فلسفہ” تصور خد“ا اور اسٹیفن ہاکنگ

اتوار 18 مارچ 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

مشہور جرمن فلسفی کانٹ کا مقولہ ہے “انسان کو حیرت میں ڈالنے کے لئے دو ہی چیزیں کافی ہیں۔” تاروں بھرا آسمان اور انسان کا اپنا وجود“، بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں کام کرنے والے سائنسدانوں جن میں سٹیفن ہاکنگ (جو اب اس دنیا میں نہیں رہے) کا نام سرفہرست ہے۔ انہوں نے سیاہ شگافوں اور بگ بینگ کے متعلق اپنے نظریات کی بنیاد بھی اسی نظریہ عمومی اضافیت پر رکھی تھی۔

لہٰذہ اس عمومی نظریہ اضافیت پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ 76 برس کی عمر میں ممتاز بر طا نوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کے انتقال کے حوالے سے ان کے خاندان کے ترجمان نے انتقال کی تصدیق کردی۔ عالمی شہرت یافتہ مذہبی سکالر مولانا وحید الدین خان اپنی مشہور زمانہ کتاب”اظہار دین“ کے صفحہ 65 اور69 میں ممتاز بر طا نوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی ریسرچ کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں ”ہاکنگ نے کائنات میں ایک قوت کی کار فرمائی یعنی ”ایک خدا“ کے وجود کو سائنسی طور پر تسلیم کیا“۔

(جاری ہے)

ممتاز بر طا نوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے نظریاتی سائنس کے میدان میں عملا بھی کچھ بڑے کام کئے ہیں مثلا ”سنگل اسٹرنگ تھیوری“ جو ”توحید کے نظریے“ کو عملی طور پر ثابت کرتی ہے۔ ”اظہار دین“ کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ نے پیچیدہ رضیاتی حساب سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ صرف” ایک طاقت“ ہے جو پوری کائنات کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کو آئنسٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا تھا، ان کا زیادہ تر کام بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی کے میدان میں ہے۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے اسٹیفن ہاکنگ کے 1966ء میں کیے گئے پی ایچ ڈی کا مقالہ جاری کیا گیا جس نے چند ہی دن میں مطالعے کا ریکارڈ توڑ دیا۔اور چند روز کے دوران اسے 20 لاکھ سے زائد مرتبہ پڑھا گیا اور 5 لاکھ سے زائد لوگوں نے اسے ڈاوٴن لوڈ کیا۔ اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب ”بریف ہسٹری آف ٹائم“ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جسے ایک انقلابی حیثیت حاصل ہے۔

جنوری 1942 میں پیدا ہونے والے اسٹیفن ہاکنگ نے 1959 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کالج میں داخلہ لیا اور تین سال وہاں تعلیم حاصل کی جس کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے نیچرل سائنس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔جس زمانے میں اسٹیفن ہاکنگ طبیعات میں گریجویشن کر رہے تھے اس وقت فزکس کے ماہرین زمین کے ارتقا سے متعلق مختلف خیالات پیش کر رہے تھے جب کہ بگ بینگ اور اسٹیڈی اسٹیٹ تھیوریز کو بہت مقبولیت ملی جس کے بعد 1966 میں اسٹیفن ہاکنگ نے بھی 1965 اس پر ایک مقالہ لکھا جسے بہت پذیرائی ملی۔

1966 میں اسٹیفن کو ریسرچ فیلوشپ ملی اور انہوں نے اپلائیڈ میتھامیٹکس اور تھیوریٹکل فزکس میں پی ایچ ڈی کی۔قارئین محترم،بیسویں صدی عیسوی کا آغاز انسانی فکر اورکائنات کے بارے شعور میں بہت سی تبدیلیوں کا مڑدہ لے کر آیا تھا۔ اور پھر پوری صدی انسان اس فکر کی تشریح میں مگن رہا۔ تشریحات کا یہ سلسلہ چلتے چلتے اکیسویں صدی تک جا پہنچا اور اس دوران انسان نے جو نظریہ کائنات تشکیل دیا اس کو سائنسی فکروعمل میں ڈھالنے کی کوششیں اپنے عروج پر تھیں۔

حتیٰ کہ اکیسویں صدی کے آغاز ہی میں انسان اپنے نظریات کو سائنسی حقائق کے طور پر دیکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اسی رواں سال مارچ کی 17 تاریخ اس عمل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے جب امریکہ کے ھارورڈ سمِتھسونین مرکز برائے فلکیاتی طبیعات نے جنوبی قطب پر لگائی گئی دوربین کے مشاہدات کی بنیاد پر ثقلی لہروں کی دریافت کا اعلان کیا ہے جو انسان کے کائناتی شعور میں خاص اہمیت کی حامل دریافت ہے، اس دریافت نے جدید شعورکائنات کو ایک سائنسی حیثیت میں ڈھالنے میں اہم کردار کیا ہے۔

اگرچہ اس مرکز کے نتائج حتمی نہیں ہیں کیونکہ ابھی اس سلسلے میں مزید شواہد درکار ہیں جن کی کھوج کے لئے پلانک نامی ایک مصنوعی سیارہ سرگرم عمل ہے۔ لیکن تقریباً تمام ماہرین فلکیات و کونیات اس ضمن میں پر امید ہیں۔اس تحقیق کا تعلق بنیادی طور پر آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس نظریے پر کام کرتے ہوئے سائنسدان ہماری کائنات کی بنیادی ساخت کو سمجھنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔

نیوٹن کے سر پر سیب گرنے والا واقعہ تقریباَ ہر پڑھے لکھے شخص کو معلوم ہوگا کہ جب اس نے درخت سے سیب گرتے دیکھا تو اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا چاند بھی زمین پر گر سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال پر غوروفکر کے نتیجے میں اس نے کشش ثقل کا مشہور قانون دریافت کیا اور اسکو ریاضیاتی شکل میں بیان کر دیا۔ اس قانون کے مطابق کائنات میں پائے جانے والے تمام اجسام ایک دوسرے کو ایک خاص قوت کے ساتھ کھینچتے ہیں۔

یہ قوت اجسام کے اوزان کے لحاظ سے بڑھتی ہے اور اسی طرح ان کے دور جانے پر کم ہو جاتی ہے۔ اس قوت کو اس نے کشش ثقل کا نام دیا۔نیوٹن کی اس فکری پرواز کا اثر نہ صرف سائنسی قانون کی صورت میں ظاہر ہوا بلکہ اس نے انسانی فکر اور اسکے شعور کائنات پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے۔ مشہور جرمن فلسفی کانٹ کا مقولہ ہے “انسان کو حیرت میں ڈالنے کے لئے دو ہی چیزیں کافی ہیں۔

تاروں بھرا آسمان اور انسان کا اپنا وجود”۔ گویا اپنی حیرت کومعنی دینے کے لئے انسان ان دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ سے کوئی نہ کوئی نظریہ یا افسانہ تخلیق کرتا آیا ہے۔ مثال کے طور پرنیوٹن کے زمانہ میں یہ توہم پایا جاتا تھا کہ شہاب ثاقب کے گرنے کی وجہ نحوست یا کوئی بدشگونی کی پیشین گوئی ہے۔ لیکن نیوٹن کے دئیے ہوئے قانون ثقل کی وجہ سے اس توہم کا اثر ٹوٹتا رہا اور انسان نے یہ جانا کہ شہاب ثاقب ایک خاص قانون کا پابند ہے۔

اور اس کے گرنے کا تعلق کسی بدشگونی یا نحوست کے ساتھ نہیں ہے۔اپنی تمام تر اہمیت و حیثیت کے باوجود نیوٹن کے قانون ثقل کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ درپیش تھا کہ یہ کشش ثقل دراصل ہے کیا اور کس طرح کام کرتی ہے؟نیوٹن کے بعد سائنسدانوں کی ایک کثیر تعداد اس کے دئیے ہوئے قانون کو استعمال کرتی رہی اور یوں انہوں نے زمین ، چاند ، سورج اور نظام شمسی سمیت فلکیات کے بہت سے معمے حل کر لئے۔

آج کے دور میں بھی ہم طبیعات کے اکثر مسائل کو نیوٹن کے قانون کی مدد سے حل کر سکتے ہیں۔ مثلاَ اگر ہم زمین سے ایک خلائی طیارہ مریخ تک بھیجنا چاہیں تو نیوٹن کے اس قانون کے مطابق بھیج سکتے ہیں۔ لیکن اپنی تمام تر اہمیت و حیثیت کے باوجود نیوٹن کے قانون ثقل کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ درپیش تھا کہ یہ کشش ثقل دراصل ہے کیا اور کس طرح کام کرتی ہے؟ تقریباَ تین صدیوں تک سائنسدان اس مسئلے کا حل نہ ڈھونڈ سکے۔

یہی وہ مسئلہ تھا جس کا حل آنے والے وقتوں کے انسان کے فکری زاویوں کو تبدیل کرنے والا تھا اور جس سے ایک جدید شعور کائنات کی داغ بیل ڈلنی تھی۔ اس حل کو پیش کرنے والا ایک سوئس پیٹنٹ آفس کا کلرک آئن سٹائن نامی نوجوان تھا۔انسان کے کائناتی شعور کے سفر میں آئن سٹائن کا تعارف اس وقت ہوتا ہے جب اس نے انیسیویں صدی کے آغاز ہی میں اپنی اہم دریافت دنیا کے سامنے رکھی اور وہ یہ تھی کہ روشنی ایک محدود رفتار کے ساتھ سفر کرتی ہے! مزید یہ کہ کائنات کی کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار نہیں پا سکتی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ روشنی کو ایک جسم سے دوسرے جسم تک سفر کرنے کے لئے محدود وقت درکار ہوتا ہے۔ گویا روشنی کی کرن سورج سے زمین تک فوری طور پر نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن اس دریافت سے نیوٹن کے قانون کا معمہ کیسے حل ہو؟ مزید دس سال کی ریاضت کے بعد آئن سٹائن نے ایک انوکھا جواب تلاش کیا جس نے سائنس میں انقلاب برپا کر دیا۔ اسی انوکھے حل کو اس نے عمومی نظریہ اضافیت کا نام دیا۔

آئن سٹائن کے اس نظریہ کو سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ زمان اور مکان دو الگ وجود کے حامل نہیں ہیں۔ زمانے کو مکاں ہی کی مانند ایک جہت قرار دیا جائے گا۔ گویا زمان و مکاں ایک ہی واحد اکائی کی جہات ہیں۔ اب اس نظریے کی بنیاد پر کشش ثقل کو پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مادہ اس اکائی میں اضافی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ مادہ اور توانائی آپس میں ایک دوسرے کے بدل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

لہٰذہ چاہے ہم مادہ کہیں یا توانائی‘ اس سے ہمارے نظریہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ توانائی مادے ہی کی ایک شکل ہے۔ مادے کی موجودگی میں زمان و مکاں کی اس اکائی میں بگاڑ یا خم پیدا ہوتا ہے جبکہ مادے کی غیر موجودگی میں یہ بگاڑ نہیں ہوتا اور اکائی اپنی فطری حیثیت یعنی خالص چپٹی حالت میں برقرار رہتی ہے۔ لہٰذہ خم پیدا ہونے کی صورت میں نزدیکی اجسام اس خمدار سطح کی جانب جھک جاتے ہیں اور ایک خاص فاصلے پر اس کے گرد مداروں میں حرکت کرنے لگتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ زمان و مکاں کی اس اکائی میں پیدا ہونے والی خمدار لہریں بھی روشنی کی رفتا ر سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو سورج کی روشنی فوراَ زمین تک پہنچ سکتی تھی۔ بلکہ زمان ومکاں کی اس اکائی میں خم کے پیدا ہونے کا ثبوت ہی یہ ہے کہ روشنی کی رفتار محدود ہوتی ہے۔

اس نظریہ نے انسانی فکر میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ زمان و مکاں کی جامد اور غیرجانبداراں ہ حیثیت کو متحرک قرار دینے والے آئن سٹائن نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خطا بھی اسی نظریہ کے غیرمعمولی اثرات سے خائف ہو کر انجام دی۔ کیوں کہ اگر زمان ومکاں کی یہ اکائی متحرک قرار دی جائے تو اس سے کائنات کی جامد ساخت کا نظریہ بلکل غلط ثابت ہو جاتا ہے۔

یہ کہ کائنات جیسی ہے ہمیشہ سے ہی ایسی تھی اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ اس لئے اس نے اپنے کام میں تبدیلی پیدا کی اور جامد کائنات کے نظریہ کو بقا دینے کی کوشش کی۔ لیکن فطرت کو کچھ اور ہی منظور تھا،گزشتہ سے پیوستہ ، سٹیفن ہاکنگ (فلسفہ” تصور خد“ا اور اسٹیفن ہاکنگ)سن 1929 عیسوی میں ہبل نامی ایک سائنسدان نے اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ثابت کر دیا کہ کائنات واقعی نہ صرف متحرک ہے بلکہ مسلسل پھیل رہی ہے۔

اس نے مشاہدہ کیا کہ جو کہکشائیں ہم سے دور ہیں وہ مزید دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی طبیعات دان یہ بھی جان چکے تھے کہ کائنات میں ہونے والے واقعات روز بروز توازن سے انتشار یا پھر ترتیب سے بے ہنگمی کی شکل اختیار کرتے جاتے ہیں۔ اس طرح سے یہ سوچنا بھی ممکن ہوا کہ ہو سکتا ہے چونکہ کہکشائیں روز بروز دور ہوتی جا رہی ہیں تو پھر زمانہ ماضی بعید میں یہ ایک دوسرے کے بہت ہی قریب رہی ہونگی۔

یعنی انکے درمیان بہت حد تک توازن پایا جاتا ہوگا۔ لیکن اگر یہ بھت قریب یا ایک ہی جگہ پر اکٹھی موجود تھیں تو پھر زمان ومکاں میں پایا جانے والا مادہ ایک ہی جگہ پر مرتکز ہوگا۔ لیکن نظریہ اضافیت کے مطابق اس سے زمان و مکاں کی اکائی میں بہت زیادہ حد تک خم پیدا ہوا ہوگا۔ اور یوں ممکن ہے کہ ایک ایسا بھی وقت ہو گا کہ ساری کائنات کا مادہ وتوانائی ایک ہی نقطہ پر مرتکز ہو۔

اور یوں کسی نامعلوم وجہ سے یہ سارا مادہ پھٹ پڑا ہو بالکل جیسے ایٹم بم کا مادہ شروع میں ایک گٹھلی میں مرتکز ہوتا ہے اور پھر وہ پھٹ پڑتا ہے،کائنات بشمول اسکے تمام اجزاء حتیٰ کہ زمان و مکاں بھی ایک عظیم دھماکے کی صورت میں ایک خاص نقطہء آغاز سے درجہ بہ درجہ پیدا ہوئے تھے۔ اس نطریہ کو ہی بگ بینگ نظریہ کہا جاتا ہے۔بہت جلد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ کائنات بشمول اسکے تمام اجزاحتیٰ کہ زمان و مکاں بھی ایک عظیم دھماکے کی صورت میں ایک خاص نقطہء آغاز سے درجہ بہ درجہ پیدا ہوئیتھے۔

اس نطریہ کو ہی بگ بینگ نظریہ کہا جاتا ہے۔ اپنے آغاز کے وقت یہ کائنات بہت زیادہ گرم تھی اور وقت کے ساتھ اس نے ٹھنڈا ہونا شروع کیا۔ اور اس طرح کروڑوں سال بعد اس میں سازگار ماحول بن گیا کہ کہکشائیں‘ ستارے‘ سیارے اور نظام شمسی وجود میں آئے اور پھر کافی وقت کے بعد یہاں زمین سازگار ہوئی کہ زندگی کی ابتدا ہو سکے۔ آج بگ بینگ کو تقریباَ 15 ارب سال بیت گئے ہیں۔

سائنسدانوں کی بہت بڑی تعداد آئے روز اس پر مزید تحقیق کر رہی ہے۔ ان تحقیقات کی بدولت یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ نظریہ بھی ابھی نامکمل ہے اور اس کے کچھ معمہ جات ایسے ہیں جنکے بارے میں ٹھوس بنیادیں فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ ان میں سے کچھ مسائل کے حل کے طور پر 1981 میں ایلن گوتھ نامی ایک سائنسدان نے انفلیشنری کاسمولوجی کا تصور پیش کیا تھا جس کے مطابق کائنات اپنے آغاز کے دور میں انتہائی انفشاری قوت کے ساتھ پھیلی۔

اس قدر زیادہ اسراع کے ساتھ پھیلاوٴ کے نتیجے میں کائنات کے انتہائی چھوٹے حصہ جات کا سائز بڑھتا گیا اور آج انکا سائز کائنات کے سائز کے برابر جا پہنچا ہے۔ اس طرح کائنات کے چھوٹے چھوٹے خمدار حصے بڑے ہو کر چپٹے ہو گئے۔ اسی طرح اس وقت زمان ومکاں کی اکائی میں کوانٹم میکانی تھرتھراہٹ سے جو خمدار لہریں وجود میں آئیں وہ آج ہم تک ثقلی لہروں کی شکل میں پہنچ رہی ہونگی۔

یہ وہ پیشین گوئی ہے جو بانیان انفلیشن نے کی تھیں اور 17 مارچ 2014 کی دریافت اسی پیش گوئی کی طرف کامیابی کا اشارہ ہے۔اس ساری تفصیل کے بعد ہم دوبارہ اس بات کی طرف آتے ہیں کہ جس طرح نیوٹن کے قانون ثقل نے انسانی فکر پر گہرے اثرات مرتب کئے اور کائنات کی ساخت کے متعلق بہت سے غیر سائسی نظریات کو رد کیا گیا بالکل اسی طرح آئن سٹائن اور اس کے بعد آنے والوں کی طرف سے پیش کیے گیے نظریات بھی بہت حد تک انسانی زاویہ فکر اور شعور کائنات کو متاثر کرتے رہے ہیں۔

بلکہ اگر بیسیوں اور اکیسویں صدی کے ابتدائی ادوار کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ آج کا سائنسدان ان سوالات پر بھی آواز اٹھا رہا ہے جو شاید اب تک مذہب اورفلسفہ کی دسترس میں تھے۔ اسی طرح آج کا مزہبی عالم اور فلسفی بھی جدید طبیعات کو اپنا موضوع سخن بنا کر بات کرتا ہے۔ آج کے دور میں مذہب اور سائنس کے موضوع پر جس قدر بحث ہو رہی ہے ایسی بحث کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

شاید اسکی وجہ یہی ہے کہ موجودہ سائنس اور خصوصاَ علم کونیات انسان اور کائنات کے تعلق پر بنیادی سوال آٹھا رہی ہے۔ ان میں سے کچھ سوال یہ ہیں:
کیا کائنات کا کوئی آغاز بھی ہے؟
اگر کائنات کا آغاز ہوا تو کیونکر ہوا اور کیسے ہوا؟
کیا کائنات خود بخود وجود میں آ گئی؟
کیا کائنات کا کوئی اختتام بھی ہے؟
انسان کا کائنات سے کوئی تعلق ہے کہ نہیں؟
کیا انسان اور کائنات کا کوئی بنانے والا بھی ہے؟
ان سب سوالوں کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دور میں وہی نظریہ‘ مذہب یا فلسفہ قابل قبول ہو گا جو ان سوالوں کے تسلی بخش جواب فراہم کر سکے گا۔

آج کا انسان اپنے شعور کائنات کو ایک مربوط اور سائنسی بنیاد پر استوار دیکھنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں کی گئی کوئی بھی پیش رفت مستقبل کے انسان پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ سلام ہو تم پر اے بندہٴ غدا، سلام ہو تم پر اے اسٹیفن ہاکنگ!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :