلیم کریں ۔ سماج میں تبدیلی اگر درکار ہے تو اس کے لئے بندوق کا سہارا کافی نہیں ہے۔ قلم کی اہمیت کو تسلیم کریں ۔ فنون کو فروغ دیں ۔

معاشرے کو گھٹن سے آزاد کریں۔ بات کہنے کی آذادی اگر نصیب ہوگی تو مکالمہ آگے بڑھے گا۔
کمانڈ کی اصل جڑیں
کمانڈکی اصل جڑیں پارلیمان کی بالا دستی تسلیم کر لینے میں ہے۔ براہ راست اور بلاواسطہ جمہوریت کی جڑیں کاٹنے سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ اگر ہم پورے صدق دل سے تسلیم کریں کہ آئین پاکستان کے مطابق حاکمیت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔

پارلیمان سے بالادست کوئی قوت نہیں ہے۔ جمہوریت اصل رستہ ہے۔ شب خون مارنے والے مجرم ہیں۔ آئین کو توڑنے والے غدار ہیں تو کمانڈ اسکے اصل وارث تک پہنچے گی۔ اسی طرز جمہوریت سے کمانڈ کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی اور ملک کی ترقی بھی ہوگی۔
سیاسی نظریہ کیا ہے؟
آئین پاکستان کے تحت اس ملک کا سیاسی نظریہ جمہوریت ہے اور جمہوریت کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔

اسکی سرایت پذیری کی رفتار گرچہ سست ہوتی ہے مگر اسکی اثر پذیری دیر تک رہتی ہے۔ ایک بری جمہوری حکومت کا حل مارشل لاء نہیں بلکہ ایک اور جمہوری حکومت ہے۔سادہ سی مثال ہے زرداری دور حکومت میں حالات بہت بدتر تھے اب حالات پہلے سے بہتر ہیں اور اگر جمہوریت کا تسلسل قائم رہتا ہے تو اگلی حکومت کواس سے بہتر ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں۔

جمہوریت کے قتل کے لئے عدلیہ کا سہارا طرز جمہوریت نہیں ہے۔ ووٹ کی تقدیس کو مان لینا ہی درست سیاسی نظریہ ہے۔
مالیاتی معاملات میں بہتری کیسے ؟
معشیت کی بہتری سیاسی استحکام میں پوشیدہ ہے ۔ اگر ملک کے وزیر اعظم کو ایک ایسے کیس میں نااہل کر دیا جائے کہ جس کی وجہ سے دنیا پھر میں جگ ہنسائی ہو تو معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔

پالیسیوں کا تسلسل ہی بہتر معیشت کی ضمانت دے سکتا ہے۔اگر ہر دس سال کے بعد ہمیں مارشل لاء کی عفریت گھیر لے گی تو ملک اسی طرح دہائیوں تک ترقی معکوس کرتا رہے گا۔ آگے بڑھنے کے لئے عوامی نمائندوں کے فیصلوں کا احترام ضروری ہے۔ کرپشن کے بے بنیاد الزامات شخصیات، نظریات اور معاشیات کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
تاریخی جھلک
ستر سال ہو گئے اس ملک کو معرض وجود میں آئے ہوئے۔

ان برسوں کی تاریخ اسی بات کا سبق دیتی ہے کہ ہم نے اپنے فیصلوں میں عوامی رائے عامہ کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ کسی بھی صوبے کے لوگ ہوں جب وہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوں گے اور آئین کو پامال کرنے والے من مانے فیصلے ان پر مسلط کریں تو تاریخ کے سب صفحات ہمیں سیاہ ہی نظر آئیں گے۔
کما ن کا تسلسل اور تقابل
جمہوریت کے ثمرات اس کے تسلسل میں پوشیدہ ہیں ۔

عوامی حکومتوں کو تسلیم کریں گے تو حالات بہتر ہوں گے۔ آمریتوں میں کیئے گئے فیصلوں کا تقابل جمہوری ادوار کے فیصلوں سے کیا جائے تو عوامی نمائندوں کی رائے صائب قرار پائے گی۔ اس ملک کی بقاء جمہوریت کے تسلسل میں ہے ۔
اصل امتحان
موجودہ صورت حال میں اصل امتحان 2018 کے شفاف اور منصفانہ الیکشن ہیں۔اگر اس میں بھی NA 120 کے ضمنی الیکشن کی طرح مداخلت کی گئی تو تاریکی مقدر بنے گی۔ اگر سینٹ کے الیکشن کی طرح اداروں کی پشت پناہی پر الیکشن کے مینڈیٹ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو نتائج بھیانک ہوں گے۔ جمہوری ڈاکٹرائن ہی مسائل کا حل ہے۔ اس کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اس کی روگردانی تنزلی کا سفر ہے جو ماضی میں اکثر ہمارا خاصہ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :