ہم شام کے لیے کیا کر سکتے ہیں !

پیر 12 مارچ 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آئی ایچ ایچ ترکی کا سب سے بڑا رفاہی ادارہ ہے ۔ شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو لاکھوں شامی مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ ترکی مہاجرین کا سب سے بڑا میزبان بن کر سامنے آیا ، اس وقت بھی تقریبا بیس سے تیس لاکھ شامی مہاجرین ترکی اور شام کی سرحد پر خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ آئی ایچ ایچ دنیا بھر میں رفاہی سرگرمیاں سر انجام دے رہا تھا، شامی مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تو آئی ایچ ایچ نے ساری توجہ شامی مسلمانوں کی طرف موڑ دی ۔

آئی ایچ ایچ نے ترکی کے مختلف شہروں میں دفاتر کھولے اور شامی مہاجرین کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا شروع کر دیا ۔ایک دن آئی ایچ ایچ کے دفتر میں چند طالبات آئیں اور کچھ پکا ہوا کھانا پیش کیا ۔ دفترا نتظامیہ نے وضاحت چاہی تو ان طالبات نے عر ض کیا ” آپ کے دفتر کے ساتھ ہمارا ہاسٹل ہے ، ہم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس ہیں اور اس ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں ، ہم روزانہ دیکھتی ہیں کہ شامی مہاجرین دفتر میں رجسٹریشن کے لیے آتے ہیں ہم ان مسلمان بھائیوں کے لیے اور تو کچھ نہیں کر سکتی لیکن ہم جو اپنے لیے کھانا بناتی ہیں اس میں کچھ اضافی کھانا بنا لیتی ہیں ، ہم یہ کھانا لے کر حاضر ہوئی ہیں ، آپ یہ کھانا شامی مہاجرین میں تقسیم کر دیں ۔

(جاری ہے)

“ دفتر انتظامیہ نے طالبات کا شکریہ ادا کیا اور کھانا وصول کر لیا ۔ کچھ عرصے تک طالبات روزانہ کھانا جمع کرواتی رہیں ، اس کے بعد انہوں نے اگلا قدم اٹھایا ، ان کے پاس جو تھوڑی بہت رقم تھی اس کا سامان خریدا ، یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت لی اور یونیورسٹی میں کھانے کا سٹال لگانا شرو ع کر دیا ۔ یہ روزانہ کھانے کی کوئی ڈش تیار کرتیں اور یونیورسٹی میں سٹال لگا لیتی ، اس کے ساتھ انہوں نے ایک بینر بھی لکھ کر لگا دیا کہ اس سٹال کا سارا نفع شامی مہاجرین کے لیے وقف ہے ۔

عوام اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے سٹال میں دلچسپی لی اور ذیادہ سے ذیادہ خریداری کی ، طالبات کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوئی اور انہوں نے پروجیکٹ کو مزید بڑھا دیا ،یہ یونیورسٹی سے باہر نکلیں اور اہم جگہوں اور شاہراہوں پر سٹال لگانا شروع کر دیا ۔ یہاں بھی ان کے کام کو مقبولیت حاصل ہوئی اور ایک معقول رقم جمع ہونے لگی ۔ اکتوبر 2017میں ایک پاکستانی وفد جس میں کچھ علماء اور صحافی شامل تھے خبیب فاوٴنڈیشن کی دعوت پر ترکی گیا، خبیب فاوٴنڈیشن واحد پاکستانی رفاہی ادارہ ہے جو شامی مہاجرین کی مدد میں پیش پیش ہے ۔

خبیب فاوٴنڈیشن کے سربراہ ندیم احمد ایک متحر ک اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں انہوں نے شامی مہاجرین کی مدد کے لیے شام اور ترکی کے سرحدی علاقوں پرمتنوع پروجیکٹ شروع کر رکھے ہیں جن کی تفصیل اگلے کسی کالم میں عرض کروں گا ۔ پاکستانی وفد ترکی پہنچا تو آئی ایچ ایچ انتظامیہ نے وفد کو ان طالبات سے بھی ملوایا ، وفد کی قیادت مفتی ابو لبابہ صاحب کر رہے تھے ، میں مفتی صاحب کے بارے میں کچھ ذیادہ نہیں جانتا بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ امت کے غم میں پگھلنے والی شخصیت ہیں ، میں امت کے لیے ان کے اضطراب اور بے چینی کو بن دیکھے محسوس کر سکتا ہوں ، ان کی زندگی کا محور صرف اور صرف اسلام اور پاکستان ہیں اورمجھے فخر ہے کہ میں مفتی صاحب کے عہد میں زندہ ہوں ۔

مفتی صاحب کی قیادت میں وفد نے طالبات کی کارگزاری سنی تو بہت سوں کی آنکھیں ساون بن گئیں۔ مفتی صاحب نے ان کے جذبے کو سراہا کہ آپ خوش قسمت ہیں جو سرزمین انبیاء کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں اور ساتھ ہی معذرت بھی کی کہ ہم پاکستانی شام کے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کر سکے ۔ مفتی صاحب نے پوچھا کہ آپ کو اپنی سرگرمیوں کے لیے کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیں ، طالبات نے بتایا کہ کام کافی بڑھ گیا ہے جس کے لیے آٹا گوندھنے کی مشین ، فریج، اوون اور دیگر سامان کی ضرورت ہے ۔

وفد میں لاہور کے ایک تاجر بھی شریک تھے ، مفتی صاحب نے ان کی طرف دیکھا ، انہوں نے فورا حامی بھر لی اور شام تک مطلوبہ چیزیں خرید کر طالبات کے حوالے کر دیں ۔ یہ طالبات آج بھی اسی شوق اور جذبے کے ساتھ شامی مہاجرین کی خدمت میں مصروف ہیں اور ان کی خدمات کا دائرہ متنوع اور وسیع ہوتا جا رہا ہے ۔
میں نے پچھلاکالم شام پر لکھا تو بہت سارے لوگوں نے پوچھا ہم شام کے لیے کیا کر سکتے ہیں ، اگر سینے میں دھڑکتا دل ، انسانیت کا درد اور امت کی فکر موجود ہو تو یہ سوال لایعنی ہو جاتا ہے ، ان طالبات کو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔

شام پر جو قیامت ٹوٹی ہے اور جس قدر ظلم و ستم وہاں ہو رہا ہے پوری امت کو جاگ جانا چاہئے تھا، ایک دو نہیں لاکھوں خاندان اجڑ گئے ہیں ،لاکھوں مہاجر شام اور ترکی کی سر حد پربے یار و مددگار پڑے ہیں، ہزارو ں ہسپتالوں میں پڑے ہیں ، سب سے ذیادہ متاثر بچے اور خواتین ہو رہی ہیں ، ہزاروں بچے والدین سے بچھڑ گئے اور ہزاروں اعضا ء سے محرروم ہو گئے ہیں، ایٹم بم کے سوا ہر خطرناک ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، یہ لوگ انبیاء کی نسل سے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پوری امت اپنا طرز زندگی بدل لیتی لیکن یہاں تو احساس تک نہیں ہوا۔

افسوس اس پر نہیں کہ ہم ابھی تک بیدار نہیں ہوئے بلکہ اضطراب یہ ہے کہ آئندہ بھی ایسی کو ئی چنگاری نظر نہیں آ رہی ، صرف ترکی اور پاکستان سے کچھ لوگ اس دردکو محسوس کر رہے ہیں ۔ آج ہمیں امت بننے اور امت کا درد محسوس کرنے کی ضرورت ہے ، جو جس جگہ پر ہے وہاں رہتے ہوئے امت کا حصہ بن جائے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرے ۔حکمرانوں سے یہ امید نہیں کہ وہ عالمی برادری میں کوئی موثر کردار ادا کریں یہ کام میں نے اور آپ نے کرنا ہے، استاد نئی نسل کو امت پنے کا سبق دے ،تاجر اپنے مال کا کچھ حصہ نکالے، ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کچھ وقت نکال کر شام اور ترکی کی سرحد پر موجود ہسپتالوں میں وقت دیں اور سب سے اہم کردار نوجوان نسل کا ہے ۔

آپ اور کچھ نہ کریں صرف اپنا طرز زندگی بدل لیں ،خود کو امت کا حصہ بنا لیں اور دنیا میں کہیں بھی کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر افتاد ٹوٹے تو آپ اس کو محسوس کرسکیں۔ آپ شامی مسلمانوں کے لئے اور کچھ نہ کریں آپ صرف یہاں بیٹھ کر اس دکھ درد کو محسوس کر لیں ، آپ اپنی سرگرمیوں کو مثبت سمت پر لے آئیں، آپ اپنی اسٹڈی کو مقصد کے تحت کر دیں اور آپ کی سرگرمیوں میں اسلام کی نشاة ثانیہ کا احساس زندہ ہو جائے ۔

اس وقت سب سے بڑا دکھ نوجوان نسل کی بے راہ روی اور بے مقصدیت ہے ، کسی کو کوئی فکر ہے نہ احساس ، زندگی کیسے گزر رہی ہے اور کیسے گزارنی ہے کسی کو کچھ احساس نہیں ، عالمی اور قومی حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں اور مستقبل میں مجھے کیا کردار ادا کرنا ہے کوئی اس بارے میں نہیں سوچتا۔ میں جب کسی یونیورسٹی میں جاتا ہوں تو دل ڈوب جاتا ہے ، اپنے مستقبل ، اپنے ملک اور امت کے حالات سے بے فکرنوجوان ، علم نہ گہرائی، تحقیق نہ تجزیہ، فکر نہ احساس، تہذیب نہ تمییز، حال سے واقفیت نہ مستقبل کا ادراک ۔

یہی حال مدارس کے طلباء کا ہے، ایک لگا بندھا نصاب اور لگی بندھی روٹین ، صبح سے شام او ر شام سے صبح ، نہ زمانے کے حالات کی خبر نہ مستقبل کے چیلنجز کا ادراک ، کوئی منصوبہ بندی نہ امت کی فکر بس ایک روٹین ہے جو چل رہی ہے اور یونہی چلتی رہے گی۔ شام میں جو ہو رہا ہے وہ دکھ اپنی جگہ مگر اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ یہ امت اور اس کا نوجوان خون ابھی تک سویا ہوا ہے ، اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی اگر یہ خون جاگ جاتا تو تکلیف کا احساس کم ہو جاتا مگر دکھ اور اضطراب ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :