پاکستان ناگزیر ہے !

منگل 20 مارچ 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں بات کر کے خاموش ہوا تو تین چار اسٹوڈنٹس نے سوالات کے لیے ہاتھ اٹھا لیے، یہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی تھی اور یہ سب بی ایس اور ایم ایس کے اسٹوڈنٹ تھے۔ میں نے باری باری سب کے سوالات لیے اور میرا خدشہ درست ثابت ہوا ، ان سب نے جوا سوال کیا میں پہلے سے اس سوال کے لیے تیار تھا ، ان سب کے سوال کا مرکزی نقطہ نظر یہ تھا کہ ہم پاکستان کی حفاظت کر نہیں سکتے لیکن ہم نے امت مسلمہ کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے، ہم فاٹا اور وزیرستان میں امن قائم نہیں کر سکتے اور شام کے مسلمانوں کی مدد کے لیے مرے جاتے ہیں اور ہم پاکستان سے دہشتگردی ختم نہیں کر سکے لیکن ہم نے روس اور اسرائیل کومزا چکھانے کی ٹھانی ہوئی ہے۔

یہ سوال ان اسٹوڈنٹس کی فکر کا نتیجہ نہیں تھابلکہ یہ ہمارے لبرل دانشوروں کے ذریعے میڈیا کے راستے ان نوجوانوں تک پہنچا تھا۔

(جاری ہے)

میں نے ان سے پوچھا ”آپ کس کلاس کے اسٹوڈنٹ ہیں “ جواب ملا ” بی ایس میڈیا اسٹڈیز کے چھٹے اور چوتھے سمسٹر کے اسٹو ڈنٹس ہیں “ میں نے عرض کیا ” آپ صحافت کے اسٹوڈنٹس ہیں چلیں میں صحافت کے حوالے سے آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں “ وہ تیار ہو گئے ، میں نے صحافت کے متعلق بالکل ابتدائی باتیں ان سے پوچھیں لیکن وہ جواب نہ دے سکے، میں نے کسی بھی موضوع پر ایک پیرا گراف لکھنے کا کہا ، پیرا گراف میرے سامنے آیا تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ، انہیں ٹھیک سے اردوبھی لکھنی نہیں آتی تھی اور جا بجا املاء کی غلطیاں تھیں ، میں دوبارہ ان کے سوالات کی طرف آیا اورعرض کیا ” دیکھو جب ہم امت مسلمہ کی بات کرتے ہیں تو اس کے سب سے پہلے مخاطب ہم خود ہوتے ہیں ، اگر یہاں شامی مسلمانوں کی مدد کی بات ہوئی تواس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہتھیار اٹھائیں اور شام چلے جائیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہاں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں آپ سب سے پہلے ایک سچے مسلمان اور پکے پاکستانی بنیں، آپ اپنی زندگی کو ایک مقصد دیں ، غفلت اور لاپروائی کی زندگی سے نکلیں ، صرف شام نہیں دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو آپ کا ضمیراس ظلم کو ظلم کہے اور آپ اس کے خلاف آواز بلند کریں،یہ مطلب ہے شامی مسلمانوں کی مدد کرنے کا۔

آپ تھوڑی دیر کے لیے امت مسلمہ کے تصور سے باہر آئیں اور مجھے بتائیں کہ یورپی ممالک کے جو لوگ شام اور فلسطین کے حق میں مظاہرے کرتے ہیں کیا وہ امت کا حصہ ہیں ، نہیں نا ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ان مظلوموں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں ، یہ ان کا ضمیر ہوتا ہے جو انہیں ظلم کے خلاف ابھارتا اور باہر سڑکوں پر لے آتا ہے ،لیکن ہم امت کا حصہ ہونے کے باوجود بھی اس ظلم کو محسوس نہیں کرتے اور ہمارا ضمیر اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا ۔

اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس وقت ہم سچے مسلمان ہیں نہ سچے پاکستانی، ہم صرف بھیڑ بکریاں ہیں ، نہ منزل کی خبر نہ راستے کا پتا،آپ اگر میڈیا اسٹڈیز پڑھ رہے ہیں تو اس میں مہارت حاصل کریں ،آپ کوئی نئی میڈیا تھیوری پیش کریں ،آپ ایک اچھے اور پروفیشنل جنرنلسٹ بن کر میدان میں آئیں ،آپ پاکستان میں بیٹھ کر انٹرنیشنل میڈیا میں شام کے خلاف آواز اٹھائیں ، آپ پاکستان میں رہ کر کوئی ایسی این جی او یا طلبہ تنظیم بنائیں جو شامی مسلمانوں کی مدد کرے۔

آپ اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں یونیورسٹی اسٹوڈنٹس میں یہ احساس جگائیں کہ ہمیں ظلم کو ظلم کہنا آ جائے ، آپ ان کے ضمیر کی عدالت کو آباد کردیں ۔آپ کا جو سوال ہے کہ پہلے ہم پاکستان کو تو ٹھیک کر لیں تو میرے بھائیو !میں بھی یہی پیغام دینا چاہ رہا ہوں بلکہ جب بھی کوئی امت مسلمہ کی بات کرتا ہے تو اس کا پیغام یہی ہوتا ہے،اس کے سب سے پہلے مخاطب ہم خود اور بذات خودپاکستان ہوتا ہے، جب ہم خود جاگ جائیں گے ، ہمارا ضمیر جاگ جائے گا ، ہمیں اپنی زندگی کا مقصد واضح دکھائی دے گا اور ہم سچے مسلمان اور پکے پاکستانی بن جائیں گے تو اس کے اثرات خود بخود واضح ہوتے چلے جائیں گے اور امت مسلمہ کے لیے ہمارا کردار خود بخود واضح اور متعین ہو جائے گا۔


پاکستان مسلم ممالک کا امریکا ہے اور اس وقت پاکستان ایسا ملک ہے جو عالم اسلام کے لیے کو ئی کردارادا کر سکتا ہے۔آپ دیکھ لیں اس وقت دنیا میں ستاون اسلامی ممالک ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ انڈونیشیا، پاکستان ، بنگلہ دیش، نائجیریا، مصر ، ترکی ،ا یران، الجزائر ، مراکش ، سوڈان ، یوگنڈا، عراق، ازبکستان ، ملائشیا، افغانستان ، سعودی عرب، یمن، موزمبیق،شام، آئیوری کوسٹ،کیمرون ، قازقستان ،برکینا فاسو ، نائجر،سینیگال، مالی ، چاڈ، تیونس، جمہوریہ گنی، صومالیہ،بینن، آزربائیجان ،تاجکستان، ٹوگو،لیبیا، اردن، سیر الیون ، کرغیزستان، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، لبنان، فلسطین،البانیا ، کویت ،سلطنت عمان، گنی بساو،گیمبیا، گیبون، قطر، جبوتی ، بحرین ، گیانا، اتحاد القمری، سیرینام، برونائی دار السلام اور مالدیپ۔

ان ستاون ممالک میں سے یہ اکیس عرب ملک مصر، شام ، سعودی عرب، بحرین ، قطر، اردن ، عمان ، متحدہ عرب امارات، عراق ، کویت، لبنان، تیونس، مراکش، الجزائر ، سوڈان، یمن ، صومالیہ، لیبیا، فلسطین ، موریطانیہ اور جبو تی ان کو آپ سائیڈ پر کر دیں، کیوں؟ کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے ملک ہیں یہ اپنا دفاع بھی کر لیں تو بڑی بات ہے، ان کے پاس فوج ہے نہ اسلحہ،سوائے تین چار ممالک کے اکثر نے عالمی طاقتوں سے دفاعی معاہدے کیے ہوئے ہیں اور دفاع کے نام پر یہ اربوں ڈالر ان طاقتوں کو دیتے ہیں۔

اس کے بعد آپ افریقہ کے یہ ملک یوگنڈا، موزمبیق، آئیوری کوسٹ، کیمرون ، برکینا فاسو، نائجر، سینیگال، مالی، چاڈ، جمہوریہ گنی، بینن، ٹوگو، سیر الیون ، گنی بساو، گیمبیا، گیبون ، گیانااور سیرینام ان کو بھی آپ سائیڈ پر کر دیں، کیوں؟کیونکہ یہ انتہائی غریب ملک ہیں یہ روٹی کے لیے ترستے ہیں یہ کسی اور کی مدد کیا کریں گے۔اس کے بعد آپ وسطی ایشیا کی ریاستیں ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، کرغیزستان اور ترکمانستان کو بھی نکال دیں۔

اس کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کی یہ ریاستیں انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی دارالسلام اور مالدیپ کو بھی سائیڈ پر کر دیں ، کیونکہ یہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے،باقی کیا بچتا ہے ترکی، ایران او ر پاکستان، ایران کی پالیسی کچھ اور ہے اورترکی کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار اد کر رہا ہے۔باقی کیا بچا پاکستان، پاکستان کے پاس فوج بھی ہے اور اسلحہ بھی ، ہماری فوج دنیا کی دس بہترین افواج میں شامل ہوتی ہے اور ہم اس سے پہلے تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں ، پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین اسلحہ بھی موجود ہے اور اللہ نے پاکستان کو ایٹمی قوت بھی عطا کی ہے ، پاکستان کے پاس تقریبا دس کروڑ نوجوان بھی ہیں اور یہ جغرافیائی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ، پاکستان کا دفاع بھی مضبوط ہے اور یہ زراعت کی دولت سے بھی مالا مال ہے ۔

پاکستان کی دفاعی اور عسکری قوت ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور یہی اس کی کامیابی کی ضمانت بھی، اس موضوع پر ہم اگلے کالم میں با ت کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :