لمحہ فکریہ

جمعہ 2 مارچ 2018

Farhan Khan

فرحان خان

پاکستان تحریک انصاف کو ایک بار پھر صوبائی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لودھراں الیکشن ایک بہت بڑا upset ۔ مسلم لیگ نواز کے مطابق عمران خان صاحب کی ائے ٹی ایم مشین جہانگیر ترین خان کے بیٹے علی ترین کو ایک غیر معروف سیاستدان جن کو ن لیگ کے اپنے حلقوں میں لوگ نہیں جانتے تھے، جیت اُن کا مقدر بنی۔ لمحہ فکریہ یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے بھی یہ آوازیں سننے کو ملیں کہ پیسہ ہار گیا اور نظریاتی تحریک انصاف جیت گئی۔

اب عمران خان صاحب کے اس دوہرے معیار پر کافی اعترازات بھی کئے جارہے ہیں۔ ایک طرف نواز شریف صاحب کی نااہلی کے بعد اُن کو پارٹی کا صدر منتخب کرنا جس پہ پاکستان تحریک انصاف سراپا احتجاج رہی اور دوسری طرف جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد ان کے بیٹے کو ٹکٹ سے نوازنا بہت سے سولات کو جنم دیتا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کا شفافیت کا راگ الاپنا لیکن اس کے برعکس لودھراں میں اتنی بے بسی کیوں نظر آئی؟ کیا پارٹی کے پاس کوئی ایسا امیدوارنہیں تھا جس کو لودھراں سے الیکشن لڑوائیا جائے یا پھر عمران خان صاحب نے سمجھوتے کی سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔

عمران خان صاحب کو بڑی سنجیدگی سے سوچناہوگا اور اپنی غلطیوں کو ماننا ہوگا سوچنا ہوگا کہ الیکشن آپ کے روزمرہ کے سوشل میڈیا پر جاری کردہ ٹویٹ نہیں، جب دل کیا جسے دل کیا نواز دیا ،کیا الیکشن جیتنے کی اہلیت صرف اربوں روپے کے مالک قرضہ معاف کروانے والے نیب زدہ لوگ یا سیاسی لوٹے ہیں؟ تو پھر خان صاحب کا Narrative شفاف اور پاک پاکستان اب مکمل طور پر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔

اگر مریم نواز کی اہلیت اور بلاول بھٹو کی اہلیت پر آپ اعتراض کرتے ہیں تو پھر علی ترین پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ عمران خان صاحب کی سیاسی وجہ شہرت اُن کی ذاتی کرپشن سے پاک ماضی ہے جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی برملا کرتے ہیں۔ 2013کے الیکشن میں لوگوں نے ایک تبدیلی اور امید کے لئے آپ کو ووٹ ڈالا اور اس بات کا سہرہ بھی آپ کو جاتا ہے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ سب سے زیادہ ووٹ 2013 کے الیکشن میں آپ ہی کی وجہ سے کاسٹ ہوئے تھے۔

لیکن خان صاحب کی ذاتی زندگی کے فیصلے بھی اُن کی پارٹی اور سیاست کو متاثر کررہے ہیں۔ یہاں کوئی بھی آپ کی زندگی کو ذاتی قرار دے کر چپ نہیں رہے گا۔ آپ قومی ہیرو اور ایک لیجنڈ ہیں، لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں اور جن سے محبت کی جاتی ہے ان کے بارے میں جاننا عوام کا حق ہے۔ آپ کے حامی آپ کی سیاسی حمایت کرنے کی بجائے آپ کی ذاتی زندگی کا دفاع کرتے رہتے ہیں۔

نظریاتی کارکن جن کامفاد پاکستان اور عمران خان سے جڑا ہے کچھ نالاں نظر آتے ہیں۔ پارٹی کے فیصلوں پر خان صاحب کے ارد گرد جب سیاسی لوٹے نظر آتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے آپ بھی سیاسی ایلیٹ فورس کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ الیکشن میں بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے اب بڑے بڑے فیصلے انتہائی سمجھداری سے کرنے ہوگئے نظریاتی کارکنوں کی اہم مشوروں کو شامل کرتے ہوئے جنرل الیکشن کی تیاری کرنا ہوگی اور وہ تمام نظریاتی لوگ جن کی وابستگی صرف پاکستان تحریک انصاف سے ان کو ترجیح دینا پارٹی کے لئے اور ملک کی سیاست کے لیے بہت بہترہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :