چلی ّ کی گبریلا مسترال

جمعرات 22 مارچ 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

دنیا کے کسی بھی ملک میں داخل ہوں توامیگریشن اورکسٹم کے بعدپہلا مرحلہ عموماً کرنسی کومقامی سکہ رائج الوقت میں تبدیل کروانا ہوتا ہے۔چلی میں جب مقامی کرنسی ”پیسو“حاصل کریں توہرنرخ کے نوٹ پرکسی قومی ہیرومردکی تصویربنی نظرآتی ہے البتہ پانچ ہزارکے کرنسی نوٹ پر ایک مہربان خاتون کاچہرہ نظرآتا ہے۔یہ نوبیل انعام یافتہ شاعرہ،سفارتکاراورماہرِتعلیم گبریلامسترال ہیں۔

ہسپانوی زبان کی شاعری کوگبریلامسترال نے ایک نیانسوانی لہجہ عطاکیا۔وہ اگرچہ عالمی سطح پربطورماہرِتعلیم اورسفارتکارکے طور پر پہچانی جاتی تھیں،اسی حیثیت سے انہوں نے متعددبارلیگ آف نیشنزسے بھی خطاب کیامگرہسپانوی ادب میں وہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں،ایک ایسی آوازجوادبی دنیامیں صدیوں بعدپیداہوتی ہے اور پھرصدیوں تک یادرکھی جاتی ہے۔

(جاری ہے)


گبریلامسترال لاطینی امریکہ کی پہلی شخصیت تھی جسے ادب کے نوبیل انعام سے نوازاگیا۔وہ ان خوش نصیب تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جن کے فن کا اعتراف ان کی زندگی میں بھی کیاگیا،اورمرنے کے بعد بھی انہیں فراموش نہیں کیا گیا۔چلی میں1884میں پیداہونے والی گبریلامسترال کی شخصیت کے کئی پہلو غیر معمو لی نو عیت کے ہیں ۔ اس کے والد ین نے پیدائش کے وقت جو اسے نا م دیا وہ لو سیا وی ما ریا تھا ،مگر اس نے اپنے دو پسندیدہ شا عرو ں کے نا م کے اشترا ک سے اپنا قلمی نا م اخذ کر لیا تھا ۔

بعض مو رخین کے نزدیک نا م بدلنے کی وجہ اس کے محبو ب کی خو دکشی کا واقعہ ہے ۔ اسی سبب سے جہا ں مسترا ل کے ہا ں قدرتی منا ظر ،محبت ،بے وفا ئی ، نسوانیت اور شفقت مادر کے مو ضوعات ہمیں ملتے ہیں ۔ وہا ں اس کے محبو ب کی خو دکشی کا واقعہ بھی جا بجا اثر اندا ز ہو تا اور شعروں میں ڈھلتا دکھا ئی دیتا ہے ۔ اس کی زندگی ابتدا ء سے ہی دکھو ں اور مصیبتو ں میں گھری ہو ئی تھی ۔

فقط تین برس کی تھی جب والد کا انتقال ہو گیا ۔ بڑی بہن نے پرورش کی ذمہ داری سنبھا لی ، مگر کچھ سا لو ں بعد وہ بھی زندگی کی با زی ہا ر گئی۔ما ں بیما ر رہتی تھی۔ گبریلا فقط پندرہ بر س کی تھی جب وہ گھر کی واحد کفیل بن گئی۔ اپنی بیما ر ما ں کی تیما ر داری کے علا وہ وہ سکو ل میں پڑھا تی بھی تھی ۔ ما لی پریشا نیوں کے سبب اس نے اپنی ذاتی تعلیم ادھوری چھو ڑ دی تھی چو نکہ اس کے والد اور بڑی بہن تدریس کے شعبہ سے وابستہ تھے، اسی لیے کم تعلیم کے با وجود اسے معلمہ کی نو کری مل گئی۔

ویسے بھی ایک صدی پہلے کے چلی میں تربیت یا فتہ اور تجر بہ کا ر اسا تذہ کی شدید کمی تھی ۔ مضا فا تی علا قو ں میں یہ کمی شدید تر تھی لہذا جو بھی خواندہ یا نیم خواندشخص تدریس کے شعبہ میں دلچسپی ظا ہر کرتا اسے کہیں نہ کہیں نو کر ی مل ہی جا یا کر تی تھی۔ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہو کر وہ شہروں شہروں ہجر ت کر تی رہی ، اس کا سبب اس کی طبیعت میں پا ئی جا نے والی شا عر انہ بے چینی بھی تھی ، شو قِ آوار گی بھی ۔


پا بلو نرودا اور گبر یلا مسترال کی پہلی ملا قا ت 1920 ء میں چلی کے شہر تیمو کو میں اس وقت ہو ئی جب نرودا وہا ں ہا ئی
سکو ل کا طا لبعلم تھا اور گبر یلا مسترال اسے ایک سا ل پڑھا تی رہی ، چو نکہ وہ ایک سا ل کے لیے تدریس کے فرائض سرانجا م دینے اس سکو ل میں متعین تھی ۔ اس تنا ظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نرودا اور مسترال میں ایک استا د اور شا گر د کا ذاتی نو عیت کا رشتہ مو جو د تھا،گوکہ دونوں کے شعری نظریات میں اختلاف تھا گبریلا مسترال سیا ست سے دور رہنا پسند کر تی تھی ، اسی لیے جب اٹلی کے مطلق العنا ن حکمر ان مسو لینی نے اسے وزارت کی پیشکش کی تو اس نے لگی لپٹی کے بغیر صا ف انکا ر کر دیا تھا ۔

شا عری کے میدان میں اسے پہلی کا میا بی چلی کے قو می ادب ایوار ڈ کی صو ر ت میں 1914 ء میں حا صل ہو ئی ۔ اگر چہ پندرہ سا ل کی عمر کو پہنچنے تک اس نے کئی یا د گا ر نظمیں تخلیق کر ڈا لی تھیں اور وہ شا ئع ہو کر سند قبو لیت بھی حا صل کر چکی تھیں ،مگر پہلے شعری مجمو عے پر ملک کا سب سے بڑا ادبی انعا م ملنا قو می سطح پر اس کی صلا حیتو ں کا اعترا ف تھا ۔

عا لمی سطح پر گبریلا مسترا ل کا زیا دہ مو ثر تعا ر ف اس وقت ہو ا جب نیو یا رک سے 1922 ء میں اس کا شعر ی مجمو عہ ”تنہائی“ اشاعت پذیر ہوا ۔ اسی بر س وہ میکسیکو کی حکو مت کی دعوت پر وہا ں تعلیم کے شعبے میں خد ما ت سرانجا م دینے چلی گئی۔ سفا ر ت اور تعلیم کے شعبو ں میں خدما ت کے سلسلے میں وہ امریکہ اور یو رپ اکثر جا تی رہتی ۔ چلی سے ترک وطن کے بعد اس کی زیا دہ تر زندگی خو د سا ختہ جلا وطنی میں گز ر گئی ۔

کئی سا ل تک وہ فرانس میں بھی مقیم رہی۔ کئی بر س بعد چلی لو ٹی تو سب سے بڑی یو نیورسٹی نے اسے ڈاکٹر یٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا
حالا نکہ وہ با رہ سا ل کی تھی جب روایتی تعلیم کو خیربا د کہہ دیا تھا ۔ گبریلا مسترال کو بچو ں سے بہت محبت تھی۔ اپنی کئی کتا بو ں کی کما ئی اس نے جنگ سے متا ثرہ بچو ں کے لیے عطیہ کر دی تھی ۔ بچو ں سے اس کی محبت اور ما دری شفقت اس کی شا عری سے بھی چھلکتی ہے ۔


1957ء میں امریکہ کے ایک شہر میں اپنی آخر ی سا نسیں لینے والی اس عظیم نو بل انعا م یا فتہ شا عر ہ کی اسی بابت ایک نظم پیش خدمت ہے ۔”اس کا نا م آج ہے“ہم بہت سی غلطیو ں اور خرا بیو ں کے ذمہ دار ہیں مگر ہمار ا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہم نے بچو ں کو نظر اندا ز کر رکھا ہے ، زندگی کے چشمے کو بھلا رکھا ہے ، بہت سی چیزیں جن کی ہمیں ضرورت ہے ، انتظار کر سکتی ہیں مگر بچے انتظا ر نہیں کر سکتے ۔

یہی وقت ہے جب اس کی ہڈیا ں بن رہی ہو تی ہیں ، اس کا خو ن بن رہا ہو تا ہے اور اس کے حواس خمسہ تشکیل پا رہے ہو تے ہیں ، اس کو ہم یہ جوا ب نہیں دے سکتے کہ ”کل“کیو نکہ اس کا نا م ”آج“ ہے۔
گبریلا مسترال آزادی اور تہذیب کا حصول تعلیم اور خدمت کے ذریعے ہی ممکن سمجھتی تھی۔ اسی مقصد کے لیے اس نے شا عر ی کے سا تھ سا تھ زندگی بھر آزا دی اور تہذیب کی ترقی کے لیے تعلیم دینے اور انسا نی خدمت کرنے کو ایک روحا نی فریضہ سمجھتے ہو ئے انجا م دیا ۔

اس کا خیا ل تھا کہ دوسرا راستہ حیوا نیت اور جنگل کی طر ف انسا ن کو واپس لے جا تا ہے۔ انسا نی جذبا ت کے خو بصور ت اظہا ر کے ساتھ سا تھ لا طینی امریکہ اور یو رپ کی تہذیب کے حسین امتزا ج سے شعری روایت قا ئم کرنے والی گبریلا مسترا ل 67 بر س کی عمر میں کینسر میں مبتلا ہو کر دنیا چھو ڑ گئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :