اگر نواز شریف جیل چلے گئے تو۔۔۔

اتوار 4 مارچ 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

حالات بتا رہے ہیں اب کچھ بھی بعد از قیاس نہیں رہا۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ سب کے سامنے کی بات ہے اگر ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم کو تیسری دفعہ صرف ایک اقامے کی بناء فارغ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اسی بنیاد پر اس کو پارٹی کی صدارت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ اگر اسی بنیاد پر اس کے کیے تمام فیصلوں کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نامزد امیدواروں کو پارٹی شنا خت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو سینٹ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیئے ان کو ” آذاد“ کا رتبہ دیا جا سکتا ہے۔ اگر اسی فیصلے کی بناء پر انکی تقریر کو نشر پر پابندی کے فیصلے پر سوچا جا سکتا ہے تو اس بات سے قطع نظر کی نواز شریف کا بیانیہ کس حد تک لوگوں کے ذہنوں مین پہنچ چکا ہے؟ عوامی رد عمل کیا ہو سکتاہے ؟ لوگ کیا سوچتے ہیں؟ سول سپریمیسی کیا کہتی ہے؟ ووٹ کا تقدس کیا درس دیتا ہے؟ ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے؟ مستقبل کس تاریکی کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ ان سب سے بعید ہو کر بہت حد تک ممکن ہے کہ نواز شریف کی آواز کو دبانے کے لیے ، انکے بیانیئے کو منظر عام سے ہٹانے کے لیے ، ان کو جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

مریم نواز ووٹ کے تقدس کے بیانیے میں نواز شریف کی دست راست ہیں۔ انکی آواز کو بھی دبانے کے لیے یہی فارمولا اختیار کیا جا سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو عوام اور سیاست کس کروٹ بیٹھے گی۔
نواز شریف اور مریم نواز بخوبی اس خدشے سے آگاہ ہیں اور اسکا خمیازہ بھگتنے کے لیے مکمل طور پر تیار نظر آتے ہیں۔ اگر ان کے لہجے میں کہیں نرمی آتی، بیانے میں کہیں جھول پڑتا، اداروں کے خلاف بیان میں کوئی یو ٹرن آتا تو کسی ڈیل کی بات ہو سکتی تھی۔

لیکن یہاں پر معاملہ الٹ پو رہا ہے۔ جتنی سختی نواز شریف پر ہو رہی ، اتنی شدت اور تلخی ان کے بیان میں آتی جا رہی ہے۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ اب عوام کے ذہنوں میں سرایت کر گیا ہے۔ اب لوگ بات سمجھ گئے ہیں۔ ستر سالہ تاریخ کا المیہ اب واشگاف ہو کر لوگوں کے سامنے آ رہا ہے۔جلسوں میں عوام کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

سارے پاکستان میں عوام کے حق حاکمیت والا نعرہ زور پکڑ رہا ہے۔ ایسے مٰیں جیل جانے سے بڑی خوش بختی کیا ہو گی۔ الیکشن کا موسم آیا ہی چاہتا ہے۔ ایسے میں مظلومیت کا ووٹ بہت اہم ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جہاں عوام کا شائبہ بھی ہوتا کہ کسی شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کہیں عوام کا حق مارا گیا ہے، عوامی نمائندوں کی تزلیل کی گئی تو عوام ایسے فرد یا جماعت کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اس چٹان کے ساتھ بعد میں کیا سلوک رکھا جاتا ہے یہ بعد کی باتیں ہیں مگر الیکشن میں جیت مظلوم اور مضروب پارٹی ہی مقدر ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بے نظیر بھٹو کا پہلا الیکشن ہے۔ گیارہ سال بھٹو کے نام کو مٹانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے لیکن جیسے ہی لوگوں کو موقع ملا عوامی سیلاب ماضی کے سب فیصلوں کو خس خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔


فرض کریں اگر الیکشن کی مہم کے دوران نواز شریف اور مریم نواز پابند سلاسل ہوں گے، انکی آواز کو لوگوں تک پہنچے میں ہر روکاوٹ کھڑی کی جائے گی، انکی تحریر اور تقریر پر قدغن لگے گی، انکی زباں بندی کی ہر ممکن کوشش کی ائے گی، انکی سے ملاقات پر پابندی ہوگی، انکے جیل سے
خطاب کی بھی ممانعت ہو گی، موبائل کے ذریعے وٹس ایپ پیغام بھی ووٹروں کو نہیں دیا جا سکے گا تو ایک بات تو قطعی ہے پی ایم ایل ن کو ایک بڑی فتح سے نہیں روکا جا سکتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دو لیڈروں کی عدم موجودگی میں الیکشن مہم کون چلائے گا۔ عوام سے نعرے کون لگوائے گا۔ جلسوں میں لوگ جوق در جوق کس کے کہنے پر آئیں گے۔بظاہر تو میاں شہباز شریف ہی پارٹی کی قیادت کریں گے۔ اسی مقصد کے لیے احتیاطا ان کو پارٹی صدر کے طور پپر بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔لیکن کیا میاں شہباز شریف ، نواز شریف کا بیانیہ لے کر آگے چل سکیں گے؟ کیا وہ عوامی طاقت کو ووٹ میں تبدیل کر سکیں گے؟ اس بات کا اعادہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی بارہا کر چکے ہیں کہ ووٹ نواز شریف کے نام کا ہے۔

مشاہد اللہ خان، مریم نواز، احسن اقبال، خاجہ آصف بھی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں۔ اب اگر شہباز شریف الیکشن کی مہم چلاتے ہیں تو ان کے پاس ترقی اور میگا پراجیکٹس کا بیانہ ہے۔ جو کہ نواز شریف کے بیانیے کو تقویت تو دیتا ہے مگر یہ در حقیقت نواز شریف کا موجودہ بیانہ نہیں ہے۔ نواز شریف اس ملک کی تاریخ کی بات کر رہے ہیں ، اداروں کی چیرہ دستیوں پر آواز بلند کر رہے ہیں، جمہوریت کا نعرہ لگا رہے ہیں، آمریت کے مضمرات گنوا رہے ہیں۔

جبکہ شہاز شریف وہ شخصیت رہے ہیں جنہوں نے اداروں سے ہمیشہ مفاہمت کی بات کی ہے۔ ان کے کسی بیان میں آمروں کی مخالفت نطر نہیں آتی، انکی کسی تقریر میں انصاف کے نام پر عدالتوں کے ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر نہیں ہے۔شائد یہی وجہ ہے بطور منتظم آپ شہباز شریف کی جتنی بھی تعریف سن لیں مگر بحثیت عوامی لیڈر وہ کبھی بھی مقبول نہیں رہے۔
مشاہد اللہ خان، مریم نواز، احسن اقبال، خاجہ آصف ، شاہد خاقان عباسی اور سعد رفیق جیسے نواز شریف کے جانثار اپنی بساط بھر کوشش ضرور کر سکتے ہیں مگر ان میں سے کا رتبہ عوام کی نظر میں نواز شریف جتنا نہیں ہے۔

ایسے میں سب سے زیادہ مشکل شہبا ز شریف کے اوپر آئے گی۔ اگر وہ اداروں کے ساتھ تعا ون کا بیانیہ اختیار کرتے ہیں تو اس بیانئے کی موجودہ صورت حال میں عوام میں پذیرائی ممکن نہیں اور اگر وہ نواز شریف کا بیانہ لے کر آگے بڑھتے ہیں تو اداراتی سازشیں انکے خلاف شروع ہو جائیں گی۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ابتر صورت حال کو دیکھ کر اور مشترکہ اپوزیشن کے لاہور میں بدترین جلسے کا حال دیکھ کر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگے انتخابات میں مسلم لیگ ن ایک بڑے مارجن سے فتح حاصل کرے گی۔

نواز شریف کے گرفتاری اس مارجن میں بڑھوتری کا باعث بنے گی۔ یہ جو بحرانی کیفیت ہے یہ صرف ایک وقتی انتشار اور سازش ہے ۔ اگر سینٹ میں مسلم لیگ ن کے امیدوار اپنی قیادت پر قائم رہتے ہیں اور قومی اسمبلی کے ایوان بھی مسلم لیگ ن کی اکثریت سے بھرے ہوتے ہیں تو پھر فیصلہ وہ ہو گا جو پارلیمان کرے گی۔ عدلیہ کے غلط فیصلوں کی تاریخ ہو یا ڈکٹیتروں کے احتساب کا نعرہ ہر فیصلے پر عوام کے منتخب نمائندوں کی مہر ثبت ہوگی۔

اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہو گا کہ نواز شریف اپنے بیانیئے کی جنگ جیت گئے ہیں اس سے صرف اتنا فرق پڑے گا کہ عوام کے حق حاکمیت کی منزل جانب پہلا قدم درست سمت میں پڑے گا۔ اداراتی سوچ بدلنے کے لیے ایک الیکشن اور ایک مقدمہ بہت ناکافی ہے اس جدوجہد میں کئی برس اور کئی زندگیاں لگیں گی۔ حالات اس وقت بدلتے ہیں جب آپ انکو بدلنے کا ارادہ کر لیں ۔ نواز شریف کا ارادہ بہت واضح نطرآ رہا ہے۔ ان کی جنگ اب ذاتی نہیں رہی۔ اس کا مطمع نطر اب عوامی ہو چکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :