مصطفی ٹائون لاہور بوگس فائلز سکینڈل

جمعہ 16 مارچ 2018

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنے قیام سے اب تک اپنی ساکھ بہتر نہیں بنا سکا آئے روز نیا سکینڈل اس کا مقدر رہا ہے لاہور میں ایل ڈی اے نے بہترین لوکیشن پر خوبصورت ہاؤسنگ سکیمیں متعارف کرائی ہیں صبر آزما مرحلوں کے بعد ان سکیموں کو عروج ملا ہے یعنی جب بندے کی قوت جواب دے جاتی ہے تب پتہ چلتا ہے اس کی انویسٹمنٹ بہتر ہورہی ہے ایل ڈی اے کی سکیموں کی ابتری اور بہتری سمیت ڈویلپمنٹ کے ساتھ عدم دلچسپی پر کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر آج ایسی رہائشی سکیم کا ذکر کرنا ہے جو نہ صرف ایل ڈی اے نے بنائی بلکہ لاہور کی خوبصورت ترین لوکیشن اوربہتر اپروچ کی حامل پنجاب یونیورسٹی کی سرسبز جگہ پر بنائی اس سکیم کا نام مصطفی ٹاؤن رکھا گیا وحدت روڈ پنجاب یونیورسٹی کی زمین پر بننے والی اس خوبصورت ہاؤسنگ سکیم کا تو بہترین لوکیشن سرسبز زمین اچھی اپروچ کی وجہ سے ڈنکا بجنا چاہئے تھا افسوس ایسا نہیں ہورہا ۔

(جاری ہے)

پنجاب یونیورسٹی کی زمین کا کچھ حصہ اس میں شامل کیا گیا اس کے بدلے ایل ڈی اے نے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسروں کو پلاٹ دیئے پنجاب یونیورسٹی کو دیئے جانے والی زمین پر بننے والے بلاک کا نام ممدوٹ بلاک رکھا گیا دیگر بلاکس میں ہدایت اﷲ بلاک، عباس بلاک، قیوم بلاک، احمد یار بلاک اور شہباز بلاک نام رکھا گیا۔ رہائشیوں کے لئے ایل ڈی اے نے ہر طرح کی ٹاؤن پلاننگ کی جدید ڈیزائن متعارف کرانے کی کوشش کی مگر LDA کے تمام بلاکس میں قبرستان کی جگہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مصطفی ٹاؤن کے قیام سے لے کر آج تک سیاست تو ہوتی آرہی ہے اگر کچھ نہیں بن سکا تو وہ قبرستان ہے مصطفی ٹاؤن کے رہائشی خاندانوں میں اگر کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اس کو اﷲ کے سپرد کرنا یعنی دفن کرنا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے ڈیڑھ ڈیڑھ دن دو دن لاشیں گھروں میں رکھ کر عزت بچانے کے لئے آبائی گاؤں میں دفن کرنے کے لئے روانہ کرنا پڑتی ہیں زندہ لوگوں کے مسائل کی بات بعد کی بات مرنے کے بعد قبر بھی دستیاب نہیں ہے۔
مصطفی ٹاؤن سے سینکڑوں رہائشی خاندان اس وقت جس کرب کا شکار ہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے میرے بہت سے پیار کرنے والے دوست احباب مصطفی ٹاؤن کے رہائشی بیشتر ایسے بھی ہیں جو دیگر علاقوں سے مصطفی ٹاؤن کی تعریف سن کر یہاں کے رہائشی بنے ہیں آتے وقت تو یقیناً وہ خوش تھے آہستہ آہستہ جب مصطفی ٹاؤن کے اندرونی بیرونی مسائل کا پنڈورا بکس کھلنا شروع ہوا تو یقیناً ہمیں بھی کوستے ہوں گے کہاں پھنسا دیا ہے اظہار نہیں کرتے اﷲ ان کا بھلا کرے مجھے ادراک ہے وہ اور سینکڑوں خاندان جس کرب میں گرفتار ہیں مصطفی ٹاؤن کے رہائشی ایسے مسائل کا شکار ہیں اگر وہ چاہیں اس سے چھٹکارا مل جائے تو شاید ممکن نہیں ہے کیونکہ قبضہ مافیا نے ایل ڈی اے کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا ہے۔ پر کشش جال میں سادہ لوح افراد پھنستے چلے گئے اور زندگی بھر کی جمع پونجی اپنے ہاتھوں سے لٹا بیٹھے رہی سہی کسر قومی احتساب بیورو کے پلیبارگینگ کے نظام نے پوری کردی ہے مصطفی ٹاؤن کے 720 سے زائد خاندان نہ جی سکتے ہیں نہ مرسکتے ہیں ایل ڈی اے میں بوگس فائلوں کا سکینڈل کہوں یا مصطفی ٹاؤن میں فائلوں کا جعلی سکینڈل کہوں اتنا ضرور کہوں گا مصطفی ٹاؤن کے رہائشیوں کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
گزشتہ 15سال سے جعلی فائلز بنانے کا مکروہ دھندہ جاری ہے اس میں اگر کہا جائے ایل ڈی اے کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے جعلی فائلز بنانے کی مصطفی ٹاؤن میں فیکٹری لگی ہوئی تھی تو غلط نہ ہو گا ایل ڈی اے کو جب 5سال سے جعلی فائلوں کے دھڑا دھڑ بننے کا انکشاف ہواتو LDA کے ذمہ داران بھی سر پکڑکر بیٹھ گئے قبضہ مافیا کہہ لیں یا فائلز مافیا کہیں انہوں نے اتنا شفاف نظام اپنایا تھا کہ کوئی شک ہی نہیں کرسکتا تھا مافیا کا پہلا ہدف ہوتا تھا مصطفی ٹاؤن میں کتنے پلاٹ ہیں جن کا بظاہر والی وارث کوئی نہیں ہے کتنے پلاٹ ایسے ہیں جو بیواؤں کے ہیں کتنے پلاٹس ایسے ہیں جن کے مالکان ملک سے باہر ہیں یہ ساری معلومات LDA اہلکار معقول معاوضے کے عوض فائلز بنانے والی جعلی فیکٹری کے کرتا دھرتا افراد کو فراہم کرتے تھے پھر اس پلاٹ کی نئے مالک کے نام کی فائلز تیار ہوتی تھیں اور ریکارڈ کلرک صاحب معقول معاوضے پر اصل فائلز پھاڑ دیتے تھے اور جعلی دو نمبر فائلز اس کی جگہ رکھ دیتے تھے اصل مالک وہ ملک سے باہر ہوتا تھا فوت ہوا ہوتا تھا وہ جب کبھی اپنے پلاٹ پر دیکھنے آیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے پلاٹ پر تو گھر بن چکا ہے جب وہ روتا دھوتا موقع پر موجود گھر کے مالک سے ملتا تھا وہ پلاٹ کے اصل کاغذات جمع فائلز دکھا دیتا تھا بھاگم بھاگ LDA کے دفتر گیا وہاں بھی اس کی بجائے نئے مالک کی فائلز موجود ہوتی تھی گورکھ دھندہ اتنا مضبوط نیٹ ورک کا حامل تھا درجنوں مالکان دھکے کھاتے کھاتے اﷲ کو پیارے ہوگئے ان کو ان کا حقیقی پلاٹ نہیں مل سکا ڈی جی ایل ڈی کو اس بھیانک کھیل کا پتہ چلا تو اس نے فوری ٹرانسفر اور عمارتیں بنانے پر پابندی لگادی۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو زمین کی ایگزیمپشن اور حقیقی ورثا کا تعین کرنے کا ٹاسک دیا تو پھر خوفناک انکشافات ہوتے چلے گئے پہلے دو سو پلاٹ پھر 3سو پلاٹ پھر 500 پلاٹس اور پھر 720پلاٹس کی فائلیں بوگس ہونے کی افواہیں سرگرم ہیں ریونیو کا شعبہ تین سال تک مصروف عمل رہا پھر 720رہائشیوں کے پلاٹس پر رہنے والوں ان کے مالکانہ حقوق کینسل کرنے سمیت ان کے خلاف انٹی کرپشن ایف آئی اے اور نیب میں کیس بنانے کا فیصلہ ہوا نیب نے LDA کے دو درجن افراد کو پکڑا پراپرٹی ڈیلرز کو پکڑا جعلی فائلز بنانے والوں کو پکڑا تمام افراد نیب کے پلی بارگینگ فارمولے میں ادائیگیوں کے بعد رہا ہوتے گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے مصطفی ٹاؤن کا اصل سٹیک ہولڈرLDA آج تک نہ نیب میں پارٹی بنا ہے ناانٹی کرپشن میں فریق بنا ہے نہ FIA میں فریق بنا ہے اس سے بھی بڑھ کر آج تک 720 ہوں یا 900ان جعلی یا بوگس قرار پانے والی فائلز کی اصل فہرست بھی مالکان یا متاثرین کو نہیں دے سکا یہی وجہ ہے وہ 720خاندان روز مرتے اور روز جیتے ہیں کبھی ان کے گھر نیب کانوٹس آجاتا ہے کبھی FIAوالے بلا لیتے ہیں کبھی انٹی کرپشن والوں کا خط آجاتا ہے۔ اتنے پیسے فی مرلہ جمع کرا دیں بیس بیس سال سے پندر پندرہ سال سے گھر بناکر بیٹھے ہوئے ایسے لوگ جواب ریٹائرڈ زندگیاں گزار رہے ہیں ان کے لئے یہ نوٹس جان لیوا ثابت ہوا ہے سیاسی جماعتیں سیاست کرنے سے آگے نہیں بڑھ رہیں اس فرد پر کیا بیتے گی جس نے ساری زندگی کی جمع پونجی لگا کر گھر خریدا ہو بچوں کو چھت کے نیچے رہنے آپ کو محفوظ سمجھ رہا ہو اس کو اچانک کہہ دیا جائے یہ چھت اور زمین آپ کی نہیں ہے اس پر گزرنے والی قیامت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ساری کہانی فرضی نہیں ہے آپ بیتی نہیں ہے بلکہ جگ بیتی ہے مصطفی ٹاؤن کے ہر گھر میں سوگ کا ماحول ہے ہر فرد ہر جماعت ہر گروپ کا دروازہ ناک کردیا ہے ابھی تک کسی جگہ سے ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی موت کے کنویں میں دھکیلنے والے پری بار گینگ کے فارمولے میں نذرانے دے کر ان کی سینوں پر مونگ دَل رہے ہیں مصطفی ٹاؤن کے رہائشیوں کا موقف ہے ہم تو زندہ درگو ہوگئے ہیں مرتے ہیں تو قبر دستیاب نہیں زندہ رہتے ہیں توچھت دستیاب نہیں ہے کوئی جو ہمارا سہارا بنے اور مافیا کے چُنگل سے نکالے اور ہمیں انصاف دلائے۔ گزشتہ روز LDA نے تازہ ترین دھماکہ کیا ہے۔2856 سے زائد پلاٹوں کی فہرست جاری کر دی ہے جو کلیئر ہیں ان کے آگے کلیئر لکھا گیا ہے جو کینسل کر دیئے گئے ہیں ان کے آگے کینسل لکھ دیا گیا ہے رحم رحم کی صدائیں چاروں طرف سے آ رہی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :