بڑے دن کا آغاز.... ایک چھوٹے سے کام سے !!

جمعہ 2 مارچ 2018

Dr Azhar Waheed

ڈاکٹر اظہر وحید

لاہور سے تقریبا سو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے جسے ’چورکوٹ‘ (حالیہ احمد آباد) کہتے ہیں ، یہ ضلع قصور کے نواح میں کھڈیاں سے بارہ کلومیٹر اندر واقع ہے.... مگر واقعہ کچھ اور ہے۔ حالات ، وقت اور وسائل واقعہ نہیں بنتے، واقعہ یہ ہے کہ واقعہ انسان بنتا ہے ....ہاں! جب وہ انسان بننے کی ٹھان لیتا ہے۔ مذکورہ گاؤں سے دو نوجوان اشفاق احمد اور محمد آصف کبھی کبھی ملنے کیلئے آیا کرتے تھے۔ بحمدللہ ! راقم بطور مصنف ، مدیر اور کالم نگار اپنے قارئین سے ملاقات میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتا۔ جو شخص تحریر کے حوالے سے ملاقات کی غرض سے گھر چل کر آیا ہے،اس کا حق ہے کہ اس کی میزبانی کی جائے۔ میزبانی صرف چائے پانی کا پوچھنا ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی کے مسائل کا ادراک اور پھر سد باب کرنا بھی آدب ِ میزبانی میں شامل ہے۔

(جاری ہے)

میزبانی خندہ پیشانی سے شروع ہوتی ہے اور مہمان کے دل کے اندر داخل ہونے تک جاری رہتی ہے۔ جو آپ کے گھر میں داخل ہوتا ہے‘ اخلاق کا تقاضا ہے کہ آپ اس کے دل میں داخل ہو جائیں۔کسی کے دل میں داخل ہونے کیلئے اپنا دل بڑا کرنا ہوتا ہے۔ کوئی تنگ دل کسی کے دل میں داخل نہیں ہو سکتا۔
آمدم برسرِ مطلب، اشفاق اس گاؤں میں بچوں کو پڑھایا کرتا تھا، کم آمدنی والے لوگ ظاہر ہے کم فیس ہی دے سکتے تھے۔ ایک دن میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جس کچے گھر میں میرا سکول ہے، اس کی چھت کی ایک کڑی گر گئی ہے ، شکر ہے کوئی بچہ تو زخمی نہیں ہوا لیکن والدین نے ڈر کے مارے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھا لیا ہے۔ اب بچے اتنے کم ہوچکے ہیں کہ خرچہ پورا نہیں ہوتا، اس لیے میں نے سوچا ہے کہ اسکول بند کر دیا جائے، اور آپ میرے لیے شہر میں کسی نوکری کا بندوبست کریں۔ میں نے کہا‘ برخوردار! تم ایک باصلاحیت گریجویٹ نوجوان ہو، تمہیں تو یہاں بیس پچیس ہزار کی نوکری مل جائے گی لیکن گاؤں میں ان چالیس پچاس بچوں کا کیا بنے گا جو تمہارے اسکول نما ٹیوشن سینٹر میں پڑھ رہے تھے۔ میری مانو، وہیں بچوں کو پڑھاتے رہو، صبر سے کام لو، چھت ڈلوانے کا بندوبست ہم کیے دیتے ہیں، وہاں تعلیم و تربیت کا سلسلہ منقطع نہ کرو۔ سعادت مند نوجوان صبر سے بات سنتا رہا، داد طلب بات یہ ہے کہ سال بھر اس پر عمل بھی کرتا۔خالی بات سن لینے میں بھی سعادت ہوتی ہے۔
الغرض اس نوجوان کی مدد کیلئے کچھ مخلص دوستوں کو ہمراہ لے کر اس کے گاؤں پہنچے ، دیکھا کہ وہ جسے اسکول کہہ رہا تھا، ایک بوسیدہ سا "ڈھارا" تھا،اگر وہاں بھینسیں بھی باندھی جائیں تو مائنڈ کر لیں۔ کچی مٹی سے بنی ہوئی کانوں کی چھت تھی جو چند اینٹوں کے ستونوں پر کھڑی تھی ، اور وہ ستون بھی ایسے ٹیڑھے میڑھے تھے کہ مزید کھڑا ہونے سے کسی وقت بھی انکار کر سکتے تھے۔ بیٹھے کو کرسی تک نہ تھی، بچے صف نما چادر پر بستہ کھولے بیٹھے تھے۔ استاد لکڑی کے ٹوٹے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین اس کی اپنی نہیں، فی الوقت وہ جگہ اس کے کسی چچا نے اسے بطور احسان دے رکھی ہے۔ چھت کی مرمت تو د±ور کی بات ، پورا اسکول ہی مرمت طلب تھا۔ کچھ دوستوں نے رائے دی کہ اگر یہاں چھت تعمیرکی گئی تو اس کے رشتہ دار اس سے واپس لے لیں گے، اور یہاں اپنی بھینسیں باندھا کریں گے جو بہر طور ایک زیادہ منافع بخش کام ہے۔ اس لیے بہتر ہے کسی ایسی جگہ عمارت تعمیر کی جائے گا جو اس کی ذاتی ہو.... لیکن درویشوں کے ہاں ”ذاتی“ نام کی جگہ کہاں پائی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ گاوں سے باہر کھیتوں میں ایک کنال جگہ کا بندوبست کیا گیا۔ گاؤں کے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ شہری بابو کوئی جگہ لینا چاہتے ہیں تو سب نے گاوں کی زمین شہری قیمت پر بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم نے انہیں بڑا قائل کیا کہ آپ کے گاؤں کے اسکول کیلئے جگہ چاہیے ، آپ لوگوں کو تو بلاقیمت وقف کردینی چاہیے .... لیکن جمود زدہ لوگ اسے بھی اپنا دشمن تصور کرنے لگتے ہیں جو انہیں جمود کے آزار سے نکالنا چاہے ، بعض اوقات مریض دوا لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ ایسے میں معالج کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔ معالج یہ کہہ کر اپنا بستہ سمیٹ نہیں سکتا کہ ہم تو علاج کرنا چاہتے ہیں، مریض ہی موت پر راضی ہے تو ہم کیا کریں۔
القصہ گاؤں سے باہرکھیتوں کے عین درمیان پانچ کمروں پر مشتمل ایک سادہ سی عمارت اٹھائی گی اور اس زمین کے ملکیتی کاغذات اشفاق کے سپرد کر دیے گئے۔ اس کے اسکول کا نام "لاہور انگلش اسکول" رکھا گیا۔ اس نام کی ایک اور نام سے نسبت ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے 1960ءکی دہائی میں ایک تعلیمی ادارہ " لاہور انگلش کالج" بنایا تھا۔ درس و تدریس کے باب میں صبح آپؒ تدریس میں مصروف رہتے اور رات کے سمے درس میں۔ گویا صبح لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر تعلیم میں داخل کرتے اور پھر ان تعلیم شدہ مگر تشکیک شدہ زدہ دلوں کو رات کے سمے ایمان اور تسلیم کے نور میں داخل کرتے۔ چشمِ فلک نے آپؒ کو صبح و مسا اسی ریاضت میں منہمک پایا۔
واقعات مکمل ہوئے بغیر ہم خیالات تک نہیں پہنچ سکتے، پہلے واقعات مکمل کرنے دیں.... کسی فنڈنگ اور فنڈ ریزنگ جیسی حرکت کے مرتکب ہوئے بغیر تین قریبی احباب نے اس کارِ خیرکو اپنے ذمے لے لیا۔ ان کے نام بغرضِ درخواست اور اخلاص مشتہر نہیں کیے جا رہے۔ لاہور انگلش اسکول کا پراجیکٹ ایک سال میں مکمل ہوا۔ یوم قائدؒ کی مناسبت سے کل اس کی افتتاحی تقریب تھی....ایک چھوٹے سے کام کا آغاز ایک بڑے دن میں کیا گیا۔ تقریبِ مذکورمیں مہمانوں کی فہرست میں قصور کے ڈی ایس پی عبدالواحد ڈوگر، لاہور نالج پارک کے سی ای او عبدالرزاق، یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شامل تھے۔ سب احباب نے اہل دیہہ کی خوب ہمت بندھائی اور سب دوستوں کوخوب خوب سراہا۔
دراصل فلاحی کاموں کی سب سے زیادہ ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں لوگوں کو اس کا شعور بھی نہ ہو کہ انہیں فلاح چاہیے۔ روشنی کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں اندھیرا ہوتا ہے۔ احباب کی رائے یہ تھی اس اسکول کو ایک فلاحی مرکز کی حیثیت سے پروان چڑھایا جائے۔ شام کو تعلیمِ بالغاں ، بچیوں کیلئے دستکاری اسکول، گاو¿ں کے بڑے بچوں کیلئے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور ایک لائیبریری بنائی جائے۔ میری تجویز تھی کہ یہاں ایک کمرے میں فری ڈسپنسری بھی کھولی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے میں نے خود کو پیش کیا، بشرطِ توفیق ہفتے میں ایک دن وہاں مریضوں کا علاج کروں گا۔ انشاء اللہ تعالٰی، وما توفیقی الا بااللہ!! ”لاہور انگلش اسکول“ کا مونوگرام حضرت واصف علی واصفؒ کی کتاب” کرن کرن سورج“ کے سرورق سے مشتق ہے ....اور اس پر رہنما الفاظ ”تعلیم ، تربیت ، اخلاق“ درج ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ وسائل سے کام ہوتا ہے ، اس کام کے دوران میں معلوم ہوا کہ کام جذبے سے ہوتا ہے۔ انسانی جذبہ کرامات ایجاد کرتا ہے۔ جذبہ وسائل کو از خود اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کشش جذبے میں ہوتی ہے، لوگ وسائل کو پ±رکشش جانتے ہیں۔ دراصل ہم میں سے کوئی شخص اتنا غریب نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی مدد نہ کر سکے۔ ہم معاشرے کی جس بھی سیڑھی پر قدم رکھے ہوئے ہیں، کچھ لوگ ہم سے آگے ہوں گے اور کچھ پیچھے۔کام صرف اتنا ہے کہ اپنے سے نیچے والوں کو اوپر آنے میں مدد دیں.... ان کا بازو پکڑ لیں!! صرف اتنے سے کام سے معاشرے میں غربت اور جہالت دُور ہو جائے گی۔ غربت پیسے کی کمی سے نہیں.... خود غرضی سے پیدا ہوتی ہے۔ حکومتوں کا گلہ شکوہ کرنے بجائے صرف اپنے حصے کا دیا جلاتے جائیں.... چراغاں ہو جائے گا۔ کالم کی صورت میں یہ چند سطور تحریر کیے دیتا ہوں‘ تاکہ سند رہیں اور بصورتِ تحریک کچھ دلوں کے کام آئیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :